ازقلم: شیخ نشاط اختر
بلاشبہ مدارس دینِ اسلام کے وہ عظیم قلعے ہیں جہاں سے دین و ملت کی حفاظت و صیانت کے لئے ہر دور میں حق پرست افراد تیار کیے جاتے رہے ہیں۔
مدارس ہی ہیں جہاں انسان کو عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے وطن عزیز کے نام کو سربلند و روشن کرنے والے شہری بناۓ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مدارس کے علمی پنگھٹوں سے تشنہ کام ہونے والے اشخاص و افراد ہر زمانے میں میدانِ علم و عمل کے شہسوار رہے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی ہمارے فکر و ذہن پر روشن ہوتی ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی ہمارے درمیان سے گزرا ہے کہ مدارس کا نام سنتے ہی جو تصویر ہمارے ذہنوں میں ابھرتی تھی وہ ایسی درسگاہ کی ہوتی تھی جہاں مخلص منتظمین، مشفق و جفاکش معلمین، مجتہد متعلمین پر مشتمل ایسے افراد ہوا کرتے تھے جو ہر قسم کے حرص و ہوس سے خود کو پاک و صاف رکھتے تھے جو ہمہ وقت رضاۓ الٰہی کے لئے سرگرم عمل رہا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان مخلصین کے زیر سایہ علمی،ادبی،ثقافتی ماحول میں پروان چڑھنے والے طلبااپنے اپنے زمانے کی امامت و قیادت کی باگ ڈور مثالی طور پر سنبھالنے والے ہوتے تھے جو نہایت باصلاحیت، با ہمت اور وقت کی پکار پر لبیک کہنے والے تھے۔
اخلاص و للہیت کی برکت سے ہی ان مدارس کے طلبا علمی،عملی کمالات کے حامل، ظاہری اور باطنی محاسن و مکارم سے مزین ہو کر ایسی شخصیات بن جاتے جو اپنی حکمت و بصیرت سے ہوا کا رخ موڑنے پر قدرت رکھتے تھے۔ معاشرے میں بھلائی کو فروغ دینا اور برائی کا سد باب کرنا ان کی زندگی کا اہم ترین مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ جن کے نقش قدم آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن جایا کرتے تھے-
لیکن ہمارے زمانے میں مدارس کا نام سنتے ہی جو تصویر ذہن کی سطح پر ابھرتی ہے وہ شہر کے گلی کوچوں میں جگہ جگہ مدارس کے نام پر دو چند روم پر مشتمل ان عمارتوں کی ہوتی ہے جن کی باگ ڈور حرص و طمع کے ماروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے- جہاں فکر معاش سے مجبور و لاچار دو چند ایسے اساتذہ رکھے جاتے ہیں جو مدارس کے منتظمین سے مرعوب نظر آتے ہیں اور طالب علموں کے نام پر ایسے غافل طلبا پال رہے ہوتے ہیں جو سال بھر تعلیمی و تربیتی حوالے سے کم اور میلاد و قرآن خوانی، فاتحہ و نیاز میں زیادہ سرگرداں رہتے ہیں۔
میرا مقصد ہرگز کسی مدرسے کو نیچا دکھانا نہیں ہے بلکہ جن مقاصد و اہداف کے پیش نظر مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ان کی جانب توجہ دلانا اور مقاصد سے بھٹکا دینے والے امور کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔ اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ تمام مدارس اسلامیہ ان مدارس میں شامل ہیں جو اپنے بنیادی مقاصد کو بھول بیٹھے ہیں بلکہ بہت سے ایسے مدارس اب بھی ہیں جو اس ظلمتِ شب میں روشنی کا سامان فراہم کررہے ہیں اور آج ہماری تعلیمی آبرو انہیں اداروں کی تعلیم و تربیت سے قائم ہے -مگر ان درس گاہوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہیں۔
وہ مدارس جو تعلیمی مقاصد سے بے خبر ہیں ان کی خامیوں سے سمجھوتہ کرلینا اور انہیں ان کی بدحالی پر چھوڑ دینا دین و ملت اور اور قوم کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔
وقت کی پکار ہے کہ بلا خوف و خطر اس موضوع پر لکھا جائے’ بولا جائے اور عملی طور پر اصلاحی تحریک چلائی جائے:
~کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ور نہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے
اب ذرا آئیں موجودہ دور میں مدارس کے کچھ احوال بھی ملاحظہ فرمالیں:
آج مدارس کے نام پر قوم سے چندہ وصولی کرکے گلی،گلی عمارتیں کھڑی کردی جاتی ہیں پھر اہل مدارس گھر،گھر جاکر طلباء تلاش کرتے ہیں یا کسی ایسے مدرس کی تلاش ہوتی ہے جو انہیں طلباء کثیر تعداد میں لاکر دیں سکیں اور کبھی تو اسی بات پر مدرسین کی تنخواہیں متعین کی جاتی ہیں کہ وہ زیادہ تعداد میں بچوں کو لائیں گے کیوں کہ جب مدارس میں طلبا ہی نہ رہیں گےتو عوام چندہ کیوں کر دیں گے؟
یہ بات بھی سچ ہے کہ چھوٹے چھوٹے طلباکو ان مدارس میں لاکر تعلیمی،تربیتی طور پر مفلوج کردیا جاتا ہے،اور وہ قوم کے نونہال طلباجو دین و دنیا سنوارنے مدارس کا رخ کئے تھے میلاد، قرآن خوانی، فاتحہ خوانی کو ہی اپنی زندگی کا کل اثاثہ تصور کرلیتے ہیں۔ اور علم و فن میں مہارت حاصل نہیں کر پاتے ہیں، اپنی لفاظی اور عالمانہ لباس کو ذریعۂ معاش بناتے ہیں اور دعا و تعویذات، دھوکہ دھڑی، کا پیشہ اختیار کرتے ہیں یا مستقبل میں کوئی مدرسہ کھول کر روزی روٹی کا انتظام کرکے قوم کو بے وقوف بناتے ہیں۔
مدارس کے اساتذہ کا حال بھی ملاحظہ فرمالیں۔
آج کل مدارس میں یہ وبا عام ہے کہ اساتذہ کرام کو جہلامنتظمین کی چاپلوسی کرنے اور ان کے لئے خاطر خواہ چندہ اکٹھا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ایسا کرتے ہیں وہ ان جہلا کی نزدیک قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ بعض باشعور اساتذہ جو حقیقی معنوں میں تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنا عظیم کردار ادا کرتے ہیں انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اور اگر اساتذہ ان جہلامنتظمین کے کہنے کے خلاف کوئی کام کرلیں یا ان کے نا جائز حکم کو نہ مانیں تو ان کی فوراً چھٹی کر دی جاتی ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی بطور مصلحت اکثر اساتذہ معاملات سے سمجھوتہ کرکے ان منتظمین کی باتوں کو تسلیم کر لیتے ہیں اور کچھ باجرأت اساتذہ اس میدان کو الوداع کہہ دیتے ہیں اور دیگر فیلڈ میں اپنا بازو آزماتے ہیں۔
اور اس طرح مدارس اپنے باصلاحیت اساتذہ سے محروم ہو کر تعلیمی طور پر انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں مدارس کی کثرت بھی کہیں نہ کہیں تعلیمی ارتقا کی بجائے انحطاط کی سبب بنتی جارہی ہے اس لئے کہ پہلے مدارس کم ہوتے تھے اور طلبا حصول علم کیلئے دور دراز کا سفر طے کیا کرتے تھے اور تعلیم و تعلم کی جانب طلبا کا رجحان ہوتا تھا جن میں آگے چل کرایک تاریخ رقم کرنے کا عزم جواں ہوتا تھا۔
مگر افسوس کہ آج کے موجودہ مدارس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو طلبااپنے اہداف سے کوسوں دور نظر آتے ہیں اور فقط "کلوا و اشربوا” ہی کو مقاصد حیات تصور کرتے ہیں، ان میں سے اکثر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ عوام کی نگاہ میں جلد سے جلد دستار لے کر "مولانا” صاحب "حافظ” صاحب بن جائیں، اور کہیں علم کے کسی مسند پر بیٹھ جائیں تاکہ عوام انہیں عزت و احترام سے دیکھے گرچہ ان میں علم و عمل کا دور دور تک نشان نہ ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آگے چل کر جب یہ حافظ و عالم بن تو جاتے ہیں مگر اپنی فطری خباثت سے افتراق و انتشار کا اور معاشرے میں علمائے حق کی شبیہ خراب کرنے کا باعث ٹھہرتے ہیں۔
ذرا نگاہ اٹھا کر دیکھیں! کہ آج بھی مروجہ جلسہ و جلوس کے خطبا،شعرا،نقبا کی جماعت میں بیشتر وہی لوگ ملیں گے جنہوں نے ڈھنگ سے درس نظامی کی تکمیل نہ کئے ہوں گے اگر حافظ صاحب، علامہ صاحب،ہیں بھی تو براۓ نام ہیں جنہیں لفظوں سے کھیلنے چیخنے چلانے کے علاؤہ کچھ نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ آج کی محافل و جلوس سے اسلامی رنگت اور وہ فیض ختم ہوتا چلا جارہا ہے جو ہمارے اسلاف کی محفلوں میں ہوا کرتا تھا، کیونکہ جب نا اہلوں نے جلوس و محافل کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا، حصول مال و زر کا ذریعہ بنا لیا تو اس کے حقیقی فوائد کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟
مدارس کی کثرت کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ان اداروں کو چلانے میں دشواریوں کا سامنا ہونے لگا جن میں صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت دی جاتی ہیں- کیونکہ جب ادارے کم ہوا کرتے تھے تو زکات، صدقات و خیرات و دیگر عطیات کی تحصیل میں آسانیاں ہوا کرتی تھیں جن کا صحیح جگہوں پر استعمال ہو پاتا تھا۔ اب ادارے زیادہ ہونے لگے اور آمدنی کا ذریعہ کم ہوتا چلا گیا۔
اگر اس صورت پر عمل کر لیا جائے تو کئی حد تک فائدہ ہوسکتا ہے کہ آج ہمارے افراد عہدے داری کے لالچ سے آزاد ہوکر خالص رضاۓ الٰہی کے لئے اپنے علاقوں، گاؤں، محلوں میں متفرق طور پر جگہ جگہ بناۓ جانے والے مدارس کے بجائے سب مل کر ایک ہی ادارے کی تعلیمی،تعمیری ترقی کیلئے کام کریں تو ایک عظیم ادارہ قائم ہوسکتا ہے اور اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اور رہی بات ابتدائی تعلیم
کی تو اس کے لیے "مکتب” کو "مکتب” ہی رکھا جائے "دارلعلوم” بنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
آج ملکی حالات ہوں یا مذہبی معاملات ایسا کون ہے جو ان کے نقصانات سے بے خبر ہوگا؟
کبھی ہماری تشخصات زد پہ آرہی ہیں تو کبھی ہمارے مراکز پہ حملے ہورہے ہیں، ہماری عزت و آبرو ہماری پہچان کو ہم سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر طرف ظلم و بربریت نے اپنا پنجہ جما لیا ہے۔ انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی۔ ہر سو اندھیرا پھیل چکا ہے۔
وہیں آج مدارس بھی سوالات کے کٹگہرے میں کھڑے ہیں،آج بہت سے چیلینجز مدارس کےسامنے ہیں جو پکار پکار کر قوم کے قائدین اور صاحبان نظر کو آواز دے رہے ہیں کہ وہ مدارس کی ذمہ داریاں پوری کریں۔
معزز احباب! موجودہ حالات ہمیں دعوت فکر و عمل دے رہے ہیں کہ ہم میدان عمل میں اتریں۔
یاد رکھیں! بروز قیامت ہم سے ہماری ذمہ داریوں کے متعلق بھی سوال ہونا ہے۔
جہاں منتظمین کی ذمہ داریاں ہیں وہیں اساتذہ اور طلبا کی بھی ذمہ داریاں ہیں آج ہم سب کو اپنی زمہ داریوں کو نبھانا ہوگا ۔۔
اگر ہم نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ انجام دے دیا تو یقین مانیں یہ انحطاط کے دن انقلاب کے دنوں میں بدل جائیں گے۔