از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ
اس وقت جو مسلمان کمزور نظر آتے ہیں ، اس کا ایک بڑا سبب افلاس و تنگ و دستی ہے ، جس نے سب کے سامنے جھکا دیا ہے ، اور پہلے بزرگوں پر قیاس نہ کرنا چاہیے۔، ان میں ایمانی قوت تھی ، وہ افلاس اور تنگ دستی سے پریشان نہ ہوتے تھے ، اور اس وقت دین کی قوت تو مسلمانوں میں ہے نہیں ، اگر مال کی بھی نہ ہو تو سوائے ذلت کے اور کیا ہوگا ۔
آج کل پیسہ کی قدر کرنا چاہیے ، اس کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی انسان بہت سی آفتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ، دین فروشی بھی اسی آفت کی ایک قسم ہے ، دین کی حفاظت کے لیے آج کل یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے پاس کچھ رقم جمع رکھے ۔
بعض طبیعتوں بلکہ اکثر لوگوں کے لیے اس زمانہ میں بقدرِ ضرورت مال جمع کرنا ضروری ہے ، ان کا تقویٰ مال ہی تک رہتا ہے ، اگر مال ہے تو نماز روزہ بھی ہے ورنہ کچھ نہیں ۔
میں آج کل مسلمانوں کو خالی ہاتھ رہنے کی رائے نہیں دیتا بلکہ وہ رائے دیتا ہوں جو حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ والوں کو دی تھی ، اور یہ وہ بزرگ ہیں جو دنیا اور دنیا داروں سے انتہا درجہ کی نفرت رکھتے تھے ، وہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس پیسہ ہو اسے چاہیے کہ اس کی قدر کرے ، اڑائے نہیں ، یہ حضرات مربی تھے ، حدود کو سمجھنے والے تھے ۔
حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حلال میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی ہے کہ اس کو فضول خرچ کیا جائے ، اور آپ اس کی مصلحت بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر دراہم مال و دولت ہمارے پاس نہ ہوتے تو حکمراں ہم کو رومال بنا لیتے اور پامال کرتے یعنی جس طرح چاہتے استعمال کرتے ۔
واقعی جس کے پاس مال ہوتا ہے اس پر حکمراں دست اندازی نہیں کر سکتے ، مال والا بڑی آن بان سے رہتا ہے ، اور اس کی وہ عزت ہوتی ہے ، جو بے پیسہ والے کی نہیں ہو سکتی ، اس کو سر نیچا نہیں کرنا پڑتا ہے ، بھائ اسی واسطے مال بڑی قدر کی چیز ہے ، حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے مال کی یہ حکمت بیان فرمائی ہے ۔
اب آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ مال کیسی چیز ہے ، کیا یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت نہیں ہے کہ جیسے غریب پر امیر لوگ دست اندازی کر سکتے ہیں ، اپنا تابع بنا لیتے ہیں ، مال والے پر نہیں کر سکتے ؟ مالداری ہی تو اس کا سبب ہے ، بس ایسی چیز کو برباد کرنا کتنی بڑی حماقت ہے ۔
اللہ رب العزت ہم سب کو سمجھ کی توفیق نصیب عطا فرمائے ۔
آمین ثم آمین یارب العالمین