تحریر: محمد شاھد بركاتى
جو شخص کسی مسلمان کی نیک نامی کو نقصان پہنچانے کی غرض اور حقارت کی نیت سے عوام میں اس کی توہین اور برائی کرتا ہے ایسا شخص قرآن وحدیث کی روشنی میں کم از کم تین گناہوں کا مرتکب ہے۔
- جو الزام وہ اس مسلمان پر لگا رہا ہے اگر جھوٹا ہے تو تہمت اور بہتان لگانے والا ہے اور سخت عذاب کا مستحق ہے. صحیح حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو کسی مسلمان پر جھوٹا الزام لگائے اس کا ایک عذاب یہ ہوگا کہ جہنمیوں کے بڑے بڑے پہاڑ جیسے جسموں سے نکلنے والا سخت گرم بدبودار خون پیپ جو بہہ بہہ کر ندی نالے کی طرح ہو جائے گا اس کو اس میں ڈالا جائے گا اور حکم دیا جائے گا کہ جبتک اپنی لگائے ہوئے الزام کا ثبوت نہ دے دے اسی میں رہ، اور وہ ثبوت کہاں سے دے گا جبکہ جھوٹی بات ہے.
- مسلمانوں میں بری بات پھیلانا بھی گناہ اور عذاب کا کام ہے. قرآن کریم میں فرمایا کہ: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ان کیلئے دردناک عذاب ہے، دنیا اور آخرت میں، اور اللہ جانتا ہے، اور اللہ تم نہیں جانتے. (سورہ نور: آیت 19)
- مسلمان کو بغیر صحیح وجہ کے تکلیف پہنچانا گناہ ہے، اور ظاہر ہے کہ جس پر الزام لگایا گیا اس کو تکلیف ہوتی ہے. صحیح حدیث شریف میں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: جس نے کسی مسلمان کو بغیر شرعی وجہ کے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی. (معجم اوسط طبرانی: حدیث نمبر 3633)
ایسے لوگوں پر توبہ بھی فرض ہے اور اس مسلمان سے معافی مانگنا بھی، کیونکہ یہ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق میں سے ہے۔ (فتاوٰی رضویہ جدید: جلد 24، صفحہ 357)