تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
سوال:جو دیوبندی اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں سے واقف نہیں,وہ اگر اشخاص اربعہ کو مومن مانتا ہے تو وہ کافر ہے یا نہیں؟
جواب:جو دیوبندی یا سنی کہلانے والا شخص عناصر اربعہ کی کفریہ عبارتوں سے واقف نہیں تو اگر اسے قطعی طور پر معلوم ہے کہ اشخاص اربعہ پر علمائے اہل سنت و جماعت نے کفر کا فتوی دیا ہے,اس کے باوجود وہ ان لوگوں کو مومن مانتا ہے تو کافر ہے۔
اگر عہد صحابہ یا عصر تابعین یا عہد مابعد میں کسی کے کفر کلامی پر علمائے حق کا اجماع واتفاق ہو گیا۔پھر اس کے کفر کی روایت تواتر کے ساتھ نقل ہوتی آئی۔ہر عہد میں علمائے حق اسے مرتد مانتے آئے ہیں,لیکن اس کا کفریہ قول تواتر کے ساتھ نقل نہ ہو سکا۔یا خبر واحد کے طور پر نقل ہوا تو بھی ایسے مرتد کو مرتد ماننا ہے۔
دراصل حکم کفر کے ساتھ سبب کفر بھی اجمالی طورپر منقول ہوتا ہے,اور کامل تحقیقات وہ علما کرتے ہیں جو تحقیق کرتے ہیں اور دیگر تمام علما اسی وقت اتفاق کرتے ہیں جب وہ فتوی صحیح ہوتا ہے,کیوں کہ خطا پر اجماع امت نہیں ہوتا۔
اشخاص اربعہ کے کفر کے ساتھ یہ بھی ہند و پاک میں مشہور ہے کہ دیوبندی گستاخ رسول ہیں اور اسی گستاخی کے سبب ان پر حکم کفر ہونے کی بات بھی مشہور ہے۔پس اجمالی طور پر سبب کفر بھی مشہور ہے,جس طرح حکم کفر کی شہرت ہے۔
عہد ماضی کے تمام مدعیان نبوت کے کفری اقوال سے ہم مطلع نہیں۔ہرایک مدعی نبوت کا کفری قول بھی تواتر کے ساتھ نقل نہ ہو سکا,بلکہ بہت سے مدعیان نبوت کا کفریہ قول خبر واحد کے طور پر بھی منقول نہیں۔اس عہد کے علمائے حق نے ان مدعیان نبوت کے اقوال کی تحقیق کے بعد کفر کلامی کا حکم جاری کیا اور اس عہد سے آج تک مومنین ان مدعیان نبوت کو کافر مانتے آ رہے ہیں۔
عبد اللہ بن سبا کی فتنہ پروری کے سبب بعض لوگ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا کہنے لگے۔حضرت شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سب کو مرتد سمجھ کر جلا دیا,کیوں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔
آج تک امت مسلمہ الوہیت مرتضوی کے قائلین کو مرتد مانتی ہے,لیکن ان مرتدین کا کفریہ قول تواتر کے ساتھ منقول نہیں۔
کتاب الشفا وغیرہ میں بہت سے مرتدین کا ذکر ہے۔کتاب الشفا میں ان کے کفریہ اقوال بھی منقول ہیں,لیکن وہ متواتر روایت نہیں,بلکہ ایک دو مصنف نے ان کفریہ اقوال کو ذکر بھی کیا ہے تو یہ خبر واحد ہی کے درجے میں ہو گا۔اس کے باوجود امت مسلمہ ان مرتدین کو مرتد مانتی ہے۔
الحاصل عہد ماضی کے بعض مرتدین کا کفریہ قول ہی منقول نہیں,بعض مرتدین کا کفریہ قول خبر واحد کے طریقے پر منقول ہے۔ہاں,ان کی مرتدین کی تکفیر کا قول منقول ہے اور امت مسلمہ قرنا بعد قرن ان تمام مرتدین کو مرتد مانتی آ رہی ہے۔
کتاب الشفا میں یہ صراحت موجود ہے کہ جن لوگوں پر علما نے کفر(کفر کلامی)کا حکم دیا,ان کو مومن ماننے والا کافر ہے۔من شک فی کفرہ فقد کفر کا بھی یہی مفہوم ہے۔
اسلاف کرام کی کتابوں میں یہ مجھے نہیں مل سکا کہ کسی مرتد کو مرتد ماننے کے لئے اس کے کفریہ قول پر مطلع ہونا ضروری ہے۔
عرب وعجم میں بے شمار علما ہیں۔اگر ایسی عبارت کہیں موجود ہے تو پیش کریں,تاکہ بات واضح ہو جائے۔
حکم کفر پر مطلع ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اگر حکم پر مطلع نہیں ہو گا تو کسی کو کافر کیسے مانے گا۔
امام احمد رضا قادری نے متعدد مقام پر رقم فرمایا کہ جو دیابنہ کے کفر پر مطلع ہو کر ان کو کافر نہ مانے,وہ کافر ہے۔
اسی طرح متعدد مقام پر رقم فرمایا کہ جو ان کی کفریہ عبارت پر مطلع ہو کر ان کو کافر نہ مانے تو وہ کافر ہے۔
اس قول دوم کی یہ تاویل ہو سکتی ہے کہ جو اشخاص اربعہ کے حکم کفر سے نا آشنا ہو,لیکن ان کی کفریہ عبارتوں سے واقف ہو تو وہ انہیں کافر مانے۔اگر وہ خود فتوی تکفیر کا اہل نہیں تو اہل علم سے دریافت کرے۔
ابھی دیوبندیوں کی تعداد نظر آتی ہے تو دیوبندیوں کو مومن ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔کل قادیانیوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو قادیانیوں کے لئے بھی اسی طرح کی کوشش ہو سکتی ہے۔یہ سب ایمان کی کمزوری کی علامتیں ہیں۔
امام احمد رضا قادری نے یہ بھی رقم فرمایا ہے کہ دیوبندیوں کی کفریہ عبارتوں سے ناواقف شخص دیوبندیوں کو مومن مانتا ہے,تو وہ کافر نہیں۔لیکن ناواقف ہونے کا یہ مفہوم بتایا کہ ان کے کان بھی ان کفریہ عبارتوں سے آشنا نہ ہوں۔اس کا مفہوم یہ ہوا کہ خبر واحد کے ذریعہ بھی دیابنہ کی کفریہ عبارتوں کا علم ہے تو بھی ان کو مومن ماننے والا معذور نہیں۔
ہم نے ایک مسودہ علمائے کرام کی خدمت میں روانہ کیا ہے۔اس میں بھی ہم نے دلائل کی روشنی میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ جس کو خبر واحد کے طور پر دیابنہ کے کفر کا علم ہو یعنی ظنی علم ہو,اس پر اصل حقائق کی جانکاری حاصل کرنا فرض ہو گا,ورنہ وہ حکم شرعی کے دائرہ میں آئے گا۔ان شاء اللہ تعالی کچھ اضافات کے بعد دوبارہ احباب کی خدمت میں پیش کروں گا۔اس کے بعد اکابرین کی خدمت میں۔
دیابنہ کی کفریہ عبارتوں سے ناواقف ہونے کا مفہوم امام اہل سنت نے یہ بتایا۔
"اگر واقع میں کوئی نو وارد یا نرا جاہل یا ناواقف ایسا ہو جس کے کان تک یہ آوازیں نہ گئیں اور وہ بوجہ ناواقفی محض انہیں کافر نہ سمجھا,وہ اس وقت تک معذور ہے جب کہ سمجھانے سے فورا حق قبول کر لے”۔(فتاوی رضویہ جلد نہم جز دوم:ص313۔رضا اکیڈمی ممبئی )
جن کو معذور نہیں سمجھا جائے گا۔ان کا بھی ذکر متعددمقام پر ہے اور اس مقام پر منقولہ عبارت سے پہلے یہ ہے:
"سائل صورت وہ فرض کرتا ہے جو واقع نہ ہو گی جو واقع نہ ہوگی۔دیوبندیوں کے عقائد کفر طشت ازبام ہو گئے۔
منکر بننے والے اپنی جان چھڑانے کے لئے انکار کرتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں۔جو منکر ہو,اس سے کہئے۔فتاوی موجود وشائع ہیں۔دیکھو کہ کافروں کا کفر معلوم ہو اور دھوکے سے بچے اور ان کے پیچھے نمازیں غارت نہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دشمنوں سے دشمنی فرض ہے۔اس فرض پر قائم ہو تو کہتے ہیں۔ہمیں کتابیں دیکھنے کی حاجت نہیں۔یہ ان کا کید ہے۔
ان کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عظمت ہوتی تو جن کی نسبت ایسی عام اشاعت سنتے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دشنام دہندہ ہے,اس سے فورا خود ہی کنارہ کش ہوتے اور آپ ہی اس کی تحقیق کو بے قرار ہوتے۔
کیا کوئی کسی کو سنے کہ تیرے قتل کے لئے گھات میں بیٹھا ہے,اعتبار نہ آئے تو چل تجھے دکھا دوں۔وہ یوں ہی بے پرواہی برتے گا۔اور کہے گا۔مجھے نہ تحقیقات کی ضرورت,نہ اس سے احتراز کی حاجت۔
تو یہ لوگ ضرور مکار اور بباطن انہیں سے انفار۔یا دین سے محض بے علاقہ و بے زار ہوتے ہیں۔ان کے پیچھے نماز سے احتراز فرض ہے”۔
(فتاوی رضویہ جلد نہم جز دوم:ص 313۔رضا اکیڈمی ممبئی )
اہل عقل وخرد سے عرض ہے کہ ایسے دین بے زار لوگوں کو مومن ثابت کرنے کے چکر میں اپنا ایمان غارت نہ کریں۔