تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی
دلّی کی چاٹ اپنے ذائقے اور تیکھے مسالوں کی بنا پر بڑی مشہور ہے۔شادی بیاہ کا موقع ہو یا عقیقے/منگنی کی تقریب ، اگر کھانے میں چاٹ شامل ہے تو کیا مرد کیا عورت، چاٹ پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں مانو چاٹ نہ ہو "انمول نعمت” مل گئی ہو۔حالانکہ اسلام میں نماز روزے کی طرح کھانے پینے کے آداب بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔کسی شخص کی خوبیوں/خامیوں کا امتحان کھانے سے بھی کیا جاتا ہے۔
کھانے پینے کا شعور انسان کی اصل عادت کا پتا دیتا ہے،اس کا عمر یا علم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ایک تقریب میں ہم نے ایک صاحب کو دیکھا کہ انہوں نے گول گَپّے دیکھ کر پوری پلیٹ بھرلی۔ابھی گول گَپّے اپنے انجام کو بھی نہیں پہنچے تھے کہ صاحب بہادر کی نگاہ دَہی بَھلّوں پر جا ٹکی۔بس پھر کیا تھا باقی ماندہ گول گَپّوں کو میز کے نیچے کھسکایا اور دَہی بھلّے کی تلاش میں نکل پڑے۔پیٹ سے پہلے مَن کی ہوس نے یہاں بھی جلوہ دکھایا اور پلیٹ میں نام کو بھی جگہ نہیں بچی۔دہی بَھلّے سے دو دو ہاتھ ہو ہی رہے تھے کہ ایک بار پھر چاؤمِین کی بھینی خوشبو سے مَن ڈول گیا۔آدھی بھری ہوئی پلیٹ چپکے سے سائڈ میں لگائی اور چاؤمین کی زلفوں کے اسیر ہوگئے۔کھانے پینے کی تقریبات میں اکثر ایسے تماشے دیکھنے میں آتے ہیں۔اس تماشے میں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ "جہاد” کرتی ہیں اور اکثر بازی بھی مار لے جاتی ہیں۔یوں بھی عورتوں کو چاٹ پکوڑوں کا شوق مردوں سے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔شوق کا ہونا بری بات نہیں شوق پورا کرنے کے لیے اپنی تہذیب اور روایات کو پامال کرنا انتہائی بری بات ہے۔شادی بیاہ کے علاوہ چاٹ پکوڑوں کے ٹھیلوں/خوانچوں پر برقع پوش عورتوں کی دیوانہ وار بھیڑ جہاں اُن عورتوں کی ذاتی عادت کا پتا دیتی ہے، وہیں ان کے باپ/بھائی اور شوہروں کی حد درجہ لاپرواہی کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔
عام طور پر چاٹ پکوڑے بیچنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے۔جو طہارت وپاکی میں یقین ہی نہیں رکھتے۔یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ ظاہری صفائی ستھرائی سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں۔بڑے اور گندے ناخن والے چاٹ فروش انہیں ہاتھوں سے پکوڑیاں بناتے ہیں۔گول گپّے میں آلو/مسالہ ڈالتے ہیں، اسی ہاتھ سے مسالے دار پانی اور کھٹائی/مٹھائی بھرتے ہیں۔اس دوران اُن کا ہاتھ کھٹائی اور پانی میں اچھا خاصا ڈوب جاتا ہے۔جبکہ بے غسل/بے وضو شخص کا ناخن یا پَورا بھی پانی میں ڈوب جائے تو وہ پانی مکروہ ہوجاتا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ پانی کے برتن میں کسی کی انگلی وغیرہ پڑ جائے تو لوگ اس پانی کو پھینک دیتے ہیں۔مگر چاٹ فروش بھیگے ہوئے ہاتھ سے ہی سب کو گول گپّے کھلاتا ہے اور لوگ چٹخارے لے لیکر خوب کھاتے ہیں۔اتنے سے دل نہیں بھرتا تو بعد میں مسالے دار پانی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔چاٹ فروش اپنے گندے اور بھیگے ہوئے ہاتھ سے گلاس میں پانی بھرتے ہیں اور یار لوگ آب حیات سمجھ کر بڑی محبت سے پی جاتے ہیں۔حالانکہ یہ وہی "خود دار اور مہذب” لوگ ہیں جو ولیمے میں صاف پلیٹ نہ ملنے پر بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔
کس قدر گندی پلیٹ ہے!
کھلانا نہیں آتا تو بلاتے کیوں ہو؟
صفائی ستھرائی کا کچھ تو خیال رکھنا چاہیے!
نکاح/ولیمے اور منگنی وغیرہ میں ایسے ڈائلاگ بولنے والے زیادہ تر لوگ وہی "مَہا پُرُش” ہوتے ہیں جو چاٹ کے ٹھیلوں پر گندے ہاتھ والے گول گپّے بڑے شوق سے اڑاتے ہیں۔اس وقت انہیں صفائی ستھرائی کا بالکل بھی خیال نہیں آتا مگر اپنے بھائی کی تقریب میں ایسے لوگ بڑے مہذب اور نفاست پسند ہوجاتے ہیں۔
آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ چاٹ پکوڑوں کی دکانوں/ٹھیلوں پر برقع پوش عورتوں اور مسلم لڑکیوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔زمانے بھر سے پردہ کرنے والی خواتین ان ٹھیلے/خوانچے والے کے سامنے پورا چہرہ کھول کر کھڑی ہوتی/بیٹھتی ہیں۔رشتہ داروں تک سے بولنے میں جھجکنے والی لڑکیاں ان سے بڑی خوش اخلاقی سے بات کرتی ہیں۔گردن اس وقت شرم سے جھک جاتی ہے جب رمضان جیسے مبارک مہینے میں بھی آپ کو ٹھیلوں پر برقع پوش عورتیں نظر آتی ہیں۔اگر ان عورتوں کے باپ/بھائی اور شوہر حساس اور ذمہ دار ہوتے تو کیا یہ عورتیں/لڑکیاں اس طرح ٹھیلوں پر نظر آسکتی تھیں؟
تہذیب ہی باقی ہے نہ اب شرم وحیا کچھ
کس درجہ اب انسان یہ بے باک ہوا ہے
ان خراب نظاروں سے بچنے کے لیے کچھ چیزوں کا خیال رکھا جانا بے حد ضروری ہے۔
🔹سب سے بہتر تو یہ ہوگا کہ ایسی چیزیں گھر پر ہی بنالی جائیں۔
🔹بنانا ممکن نہ ہو تو کسی باطہارت اور صاف ستھرے دکان دار سے پیک کرا کر گھر لے جائیں۔
🔹ایام رمضان میں سختی سے باہر کھانے پینے پر روک لگائی جائے۔
🔹گھر والوں کو کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور گفتگو کے آداب لازمی سکھائے جائیں۔
🔹بیوی/بیٹی اور بہنوں کو شرم وحیا کی تعلیم وتلقین کریں۔
🔹ہفتے میں کسی ایک دن بچوں تربیت کا اہتمام ضرور کریں۔
🔹علماے کرام ایسے موضوعات پر خطبات جمعہ میں ضرور روشنی ڈالیں۔
ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ باتیں اتنی اہم نہ ہوں مگر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ باتیں سماجی طور پر کسی قوم کے مزاج اور اس کے رویے کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہیں۔اچھا معاشرہ اپنی پہچان اُن کاموں/عادتوں سے کراتا ہے جو اسے سماجی طور پر عزت دلائیں۔اس لیے وہ کام کریں جو آپ اور آپ کے سماج کی عزت ونیک نامی بڑھائیں ان کاموں سے دور رہیں جن سے آپ کی عزت و وقار پر داغ لگے۔