تحریر:محمد اورنگ زیب عالم مصباحی
گڑھوا جھارکھنڈ (رکن :مجلس علمائے جھارکھنڈ)
ابوالفیض حضور حافظ ملت مولانا الشاہ عبدالعزیز علیہ الرحمۃ والرضوان،بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور،ان معزز شخصیات میں سے تھے جن کی نگاہ فیض سے آج تقریبا تین چوتھائی دنیا کے مسلم باشندے بالواسطہ فیض یاب ہو رہے ہیں ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے بعد یوں تو بہت سے علماء و صلحاء تشریف لائے اور انہوں نے دین و سنیت کے فروغ میں نمایاں کردار بھی ادا کیا اور ہمارے درمیان بڑے بڑے فقیہ ،محدث ،متکلم وغیرہ پیدا بھی ہوئے مگر علمائے اہل سنت کو ایک عظیم علمی قلعہ کی سخت ضرورت تھی جس میں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علوم نبویہ اپنے علمی پیاس بجھا سکیں، کیونکہ اہل سنت کے پاس کوئی بڑی درسگاہ نہ تھی کچھ مدارس تھے تو بہت چھوٹے تھے اور جو مدارس بڑے تھے وہ آزادی سے قبل انگریزوں کے سرمائے سے تعمیر شدہ انگریزوں کے پروردہ بد عقیدوں کے زیر انتظام تھے۔
اس سخت ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے علمائے حق نے دن رات کوششیں کیں جن میں نمایاں اور ممتاز حافظ ملت علیہ الرحمہ ہیں انہوں نے جو خواب دیکھا تھا عظیم درسگاہ کی اسے شرمندۂ تعبیر فرمایا مدرسہ مصباح العلوم کی تعمیر بعدازاں الجامعۃ الاشرفیہ کی پر شکوہ تعلیمی قلعہ جو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے مبارک پور قصبہ میں آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے ،جسے ازہر ہند کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
درحقیقت اہل سنت میں تعلیمی مساعی اور اس کی بیداری میں عمل پیہم کا تاج حافظ ملت علیہ الرحمہ کے سر سجتا ہے اور ایسی تعلیمی تڑپ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی صحبت کا فیضان ہے کیونکہ حافظ ملت نے صدرالشریعہ سے صرف علم ہی نہیں بلکہ عمل بھی حاصل کی معاً جذبۂ دعوت وتبلیغ اور طریقۂ تعلیم بھی سیکھا۔
آپ کی تقوی شعاری ایک نظر میں
حافظ ملت فرائض و سنن کے بچپن سے ہی پابند تھے، جب سے بالغ ہوئے نماز تہجد بھی شروع کر دی جس پر آخری عمر تک عمل رہا، صلاۃ الاوابین دلائل الخیرات شریف روزانہ بلاناغہ پڑھتے، آخری ایام میں معذور ہوگئے تو دوسروں سے پڑھوا کر سنتے تھے ،صبح کو ہر روز سورۂ یٰسین اور سورۂ یوسف کی تلاوت کا التزام رکھتے اور جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کا بھی معمول تھا ،حافظ ملت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عمل اتنا کرو جتنا بلاناغہ کر سکو! آپ ہر سال شب برات میں سو رکعت نماز پڑھتے اگر کسی سال چاند کی رؤیت میں اختلاف ہوتا تو انتیس اور تیس دونوں کے اعتبار سے لگاتار دو راتیں سو سو رکعتیں پڑھتے، اگرچہ اس رات حضرت کسی جلسہ یا میلاد کے پروگرام میں مصروف ہوتے (حیات حافظ ملت ص:٧٩/٨٠)
حافظ ملت کی شان معلّمانہ
آپ نے کئی ہزار علماء بلاواسطہ یا بالواسطہ پیدا فرمائے اور ان میں اکثر ایسے انمول و بیش قیمت ہیرے موتی ہیں جو دنیائے دین و سنیت کی شان اور وقت کے عظیم معلم،قائد،قلمکار یا مدبر و مدرس تھے اور ہیں۔
طلبہ کو علم و عمل اور اخلاق و کردار سے آراستہ کر کے ان کی شخصیت کو اجاگر کرنا اور انہیں اس طور پر نکھارنا کہ وہ جس سرزمین پر قدم رکھیں علمی و ایمانی روشنی بکھیرتے اور پھیلاتے ہوئے جائیں اور وہ خود اللہ کے احسان یافتہ عاجز بندے، عشق رسول میں غوطہ زن،نائب رسول رہ کر امت کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیں۔ اور یہ کارنامہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بخوبی انجام دیا۔
اس تعلق سے رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ یوں رقمطراز ہیں” استاد شاگرد کا تعلق عام طور پر حلقہ درس تک محدود ہوتا ہے لیکن اپنے تلامذہ کے ساتھ حافظ ملت کے تعلقات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ پوری درس گاہ اس کے ایک گوشے میں سما جائے ،یہ انہی کے قلب و نظر کی ناپید کنار وسعت اور انہی کے جگر کا بے پایاں حوصلہ تھا کہ اپنے حلقہ درس میں داخل ہونے والے طالب علم کی بے شمار ذمہ داریاں اپنے سر لیتے تھے۔ طالب علم درس گاہ میں بیٹھے تو کتاب پڑھائیں، باہر رہیں تو اخلاق و کردار کی نگرانی کریں ،مجلس خاص میں شریک ہوں تو ایک عالم دین کے محاسن و اوصاف سے روشناس فرمائیں، بیمار پڑے تو نقش و تعویذات سے اس کا علاج کریں، تنگدستی کا شکار ہوجائے تو مالی کفالت فرمائیں، پڑھ کر فارغ ہو تو ملازمت دلوائیں اور ملازمت کے دوران کوئی مشکل پیش آئے تو اس کی بھی عقدہ کشائی فرمائیں، طالب علم کی نجی زندگی، شادی، بیاہ یا دکھ سکھ سے لے کر خاندان تک کے مسائل میں دخیل و کارفرما، طالب علم زیر درس رہے یا فارغ ہو کر چلا جائے ایک باپ کی طرح ہر حال میں سر پرست اور کفیل ہوتے تھے۔
یہی ہے وہ جوہر منفرد جس نے حافظ ملت کو اپنے اقران و معاصرین کے درمیان ایک معمار زندگی کی حیثیت سے ممتاز اور نمایاں کر دیا ہے ۔(حیات حافظ ملت ص:١٢٨)
حافظ ملت خسائل حسنہ کے پیکر
حافظ ملت جہاں ایک عظیم مفکر، مدبر ،عالم ربانی، مرشد طریقت، مدرس، خطیب اور اہل سنت والجماعت کے تعلیمی قلعے کے سربرا
ہ اعلی تھے وہیں انسانی فلاح و بہبود کے لیے انتھک کام کرنے والے سماجی کارکن بھی تھے،آپ اسلامی اخلاق و آداب کے معلم ہی نہیں بلکہ اس پر عامل بھی تھے، اسلامی اخلاق انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے ،جو انسان اس سانچے میں ڈھل جائے اس کے عادات و اطوار مہذب ہوجاتے ہیں،حافظ ملت کی تحریری کارناموں میں اخلاقیات کے کئی موضوعات پر نہایت عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں ،جن میں انہوں نے قوم کو مخاطب کیا ہے مگر جب ہم نظر عمیق سے جائزہ لیتے ہیں تو ان کی تحریروں میں خود ان کی ہی زندگی کی عملی تصویر نظر آتی ہے ۔
حافظ ملت کے اخلاق و اوصاف سے متاثر ہو کر حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں”بعض لوگوں نے انہیں استاذ العلماء اور جلالت العلم ہی سمجھا، لیکن وہ میری نظر میں عارف باللہ اور اللہ کے ولی ہیں ، علم ظاہر و باطن کے ایسے سنگم جہاں ہر پیاسے کو پانی ملے وہ استاد العلماء کی ذات گرامی ہے، ایک ایسا عابد شب زندہ دار کہ زہد و تقوی اور پارسائی جس کے دامن کی حسین جھالریں ہیں ، لباس میں ایسی سادگی جس سے عالمانہ وقار پھوٹ پھوٹ کر برستا ہو ،گفتار میں ایسی نرمی اور مٹھاس گویا ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے ہوں، ایسے کریم اور شفیق کے بچے انہیں پاکر ماں کی گود بھول جائیں ” (حیات حافظ ملت ص:١٧٠/١٧١)
بیسویں صدی کے عظیم شخصیتوں کے صف میں آپ کا مقام ومرتبہ اور آپ کے کارناموں کو کوئی انصاف پسند مؤرخ ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتا، آپ کی شخصیت ایک مرکزی شخصیت تھی، آپ نے اپنے مشن کا اصل نشانہ ایسی چیزوں کو بنایا جو مرکزی اور اصولی حیثیت کی حامل ہیں، آپ صرف نہروں پر قانع نہ تھے بلکہ دریا ،سمندر کو بھی اپنا مقصد حیات تصور کیا کرتے تھے۔
جذبۂ دینی سے سرشار ہو کر فرمایا کرتے”مسجد بنانا ثواب ،سرائے بنانا ثواب، یتیم خانہ بنانا بھی یقینا ثواب مگر مدرسہ سب سے بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اگر علماء نہ پیدا ہوں گے تو ان سب کو کون آباد کرے گا میں نے مدرسہ کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔