تحریر: محمد ابو ہریرہ رضوی مصباحی۔ رام گڑھ
ڈائریکٹر مجلسِ علماےجھارکھنڈ و الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ
عالم اسلام کی عبقری شخصیت حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے” فروغ تعلیم “کومیں نےاپناموضوع سخن بنایاہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر علم و فن کے کن کن پہلوؤں کا جائزہ لوں اور کن کو نظر انداز کروں؟
شکار ماہ یا تسخیر آفتاب کروں
میں کس کو ترک کروں کس کا انتخاب کروں
باتیں زیادہ، صفحات کم ہیں۔ کائنات علم کو آخر مٹھی میں بند کون کر سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ ممدوح کے گھر کا بچہ بچہ علم و فن کا کوہ ہمالہ ہو، پورا کا پورا گھرانہ علم و فضل کے زیور سے آراستہ ہو، ان پڑھوں سے ہمیں بحث نہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھ لیجیے حضرت رضا علی خاں ہندوستان کے کس عظیم سیوت کا نام ہے۔ حضرت مفتی نقی علی خاں کس متکلم زمانہ کو کہتے ہیں؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علم و فن کے کس حجت و برہان کا نام ہے، مفتی اعظم حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خاں ہندوستان کے کس متقی و مدبر اعظم کا نام ہے۔ غرض کہ خانوادہ رضویہ کے افراد و اشخاص کا آپ بہ نظر انصاف جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت خود آپ کو بتاتی جائے گی کہ ابھی جو ایشیا و یورپ میں دین و سنیت کی بہاریں ہیں،
مدار س اہل سنت کی قطاریں ہیں اور ترہویں صدی سے لے کر آج تک وہ علما جن کے وارے نیارے ہیں۔ تقریباً سب کے سب اس خانوادے کےبالواسطہ یا بلاواسطہ سنوارے ہیں۔
آپ دنیا کا جائزہ لیں گے تو آپ کو بہت سی ایسی خانقاہیں مل جائیں گی جن کے آبا و اجداد اور بانی مبانی نے تو تعلیم و تعلم اور دین و سنیت میں کارہائے نمایاں انجام دیے مگر آج ان کی مسند پر بیٹھنے والوں کا حال یہ ہے کہ ارکان اسلام سے بھی ناآشنا ہیں، وہ دوسروں تک کیا اسلام کا پیغام پہنچائیں گے خود جب اسلام اور علوم دینیہ سے کوسوں دور ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا ان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کی راہیں مسدود تھیں، کیا انہیں کسی شرعی مجبوری نے علوم اسلامیہ سے غافل رکھا؟ نہیں! بلکہ ان میں ”پدرم سلطان بود“ کا نشہ تھا، جب دیکھا کہ بچپن ہی سے اپنے آبا و اجداد کی نیک نامی کی بھیک مل رہی ہے تو پھر تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت؟ سفر کی تکالیف اور مدارس میں قید و بندانہ زندگی گزارنے سے کیا فائدہ؟ بنا بنایا فیلڈ ہے، چمکی چمکائی دکان ہے بس ادھر مرشد گرامی(پیر صاحب) کی آنکھ بند ہوئی ادھر جانشینی ہاتھ آئی۔
مگر واہ رے تاج الشریعہ کی ذات! پوراکاپورا ایشیا بلکہ عالم اسلام آپ کے گھرانے کا معتقد ہے ایک اشارہ ابرو پر تن، من، دھن کی بازی لگا دینے کو تیار ہے، فیض یافتوں کی خاصی بھڑ لگی ہوئی ہے، ہر طرف سے آؤ بھگت ہو رہی ہے مگر ان سب کو چھوڑ کر آپ علم کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں ایک سے ایک رجال علم و فن سے علمی تشنگی بجھانے کی کوشش کی مگر تشنگی بڑھتی ہی رہی، پڑھتے گئے بڑھتے گئے، جب خوب پر نکل آئے تو پرواز کے لیے پر تولنے لگے، جامعہ ازہرسے بڑی وقت کی کوئی دینی درس گاہ نظر نہ آئی۔ بس کیا تھا پرواز کیا اور پھر عالم اسلام کی سب سے عظیم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، خوب پڑھا، وقت کا صحیح استعمال کیا، آنکھوں کا تیل جلایا، کتابوں میں دماغ کھپایا، رات کو رات نہ سمجھا، جب جامعہ ازہرکا نتیجہ نکلا تو سارے طلبہ بالخصوص طلبۂ مصر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے کہ ایک ہند نژاد طالب علم نے اپنے درجے میں وہ نمایاں مقام حاصل کی ہے کہ سارےرفیق درس جس مقام کو حاصل کرنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ آخر ایک عجمی نے ہم عربوں کے ملک میں آکر اپنی شو کت وسطوت کا جھنڈا کیسےگاڑ دیا؟
اس طرح جہاں گئے دور طالب علمی ہی سے اپنی علمی دھاک بٹھاتے رہے اور ایک کامیاب طالب علم کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔ آج انہیں محنتوں اور مشقتوں کا ثمرہ ہے کہ ان کے ہم پلہ کوئی نظر نہیں آتا، مرجو العلما تھے، مرجع اصحاب فقہ و تحقیق تھے۔ آئیے ذرا اب ان کی علمی میدان میں ان کی کار فرمائیاں ملاحظہ فرمائیں:
”تاج الشریعہ اور فروغ تعلیم“کے تحت بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ یہ آپ کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، سفر میں ہوں یا حضر میں ہر جگہ علم و فضل کے جوہر لٹاتے رہے، کبھی مسند تدریس پر بیٹھ کر تشنگان علوم نبویہ کو سیراب کر تےرہے ، تو کبھی دارالافتا کو زینت بخش کر حل المشکلات بنتے رہے ، کبھی دنیا کےچپے چپے میں گھوم گھوم کر علوم رضا تقسیم فرما تے رہے ، کبھی فقہی سیمینار میں علما کی نمائندگی کر کے ان کی علمی تسامحات پر مطلع فرما تے رہے ۔
زبان کی بات آئی تو زبان سے اور جب سنان قلم کی بات نکلی تو پھر اپنی قلمی جواہر پارے بکھیر کر وقت کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگے رہے۔ غرض کہ علم و فن کی تمام مروجہ شاخوں پر اپنا آشیانہ بنا کر موقع محل کی مناسبت سے نغمہ سنجی کر تےرہے ۔
درس وتدریس کے ذریعہ فروغ تعلیم: جامعہ ازہر سے فراغت کے بعد ہندوستان واپس تشریف لا کر اپنے مادر علمی ”دارالعلوم منظر اسلام“ میں تدریس کے ذریعہ علم و فضل کے گوہر لٹانے لگے۔ یہ ۱۹۶۷ء کا آغاز تھا، برادر اکبر حضرت علامہ ریحان رضا خاں رحمانی میاں نے جب آپ کے تدریس کا نرالا انداز دیکھا تو آپ کو ۱۹۷۹ھ میں ”صدر المدرسین“ کے اعلیٰ عہدے پر فائز فرما دیا اس طرح آپ یہاں مسلسل ۱۲؍ سال تک خدمت دین و سنیت میں لگے رہے اور علمی غلغلہ میں اپنے بہت سے معاصرین کو پیچھے چھوڑ دیا۔
آپ کی تدریسی دھمک ہندوستان کے کونے کونے میں محسوس کی جانے لگی، اور تشنگان علوم و معرفت آپ کی جانب رخت سفر باندھنے لگے اس طرح منظر اسلام آپ کے عہدے تدریس میں شہرت و مقبولیت کے بام عروج کو پہنچ گیا۔
چناں چہ آپ کی درس گاہ سے ایسے ایسے علم و فضل کے بادشاہ نکلے کہ آج دنیا انہیں سر آنکھوں پر سجا رہی ہے اور دل میں جگہ دے رہی ہے۔ جب دعوتی اور مذہبی مصروفیات بڑھ گئیں، تبلیغی اسفار کے بغیر چارہ کارنہ رہا تو آپ دارالعلوم منظر اسلام سے علیحدہ ہو گئے۔ مگر آپ کے عالمانہ اور رضویانہ ذہن نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ صرف تبلیغی اسفار میں لگے رہیں اور طالبان علوم نبویہ کو یک سر نظر انداز کر دیں چناں چہ آپ ایک بار پھر اپنے کاشانہ اقدس میں مسند تدریس کو شرف بخشا اور درس قرآن و درس بخاری کے ذریعہ مذہب اسلام کی نشر و اشاعت کرنے لگے۔ جس میں طلبہ منظر اسلام، مظہر اسلام اور جامعہ نوریہ کثرت سے شریک ہو کر مستفید ہوئے۔
جب ”جامعۃ الرضا “قائم ہوا تو وہاں جا کر آپ نے طلبہ کو بخاری شریف کا درس دینا شروع کیا اور ایک زمانےتک طلبہ جامعۃ الرضا کو اپنے کاشانہ اقدس ہی پر درس دیا کرتے تھے۔ جس میں فضیلت تخصص فی الفقہ اور افتا کے بچوں کی حاضری لازمی ہوا کرتی تھی اس طرح آپ اپنی پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کے باوجود فروغ تعلیم دین میں لگے رہے۔
فتاوی نویسی کے ذریعہ فروغ تعلیم: ۱۹۶۷ ہی سے جب آپ نے تدریسی دنیا میں قدم رکھا تھا اس وقت سے لے کر اخیر تک فتوی نویسی کا اہم فریضہ انجام دیتےرہے ، بقول مولانا محمد شہاب الدین رضوی ایک اندازے کے مطابق حضور تاج الشریعہ کے فتاوی کے رجسٹروں کی تعداد اکتیس سے متجاوز ہو گئی ہے۔ (حیات تاج الشریعہ، ص:۲۰) جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی علمی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ اپنے مدرسے سے (جامعۃ الرضا) میں مشق افتا کے طلبہ کو درس دیا کرتے تھےاور انہیں دارا لافتا کے اسرار و رموز سکھا کر فتاوی نویسی کے لائق بنا دیے۔ اس طرح فروغ تعلیم اور اشاعت سنیت کا کام جاری و ساری رہا۔
تقریر کے ذریعہ فروغ تعلیم: درس گاہوں میں تو آپ کی خالص علمی و تحقیقی تقاریر ہوتی ہی رہتی تھی، جب جلسہ گاہوں میں آپ پہنچتے تھے تو وہاں بھی آپ اسلام کا حقیق چہرہ پیش کرتے ۔ کیوں کہ جلسہ گاہ مدارس سے جدا نہیں۔ اگر مدارس طلبا کے پڑھنے کی جگہ ہیں تو جلسے عوام کے لیے بہترین درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چناں چہ آپ ابتدا ہی سے اپنے تقاریر کے ذریعے عوام کو کچھ سکھانے کے در پے رہے اور قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات سے روشناش کرایا ۔
تحریر کے ذریعہ فروغ تعلیم: حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ قرطاس وقلم کی اہمیت کے پیش نظر وقتاً فوقتاً کتابیں تحریر فرماتے رہے اور شریعت مطہرہ کی حقیقی تعلیمات پیش کرتے رہے ۔ حتیٰ کہ کثرت اسفار، کثیر دینی مشاغل بلکہ آنکھوں سے معذور ہونے کے باوجود ان کی نئی نئی کتابیں اہل علم کو ذوقِ تسکین فراہم کر تی رہیں تو اہل علم مزید ورطہ حیرت میں ڈوبتے رہے کہ آخر اتنی مصروفیات کے باوجود کتابی کام کے لیے کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ
ایں سعادت بروربازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشذہ
آپ کی کتابیں، کتابوں کے ڈھیر میں اضافے کا سبب نہیں بنتی بلکہ وقت کی ضرورت کو پورا کیا کرتی ہیں اور اسلام کا اجالا لے کر آتی ہیں۔ حواشی، تعاریب، تراجم اور تصانیف کی مختلف شکلوں میں آپ کی کتابوں کی تعداد ۷۵سے زائدہیں۔
جامعۃ الرضا: حضور تاج الشریعہ نے فروغ تعلیم کے سلسلے میں اپنے طور پر علمی جد و جہد کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ایک علمی کار خانہ ”جامعۃ الرضا“ کھول کر تعلیم کی راہیں ہموار کر دی ہیں جس میں ہر طرف سے تشنگان علوم و فنون جوق در جوق آ کر اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں۔ اس میں محض روایتی تعلیم شامل نصاب نہیں ہے بلکہ اس کا نصاب قدیم نافع اور جدید صالح کا حسین سنگم ہے۔
شرعی کونسل آف انڈیا: امت کو در پیش جدید مسائل کے حل کے لیےآپ نے شرعی کونسل آف انڈیا قائم کیا جس کے تحت اپنے آغاز ہی سے اب تک بارہ سیمینار کا انعقاد ہو چکا ہے۔
اب تک (تقریباً ۳۶ سے زائد) نو پید مسائل کا حل تلاش کیا جا چکا ہے۔ یہ کام آپ کی سر پرستی میں ہر سال بحسن و خوبی انجام پا تارہا ۔ اس طرح آپ کی اس تحریک کے ذریعے چیلنجز کے اس دور میں مسلمانوں کو جدید فقہی مسائل سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
اداروں کی سرپرستی: آپ کی علمی و فقہی دل چسپی اور بہترین قائدانہ صلاحیتوں کے پیشِ نظر ہر شخص نے آپ کو سرمہ نگاہ بنائے رکھا اور آپ کے سایہ کرم میں رہنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں تعلیمی اور تنظیمی ادارے آپ کی سرپرستی میں چلتے رہے اور تعلیم و تبلیغ کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا رہا۔
پیش ہے چند تعلیمی اداروں کی ایک فہرست:
(۱) جامعہ مدینۃ الاسلام، ہالینڈ۔
(۲) مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، بریلی شریف۔
(۳) الجامعۃ النوریہ، بہرائچ۔
(۴) الجامعۃ الرضویہ، پٹنہ۔
(۵) مدرسہ عربیہ غوثیہ حبیبیہ، برہان پور۔
(۶) مدرسہ اہل سنت گلشن رضا، دھنباد۔
(۷) مدرسہ غوثیہ جشن رضا، گجرات۔
(۸) دارالعلوم قریشیہ رضویہ، آسام۔
(۹) مدرسہ رضاء العلوم، ممبئی۔
(۱۰) مدرسہ تنظیم المسلمین، پورنیہ۔
اس طرح حضرت کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو تعلیم سے یا تعلیم کو آپ سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
(نوٹ: اس مضمون کو لکھنے میں حیات تاج الشریعہ، از: مولانا محمد شہاب الدین رضوی – انوار تاج الشریعہ، از: حفظ شمس الحق رضوی – تجلیات تاج الشریعہ، از مولانا شاہد القادری سے مدد لی گئی ہے۔)