از قلم: شکیل احمد، فرید پور مراداباد
اعلان نبوت سے قبل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ذات اوراپنی حیاتِ گذشتہ کے ایام کفارِ مکہ کے سامنے پیش کیے ،اور کوہِ صفا پر تشریف لاکر فرمایا: اے لوگو! میری حیات کے چالیس سال آپ کے درمیان گزرے ہیں، آپ نے مجھے کیسا پایا ؟ توتمام کفار مکہ نے یک زبان ہو کر کہا: کہ "ہم نے آپ کو امین و صادق ، خوش اخلاق، صاحب کردار، تمام عیوب ونقائص سےپاک اور منزہ پایا۔”
جب کفار مکہ نے آپ کی ذات کو مان لیا، تو ھادییِ کل ، سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بات پیش کی۔فرمایا: اے لوگو! اللہ ایک ہے ، بےعیب ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، توجو خوش قسمت تھے وہ آقاے کریم کے فرمانِ عالیشان پر سرِ تسلیم خم کرکے ایمان لے آئے اور جو بد قسمت تھے وہ پشت پھیر کر ایمان کی لازوال دولت سے محروم رہے۔
حاصل تحریر یہ ہے کہ دورِ حاضر کے قائدین، مفکر قوم وملت کہلانے والے اپنے شب و روز اور نشیب و فراز کا جائزہ لیں!!
پھر قوم کو اپنے نمایاں کردار اور خوش اخلاق سے سنتِ نبوی پر عمل کرتےہوے متاثر کرکے اپنی ذات کو منوائیں، پھرمیدانِ اصلاح میں آئیں، تو قوم آپ کی ذات سے متاثر ہوکر بات سے متفق ہوگی، مسلکی تنازعوں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کرکے اقوالِ مصطفٰی، کردارِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم، وکردارِ صحابہ کرام اور ان کے اعمال و افعال اور عبادت و ریاضتِ اولیاے کرام قوم کے سامنے پیش کریں تاکہ قوم کی اصلاح ہو۔
مسلکی اختلافات پیش کرکے قوم کی اصلاح کرنا بہت مشکل امر ہے؛ سلاسل کے فروعی اختلافات کو درگزر کرتے ہوئے حسن اخلاق کے ذریعہ صراطِ مستقیم سے روشناس کرائیں تو
ان شاء اللہ قوم کی اصلاح ممکن ہے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے:” ہماری خطاؤں کومعاف فرمائے اور ہمیں اپنی اور اسلامی بھائیوں کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔”