تعلیم

آسام، بی۔جے۔پی۔ حکومت اور مسلمان

از قلم: محمد مزمل حسین
ساکن : ڈھکیاجولی، ضلع سنیت پور’ آسام
متعلم: دارالعلوم علیمیہ جمداشاھی’ بستی’ یوپی

آسام مشرقی ہندوستان کی ایک ریاست ہے۔ اور یہ ہندوستان کی سرحدی ریاست ہے۔ جو دیگر ہندوستانی ریاستوں سے گھری ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں اروناچل پردیش، مشرق میں ناگالینڈ، و منیپور، جنوب میں میزورم، میگھالیہ، و تریپورہ، اور مغرب میں مغربی بنگال واقع ہے۔ اور بنگلہ دیش کی بعض سرحدیں اس کے ساتھ لگتی ہیں۔
آسام کی راجدھانی دسپور، اور سب سے بڑا شہر گوہاٹی ہے۔ جو دریائے برہمپترا کے کنارے واقع ہے۔(یہ دریا مشرق و مغرب میں بہتا ہے اور دھوبری ہوتے ہوئے بنگلہ دیش جاتا ہے۔)

آســام کی آبادی لگ بھگ ” 34 میلین ” ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ” 15 میلین ” یعنی” %42 ” فیصد ہے۔
ہندوستانی ریاستوں میں کشمیر کے بعد آسام ملک کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والی ریاست ہے۔اور یہ ” 35 ” اضلاع پر مشتمل ہے۔
سرکاری زبان آسامی (آسامس) ہے۔ اس کے علاوہ آسام کے تین اضلاع (کریم گنج، کچار، اور ہائلکانڈی ) ایسے ہیں جہاں بنگلہ زبان بھی سرکاری حیثیت رکھتی ہے ۔

آسام دلکش پہاڑی، سرسبز و شاداب مناظر، ہریالی زمین، متوسط موسم، برہمپترا جیسا دریا، اور مختلف مذاہب کے لوگوں پر مشتمل ہے۔
آسام کے مختصر تعارف کے بعد

اب ہم آسام کے موجودہ مسلمان، مدارس اسلامیہ, اور بی جی پی حکومت کی تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں۔
آسام کے تقریباً ” 680 ” مدارس آسام ہاۓ مدرسہ، سنئیر مدرسہ ، پری سنئیر مدرسہ، عربی کالج، اور اسلامک انسٹی ٹیوٹ ہیں لیکن اس مقام پر قابل ذکر امر یہ ہے کہ سرکاری مدرسوں کو بی جی پی حکومت نے اسکول میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ دو بورڈ ایک آسام ہاۓ مدرسہ ” (AHM) ” ، اور دوسرا ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آف آسام” (SMEBA) "( یعنی مدرسہ تعلیمی بورڈ آف آسام) کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

اب مدارس آسام کی تعلیمی ماحول پر کچھ باتیں کرتے ہیں۔

جن مدارس کو اسکول میں تبدیل کیا گیا۔ بعض لوگ عربی مدارس گمان کر رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ ان مدرسوں میں درس نظامی کی دو، یا چند ہی کتابیں(قرآن، احادیث،فقہ اور عربی گرامر)پڑھائی جاتی تھی(اب انکی جگہیں جنرل کتب پڑھائی جائیں گی۔)۔جن کے علاوہ آسامس ، بنگلہ، ہندی، سائنس، انگلش، جغرافیہ، اور حساب وغیرہ جیسی کتابیں بھی نصاب تعلیم میں شامل ہیں اور پڑھائی بھی جاتی ہیں -اس لیے مسلم اساتذہ کےعلاوہ غیر مسلم بھی تعلیم دیتے ہیں۔ اور لڑکے کے ساتھ لڑکیاں بھی اجتماعی طور پر (جیسے اسکولوں میں ہوتی ہے) تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

غرض یہ کہ حکومت آسام نے سارے مدارس کو اسکول اور اسلامی کتب کو جنرل کتب میں تبدیل کردیاہے۔

آسام کے "وزیراعلیٰ” کا کہنا ہے کہ سرکاری فنڈ سے مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی مزید یہ بھی کہ آســام سے لفظ مدرسہ کو ہی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ مدرسہ کا معنیٰ آتنک وادی ہے۔ جو طلبہ وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ آتنک وادی بنےگیں جو ملک کے لیے نقصان دہ ہےوغیرہ وغیرہ۔

اب موجودہ مسلمان کی باتیں کرتے ہیں ہمارے یہاں” %42 ” فیصد مسلمان ہونے کے باوجود یہاں ہماری جماعت کا نہ کوئی بڑا ادارہ ہے اور نہ ہی کسی چھوٹے ادارے کا ملک کے کسی بڑے ادارے سے الحاق ہے- نہ بڑا جامعہ، نہ مدرسۃ البنات اور نہ کوئی مسلم یونیورسٹی۔
نہ کوئی بڑا مفتی جن کی طرف ہم رجوع کر سکیں اور نہ کوئی بڑا عالم دین جن سے ہم استفادہ کر سکیں – نہ کوئی قائد جس کی قیادت میں ہم دین و ملت کی خدمات انجام دے سکیں اور نہ ہی کوئی اسلامی ہیرو (مفتی اعظم آسام) جس کی رہنمائی ہمیں حاصل ہو۔ باتیں کرنے کے لیے اور بھی موضوعات ہیں لیکن طوالت کے خوف سے اختصار کرتا ہوں۔

آخری بات جو میرے ذہن و فکر میں ہر وقت کچوکے لگاتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر ہمارے آسام میں ” 42 "فیصد مسلمانوں کی آبادی کے باوجود یہاں کا مسلمان دبا کچلا اور ڈرا سہما کیوں ہے؟ وہ اگر چاہے تو سیاست میں مضبوط پکڑ بنا سکتے ہیں -لیکن دوسری پارٹی کا جھنڈا ڈھونے میں ہی وہ اپنی عافیت سمجھتے ہیں -آج سیاست میں ہماری پکڑ ہوتی تو آسام کے مدارس اسکول میں تبدیل نہیں ہوتے -کیا ہم مدارس کھول کر آسام کی نئی نسل کی انجمن میں اسلامی تعلیمات اور دینی تہذیب و ثقافت کا چراغ روشن کر سکیں گے ؟

آسام کے علما ‘زعما اور دانشوران ملت کی طرف سے میں جواب کا منتظر رہوں گا :

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تری رہبری کا سوال ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے