تحریر: عبدالمصطفیٰ رضوی
سلجوقی بادشاہوں کے نامور وزیر نظام الملک نے جب سلطنت کے طول و عرض میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا اور تعلیم کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کی کہ طلبہ (پڑھنے والے) کتابوں کی فراہمی اور دوسرے خرچوں سے بے نیاز ہو گئے تو سلطان ملک شاہ نے فرمایا کہ وزیراعظم نے اتنا مال اس میں خرچ کیا ہے کہ اتنی رقم سے جنگ کے لیے پورا لشکر تیار ہو سکتا ہے، آخر اتنا مال جو آپ نے ان پر لگایا ہے تو اس میں آپ کیا دیکھتے ہیں؟
وزیر نظام الملک کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے:
عالیجاہ! میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں اگر نیلام کیا جاؤں تو پانچ دینار سے زیادہ بولی نہ ہو، آپ ایک نوجوان ترک ہیں تاہم مجھے امید نہیں کہ تیس درہم سے زیادہ آپ کی بھی قیمت آئے، اس پر بھی خدا نے بادشاہ بنایا ہے،
بات یہ ہے کہ ممالک فتح کرنے کے لیے آپ جو لشکر بھرتی کرنا چاہتے ہیں ان کی تلواریں (Maximum) زیادہ سے زیادہ دو گز کی ہوں گی اور ان کے تیر تین سو قدم سے زیادہ دور نہیں جا سکیں گے لیکن میں ان تعلیمی اداروں میں جو فوج تیار کر رہا ہوں ان کے تیر فرش سے عرش تک جائیں گے۔
(کار آمد تراشے، ص359)
قوموں کے عروج اور زوال کا ایک راز تعلیم میں پوشیدہ ہے تعلیم ہی وہ شے ہے کہ جس کے ذریعے انسان کو شعور عطا کیا جاتا ہے، اس کی فکر وسیع ہوتی ہے، اس کے ذہن میں پوری دنیا بسی ہوتی ہے اگرچہ وہ کسی کونے میں بیٹھا ہو،
ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم تعلیمی نظام پر خاص توجہ دیں صرف رسمی پڑھائی یا سند نہیں بلکہ ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیں اور جو اس کام میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں ان کی جہاں تک ہو سکے خدمت کریں۔