تحریر:عین الحق امینی قاسمی
بانی و ناظم: معہد عائشہ الصدیقہ ، رحمانی نگر ،بیگوسرائے
ا سلام کا نظریہ عورتوں کے ساتھ ہمیشہ اکرام واحترام کارہا ہے، اسی لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسلام مذہب نے عورتوں کے حقوق کاخیال کیا اور اُسے اس کی مناسبت اور مفاد کے پیش نظر اختیار ات عطاکئے ،عورتوں کے مزاج اور مفاد کا خیال دیگرمذاہب کے مقابلے اسلام مذہب نے سب سے زیادہ کیاہے۔ ہمارے نبی جی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں: حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اورحضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت رکھنے میں حضرت فاطمہؓسے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا، حضرت فاطمہؓ اپنے والد سے بہت سی چیزوں میں مشابہت رکھتی تھیں۔ حضرت فاطمہؓ جب اپنے والد کی مجلس میں اُن سے ملنے جاتیں تو پیارے حبیب اُن کا استقبال کرتے اور خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے پھراُن کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ بٹھاتے اور جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ مرحبا کہتیں اور کھڑی ہوکر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیتیں او راپنی جگہ اپنے ابامحترم کو بٹھاتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹی سے اس درجہ محبت تھی کہ سفرمیں نکلنے سے پہلے آخری دیدار فاطمہ زہراؓ کا کرتے اور جب واپسی ہوتی توخانہ خدامیں حاضری کے بعد اپنی نوری کے پاس تشریف لاتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز ِ عمل سے بیٹی کی عزت ،اُس کے ساتھ شفقت اُس کا احترام اوراُس کے ساتھ محبت کابے مثال نمونہ پیش کیا،تاکہ بعد کے دنوں میں بھی بیٹیوں سے محبت اوراُس کی عزت کی جاتی رہے اور بیٹیوں کو کم تر سمجھ کر اُس کے مرتبے اورعظمت و تقدس کے ساتھ ناانصافی اور خیانت نہ ہو۔ بیٹیوں کی پرورش کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
”جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں یاتین بہنیں ہوں اوروہ اُن کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے،ان کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرے، اُن کے وجود کو اپنے لئے ذلت کاذریعہ نہ سمجھے تو اِس عمل کی وجہ سے وہ والد اور بھائی جنت میں ہوں گے۔ ایک موقع پرفرمایا کہ: جس شخص کی دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں او روہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گذارے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اِس کی وجہ سے اُن کو جنت میںداخل فرمائیں گے ۔ (ترمذی باب ماجاءفی النفقة علی البنات)
جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ کچھ آزمائے اوروہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے تویہی لڑکیاں اُس کے لئے آگ سے بچاﺅ کا ذریعہ بنیں گی۔ (ترمذی ج۲ ص۳۱)
جس شخص نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ شادی کے لائق ہوگئیں تو قیامت کے دن وہ مجھ سے اتنا قریب ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں قریب قریب ہیں۔ (ترمذی ج۲ ص۳۱)
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جوشخص ایک بیٹی کو پالے ،اُس کوتہذیب اورادب سکھائے،اس کو کھلانے پلانے اور دیگر ضروریاکے انتظام کی تکلیف پرصبر کرے اللہ تعالیٰ اس کو بھی جنت میں جگہ دیں گے (ترمذی ج۲ ص۳۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو بے شک بیٹیاں (ماں باپ کے لئے غم گسار اور عزیز ہوتی ہیں۔ ایک موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ ماں برکت والی ہے جو پہلے بیٹی کو جنم دے۔ (ترمذی ج۲ ص۳۱)
”حیا ” تحفظ وشرافت کا مظہر:
شرم وحیا نہ صرف ایمان کا حصہ ہے بلکہ انسانی فطرت کاتقاضہ بھی ہے۔بے حیائی خواہ جسمانی ،نظریاتی یا اخلاقی ہو،فتنے کا سبب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب انسان سے شرم وحیا رخصت ہوجاتی ہے توانسان جو چاہتا ہے کرگذرتا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حیا انسانیت کی بقا کے لیے پونجی اور سرمایہ ہے،باغیرت خواتین اور بیٹیاں زندوں سے باپردہ رہتی ہی ہیں یہاں تک کہ وہ مُردوں اور نابینا ﺅں تک سے بھی پردہ کرنے میں اپنی عزت سمجھتی ہیں۔ جیساکہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے اور سیدہ فاطمہؓ نے تو مرنے سے پہلے وصیت کردی تھی کہ میراجنازہ رات میں اٹھایا جائے تاکہ بے پردگی نہ ہو۔معلوم ہواکہ پردہ مظلومیت کی پہچان یاقیدوبند کی علامت نہیں بلکہ عفت و پاکدامنی کے تحفظ کاذریعہ ہے، شرافت ،شائستگی اوراقبال مندی کا مظہر ہے۔ قرآن کریم نے مردو عورت دونوں کو حیا و پاکدامنی اختیار کرنے اور اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے نظروں کو نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
قُل لِلمُومِنٰتِ یَغضُضنَ مِن اَبصَارِھِنَّ وَیَحفَظنَ فُرُوجَھُنَّ۔ اورمردوں سے کہا گیا: وَقُل لِلمُومِنِینَ یَغُضُّو امِن اَب صَارِھِم وَیَحفَظُوافُرُوجَھُم ذَالِکَ اَز کٰی لَھُم اِنَّ اللّٰہَ خَبِیربِمَا یَصنَعُو نَ۔ (نور:30)
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :استحیوامن اللّٰہ حق الحیا۔ یعنی اللہ سے اتنی شرم کرو جتنی اس سے شرم کرنے کاحق ہے۔ (ترمذی) ایک روایت میں فرمایا:الحیاءلایا تی الابخیر۔یعنی حیاساری کی ساری خیر ہے۔ (مشکوٰة)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحیا سے مراد یہ ہے کہ سرکی حفاظت کی جائے اور اس کے متعلقات کی، پیٹ کی حفاظت کی جائے اور اسے وابستہ چیزوں کی ،موت کو اور موت کے بعد کے حالات کو یادکیاجائے تو حیاکا حق ادا ہوگا۔ سرکی حفاظت کامطلب یہ ہے کہ شرک سے بچاجائے،تکبر سے پرہیز کیاجائے، زبان کی حفاظت ،کان کی حفاظت، آنکھ کی حفاظت کی جائے،ستر پوشی کا مکمل خیال رکھا جائے ۔پیٹ اوراُس سے وابستہ چیزوں سے حفاظت کامطلب یہ ہے کہ حرام خوری سے بچاجائے، شرم گاہ کی حفاظت کی جائے وغیرہ ۔ موت اور مابعدالموت کاخیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی ہرحال میں فنا ہونی ہے ، موت آنی ہے مرنے کے بعد اپنی زندگی کابلاکم و کاست ایک ایک چیزکا حساب دینا ہے، جنت و جہنم کامعاملہ طے ہونا ہے اور یہ سب کچھ تب ہوگا ،جب بندہ مومن بندگی کے جذبے سے اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ اپنی دنیاوی عمرپوری کرے گا۔ اس لیے تمام مرد وعورت کو ظلم وزیادتی ،حق تلفی وناانصافی اورنافرمانی سے بچتے ہوئے زندگی کے تمام مرحلوں میں اس طرح شرم کرنا چاہئے جتنا اُس کا حق ہے۔ کسی بھی پہلو سے اگربے احتیاطی ہوگی یابدسلوکی ،بداخلاقی اوربدفعلی ظاہر ہوگی تواُس پر اللہ کی پکڑ ہوگی، اس کی پکڑ بہت سخت ہے، اس کی سزا بہت کڑی ہے اور اگر بیٹیاںحیا کولازم پکڑتی ہیں ،پردے کا اہتمام زندگی میں کرتی ہیں ،اس سے ان بیٹیوں کی نہ صرف عزت وشرافت ظاہر ہوگی ،بلکہ یہ چیز اُن کے لئے پاکدامنی ،شائستگی اوراقبال مندی کی علامت بھی ہوگی۔
حیا جس میں نہیں، وہ شباب اچھا نہیں لگتا بکھر جائے جو کِھل کر وہ گلاب اچھا نہیں لگتا
لڑکپن ہوگئی رخصت ،جوانی جھوم کر آئی ترا گھر سے نکلنا بے نقاب ،اچھا نہیں لگتا
عورتیں چوں چوں کا مُربہ :
عورتوں کے بارے میں دیگر مذاہب اوراُن کے رہنماﺅں کے افکار و خیالات پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی احمدعلی سعید تحریر فرماتے ہیں:
”یونان کانظریہ رہا ہے کہ آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈس لینے کا علاج ممکن ہے مگر عورتوں کی شرارت اور اس کے فتنے سے بچنے کا علاج ممکن نہیں۔ رومی مفکرین سالوں تک اس بات پر لڑتے رہے کہ عورت انسان بھی ہے یانہیں؟ بالآخر فیصلہ بھی لیا تو یہ کہہ کر لیا کہ وہ حیوانِ نجس ہے جو روح سے خالی ہے،اُس کے لئے ہنسنا اور بات کرنا جائز نہیں بلکہ اپنے منھ کو بند رکھے اور صرف روم ہی نہیں بلکہ امریکہ افریقہ ، آسٹریلیا وغیرہ کے بعض قبائل خاندانوں میں بھی عورت کے متعلق یہی نظریہ قائم کیا گیا تھا۔ عرب دنیامیں بیوی کے رہتے ہوئے اگرشوہر گذرجاتا تومال کی تقسیم کی طرح نہ صرف بیوی بھی وراثت میں تقسیم ہوجاتی بلکہ مکہ کی کال کوٹھری میں دوسال کے لئے رکھ دی جاتی تھی ،اگر پھربھی وہ زندہ رہجاتی تو اُس کا منھ کالا کرکے مکہ کی گلیوں میں گھمایا جاتا،نہ وہ خوش رنگ لباس پہن سکتی اور نہ خواہش کے مطابق کھاپی سکتی تھی۔ خود ہندوستان کے ہندوازم میں ستی کا رواج عام تھا یعنی عورت شوہر کے مرنے کے بعد زندہ رہنے کے لائق نہیں رہتی تھی اِس لئے اُسے بھی شوہر کی چتا پر زندہ لٹاکر آگ کے حوالے کردیاجاتا تھا۔ (عورت اور اسلام)
یہ وہ جھلکیاں ہیں جس میں بیٹیوں سے متعلق دیگر مذاہب وادیان میں تصور پایا جاتا ہے اور یہ صرف کل کی بات نہیں بلکہ وقت اور حالات کے اعتبار سے آج بھی یہ نظریہ قائم ہے۔ وقت بدلا اورنئی روشنی کی طرف لوگ بڑھ رہے ہیں ،اس لئے بیٹیوں کے استحصال کا طریقہ اور عنوان و نام بھی بدل گیا ورنہ آج بھی کہیں آزادی کے نام پر، کہیں ہمدردی کے نام پر، کہیں ترقی کے نام پر، کہیں زندگی جینے کا نیا اسٹائل کے نام پر، کہیں مساوات کے نام پر، کہیں بنیادی حقوق اور انصاف کے نام پر اورکہیں ”ہم دو ہمارے دو“ ، ”پہلا بچہ ابھی نہیں ایک کے بعد کبھی نہیں“ ،”اگلا بچہ ابھی نہیں دو کے بعد کبھی نہیں“ اور ”کم سنتان سکھی کسان“ جیسے نعروں کے نام پر،ہزاروں نہیں کروڑوں بیٹیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہر دن ہوتی رہی ہے اور معاف کیجئے! ایسانہیں ہے کہ اِن نعروں کے پیچھے صرف غیروں کی کارفرمائی ہے بلکہ اپنوں نے بھی ان نعروں کو کم تقویت نہیں پہونچائی ہے،غریب اور جاہل تومفت کے بدنام ہوئے، ہمارے پڑھے لکھے ”دور اندیش مردِ دانا“نے بھی بیٹے اور بیٹیوں کی نہ صرف محبتوں کو بانٹ دیا ہے بلکہ اُن کی زندگی جینے کے حق و انداز تک کو بدل ڈالا ہے۔ مذکورہ نظریے کے برخلاف اسلام نے کل بھی بیٹیوں کوزندہ درگور ہونے سے بچایا اورآج بھی تمام بے بنیاد نعروں پہ تالے ڈال کر نہ صرف اُن کی عظمتوں اور حقوق کو پامال ہونے سے بچانے کا قائل ش ہے بلکہ اُن کو اُس مقام پر واپس لانے کے لئے ساری باطل طاقتوں سے پنجہ آزمائی کررہا ہے جو ایک بیٹی کا واجب حق اور مرتبہ اُس کے پالنہارنے ا نہیں دیا ہے : زندہ رہنے کاحق،حسنِ سلوک کاحق،
پرورش کا حق،تعلیم کاحق، رشتے کاانتخاب اور شادی کاحق ،مہرکا حق، نان و نقہ کاحق،خدمت کاحق، اظہاررائے کاحق، وراثت اورمعاکاحق، بعدشادی بھائیوں کے پاس لوٹنے کاحق، والدین سے ملنے جلنے کاحق، دینی ومذہبی حقوق، سماجی اور معاشرتی حقوق ،قانونی اورآئینی حقوق، تعلیم وتدریس کاحق،کاروبار اور تجارت کاحق زیب وزینت اور بناﺅ سنگار کاحق،طلاق و خلع کاحق یااِن جیسے چھوٹے بڑے حقوق کے بارے میں کونسا ایسا حق ہے جواسلام نے ایک عورت کو نہیں دیا ہے ۔
ضرورت ہے کہ بیٹیاں اپنی عظمتوں کو پہچانیں،اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں،حقوق و اختیارات کا صحیح استعمال کریں،حقائق کو برتیں ،سچائی کو جانیں اور پڑھیں،افواہوں پرکان دھرنابند کریں، غیروں کے آلہ ¿ کار بننے سے خود کو بچائیں،اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کی پاسداری کریں، دنیا کی عارضی اورفناہوجانے والی چمک ودمک سے متاثر ہوکر ضائع ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں۔یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے یہ کسی کی نہیں ہوئی ہے ،تمہاری بھی نہیں ہوگی،یہاں اصلی شیطان بھی ساتھ ساتھ رہتا ہے اور شیطان نماانسان بھی ساتھ رہتے ہیں۔یہ نہیں چاہتے کہ حو ّا کی بیٹی عزت سے جئے، سربلندی اس کی زندگی کاحصہ بنے، صبروشکر کادامن ہاتھ میں رہے، نماز وقرآن اس کے معمولات میں شامل رہیں، دلوں میں ایمان کا نور اور زبان پہ درود پاک کی ڈالی رہے۔شیطان تو شیطان ہوتاہے وہ انسانیت کادشمن ہے وہ بظاہر خیر کا احساس بھی دلاتا ہے تو یقینا اُس کے پیچھے شیطانوں کامفاد وابستہ ہوتاہے ۔آج جو مسلم بچیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر ،مدد کا وعدہ کر کے ،تحفے اور تحائف کے ذریعے ،گڈ لائف ،پرسنل لائف کا چکمہ دے کرگمراہ کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے ،یہ در اصل مسلم معاشرے کو مرتد بنا نے کی مہم ہے ،یہ کالجوں اسکولوں اور پارکوں میں پروان چڑھنے والی محبت، اکثرجھوٹی ،وقتی اور جذباتی محبت ہوتی ہے، بیٹیاں تھوڑی سی غفلت ، لالچ ، مفاد پرستی، خواہش اور جذبات کی وجہ سے ایمان اورعقیدئہ توحیدجیسی عظیم دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں،اس طرح یہ محبت، درحقیقت ایمان و عقیدے کو غارت کر کے سدا کے لئے جہنم میں دھکیلنے والی محنت ثابت ہوتی ہے ۔
پہلے چاہت ،پھر نگاہوں سے اتاری جاؤگی
آبرو بھی جائے گی اور تم بھی ماری جاو ¿گی
تم پھرو گی در بدر،رسوائی اور ذلت کے ساتھ
بیٹیو! جب چھوڑ کرنسبت ہماری جاو ¿گی
یہ تو اک سازش ہے،ورنہ تم نہیں ان کو قبول
کل وہی نفرت کریں گے، آج پیاری جاوگی
جِس گھڑی دِل بھر گیا، کوٹھے پہ بیچیں گے تمہیں
زخمی عزت کرکے چھوڑیں گے، کنواری جاوگی
جِسکے دَم پر گھر سے نِکلی، کل وہ جب دے گا فریب
سوچ لو کِس سِمت پھر تم پاوں بھاری جاوگی
عِزت و عظمت گنوا کر منہ دِکھاو گی کِسے
کرتے کرتے دنیا سے تم آہ و زاری جاوگی
اترے گا تھوڑے دنوں میں ہی جوانی کا نشہ
ظلم کی آغوش میں جب باری باری جاوگی
کوئی مذہب دے نہ پائے گا تمہیں ایسا حِصار
چھوڑ کر اِسلام کی جب پاسداری جاوگی
ہے شریعت ہی تمہاری پاسباں اے بیٹیو !
دامنِ اِسلام میں ہی تم سنواری جاو گی
تم کو کچھ شِکوہ تھا، تو اپنوں سے کردیتی بیاں
اِتنے پر، کیا دوسروں پر تم واری جاوگی
آہ دوزخ کو خریدا، تم نے ایماں بیچ کر
آہ اب روزِ جزا، تم بن کے ناری جاوگی
روتی ہے چشمِ فریدی، دیکھ کر انجامِ بد
گر نہ سنبھلوگی تو لینے صِرف خواری جاوگی
بہت سے اہل قلم کا یہ بھی ماننا ہے کہ بیٹیوں میں ذہنی بگاڑ کا سبب مخلوط تعلیم ہے : چاہے گھروں میں ٹیوشن پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے ہو یا اسکول وکالج اور یونیورسٹیوں کے کلاسوں میں یا تعلیم کے نام پر ہاسٹلوں میں بے محا با نششت وبرخواست کے ذریعے سے ہو ،بے وجہ گھروں سے نکلنا اور دیر تک گھروں سے باہر رہنا ، کلاس میٹ کے نام پر مسلم غیر مسلم افراد کا گھروں میں آتے جاتے رہنا ،جانبین سے گفٹ اور تحفے کے بہانے دل کو تسلی دینے کی راہ نکالنا ، ہیلپ اور مدد کے نام پر غیر مسلم لڑکوں سے رابطہ بنانا،والدین کی تساہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کے نتیجے میں یہ اشارہ کرنا کہ نظر کُھلی رکھو ،بیٹی سے یہ کہنا : کوئی اچھا لڑکا ہو تو بتا نا میں خود سے بات کروں گی ، دور نزدیک کے رشتہ دار وں اور پاس پڑوس میں ہونے والی تقریبات میں اپنی جوان سال بیٹیوں کو لے جانا ،وہاں موجود ہرطرح کے مہمانوں سے ملوانا ،تقریبات میں شریک نوجوان لڑکوں سے ملنے کی آزادی ،دونوں میں رابطے کی کڑیوں کو مضبوط کرنے کی غرض سے موبائیل نمبرات کی لین دین ،یا ماں کی طرف سے بیٹی کو یہ ہدایت کہ اپنے نمبرات دوستوں میں شیئر کرو وغیرہ۔ وجہ چاہے جو بھی ہو اور چاہے ماں بیٹی میںسے جس کسی کی طرف سے بھی ہو غلط ،غلط ہے اور اُس کے نتائیج بھی تباہ کُن ہوتے ہیں۔
ہر مرض کی دوا ہے صلِ علٰی محمد
ذاتی احساس یہ کہ بیٹیوں کی اخلا
قی بگاڑ کی بنیادی وجہ دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کی کمی بہت بڑین وجہ ہے ،چونکہ سماج کا جومزاج ہے اور معاشرتی کچھ ضروریات ایسی ہیں کہ ہم بیٹیوں کو نہ موجودہ تعلیم سے الگ رکھ سکتے ہیں اور نہ طریقئہ تعلیم سے ،چونکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ عصری درسگاہوں کی ایسی کچھ مجبوری ہے کہ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کرنے کو کچھ نہیں ،اس لئے چار وناچار ہمیں بھیجنا وہیں ہے ،البتہ موبائیل یا جو بہت سی دوسری وجوہات اوپر ذکر کی گئی ہیں اُس پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر قابو نہیں ہوپا رہا ہے تو اِس میں والدین کی طرف سے یقیناًکوتاہی ہورہی ہے ،مگر اِن سب سے قطع نظر اگر بنیادی دینی تعلیم وتربیت پر بھر پور اور شروع سے توجہ کی جائے تو ارتدادی اور بد اخلاقی امراض پر کنٹرول ہوسکتا ہے اور یہ ایسا نسخہ ہے جسمیں سماج کے ہر طبقے کے لئے مرض کی تشخیص موجود ہے ،بنیادی دینی تعلیم وتربیت کے نظام کو مضبوط و مربوط کر ہماری شرعی ذمہ داری بھی ہے اور اس کو بھلے طریقے سے کیا بھی جا سکتا ہے ،اِس میں ماں ،بیٹی والد ،بھائی ،بہن سب کے لئے ہدایت و ذمہ داریاں اور زندگی گذارنے کے اسباق موجود ہیں ۔ اِسی نسئخہ کیمیا سے عرب کے بدوﺅں میں انقلاب آیا ،ایمان ملا ،دین ملااور خوفِ خدا کی دولت سے بُرائیوں سے بچنا ،مُنکرات سے رُکنا آسان ہوااور اپنے آپ کو تمام بد اخلاقیوں سے بچا کر اُنہیں ایک کامل اورقابل اتباع انسان بننے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
گر حوصلے بلند ہوں :
آج اگر ایک بار پھر ہماری بیٹیاں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیں اور کمر بستہ ہوکر دین کی اشاعت و حفاظت کا بیڑہ اُٹھالیں تو نہ صرف صالح معاشرہ کی تعمیر وتشکیل ہونے لگے گی ، بلکہ گھروں میں دین زندہ ہوگا ، امت کی بیٹیوں کے لئے گناہوں سے بچنا بھی آسان ہوگا اورفروغِ اسلام میں خواتین کی قربانیوں سے روشنی پاکر ہزاروں ہزار باکردار عابدہ، زاہدہ،صالحہ، عالمہ اور فقیہ خواتین کے زمرے میں شامل ہوکر روشن راریخ کا حصہ بننے کا موقع بھی ملے گا ۔
دنیا دھوکے کا گھر ہے۔
شیطانوں نے مساوات کانعرہ تو ضرور دیا مگر عورتوں کی حالت بدتر کردی، جوتیوں کی ٹھوکروں میں اس کی عزتیں نیلام کردی،اس کو گھروں سے نکال کر بازاروں کی زینت بنادی، پارکوں کی رَکھیل بنادیا،کاﺅنٹروں پہ بٹھاکر ہوس کے پجاری انسانی درندوں کے حوالے کردیا۔ عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ،اغوا، عصمت دری اور ہرمنٹ وسکنڈ قتل وغارت گری کے روح فرسا واقعات سے کلیجہ منھ کو آتاہے۔ ہرطرف خوف وسراسیمگی کاماحول، عورتوں کے لیے عذاب بن کر رونما ہورہا ہے ۔عورتیں کہاں جائیں، وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ،بیٹیاں نہ صرف دُھت کاری جارہی ہیں، اپنے حقوق سے ٹھکرا ئی جارہی ہیں بلکہ کہیں نوکری کے نام پر ،کہیں مخلوط تعلیم کے نام پر، کہیں عزت اورسمّان کے نام پر لوٹی جارہی ہیں تو کہیں اپنے سوچ کے غلط استعمال اور ظاہری محبتوں کے جال میں پھنس کر خود کو برباد کررہی ہیں۔ جھوٹی ہمدردی، مکارانہ رحمدلی اور عیارانہ چال سے اسلام کے خلاف مسلم عورتوں کو اُکسانے کا کام شروع سے ہوتا آیا ہے،کبھی پردے کے خلاف ورغلایا گیا کہ یہ غلامی کی نشانی ہے ،مجبور و مظلوم مخلوق کی پہچان ہے، اس جھوٹ کو اتنا فروغ دیاگیا کہ عورتیں سڑکوں پہ نکل آئیں اور ان کے لیے گھر میں جینامشکل ہوگیا ۔کبھی اسلامی قوانین کونشانہ بناکر مسلم عو رتوں سے ہمدردی جتائی گئی اور بِکاﺅ میڈیا کے سہارے اسلامی قوانین کو اتنامشکل اور دشوارترین بناکر پیش کیا گیاکہ بعض مسلم عورتیں جھانسے میں آکر آج بھی اسلام کے خلاف پرچار ک بنی ہوئی ہیں۔ کبھی طلاق ثلاثہ کے نام پر ،کبھی حلالہ اور کبھی تعددازدواج کابہانہ بناکر مسلم عورتوں کی عاقبت خراب کرنے کی پوری سازش چل رہی ہے۔
وہ چندبدنصیب عورتیں ہوں گی جو اِن ڈراموں کا حصہ بن کر رول اداکرتی ہیں، جن کاٹھکانہ یقیناجہنم ہوگا،ورنہ یہ مسلم خواتین حضرت عائشہؓ،فاطمہؓ، سمیہؓ اور حضرت خدیجہؓ جیسی باکمال خواتین کو اپنا رول ماڈل مان کر جنت کا حقدار خود کو بنا سکتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگران بہروپیوں کو مسلم خواتین سے سچی ہمدردی ہے تو وہ ان کے مسائل سے روبرو ہوں، مسلم خواتین کے ساتھ تعلیم کا مسئلہ ہے، روزگارکا مسئلہ ہے، ان کو سبسڈی اور اسکالر شپ چاہئے،ان کے ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان جیسے مشکلات ہیں،ان خواتین کے بچوں اور شوہروں کو دہشت گرد ی کے غلط اوربے بنیاد الزام میں انکاﺅنٹر کردیاگیا،ان کا مناسب معاوضہ اوران کی بچیوں کی شادی کاانتظام کیاجائے، ان خواتین کے لیے روز مرہ کے جو بنیادی مسائل ہیں انہیں دو رکیاجائے اور ملک کی حفاظت میں سرحدوں پر جن کے بچے اور شوہر اپنی جان ،ملک ووطن کے تحفظ میں قربان کرگئے ان بیواﺅں کے لیے پنشن دینے کا کام کیاجائے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ ان جیسے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنی ناکامی چھپانے کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچا جارہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت سی ہماری ہندو بہنیں کنواری بیٹھی ہیں،کیا انہیں مدد کی ضرو
رت نہیں ہیں، کیا ان کے مسائل پر سوچنے کا ان کے پاس وقت نہیںہے اور وہ ہندو بہنیں جوسماجی مصیبتوں کی چکی میں پِس رہی ہیں کیا انہیں آزادی دلانے کی ضرورت نہیں؟
اُن فریب کاروں کو سمجھ لیناچاہئے کہ مسلم خواتین، ان کی نوٹنکی کوخوب جانتی ہیں اور کم ازکم اب جان چکی ہیں۔ہماری باصفا اور باکردار خاتون، جنت کی دلدادہ ہیں،ان کے لیے ازواج مطہراتؓ اور صحابیاتؓ کی سیرت ہی رول ماڈل ہیں وہ انہیں کی پیروی اور کامل اتباع میں کامیابی کایقین رکھتی ہیں،یہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے آج بھی صحابیاتؓ کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔یہ مسلم خواتین اور بیٹیاں اپناسب کچھ داﺅ پر لگاسکتی ہیں ،مگراپنے جیتے جی دین و شریعت اور اُس کے قوانین پرآنچ آنے دیناگوارہ نہیں کرسکتیں۔یہ جانتی ہیں کہ ہمارے رسول و صحابہ ؓ نے بچوں کو یتیم، بیویوں کو بیوہ اور مالوں کو قربان کرکے دین کو ہم تک پہنچایا ہے، دین وشریعت کی اشاعت وحفاظت کے لیے حضرت خنساؓءوسمیہؓ جیسی باکمال خاتون نے اپنے سامنے اولاد وشوہر کی شہادت کے ساتھ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا توگوارہ کرلیا، مگرنبی کی ذات ومشن پرکوئی حرف آئے ، اُسے برداشت نہیں کیاہے۔
ہماری خواتین بھی اپنے اندر دین اسلام کے تئیں صحابیاتؓ والی سوزو ساز رکھتی ہیں وہ کسی پل بھی اپنے دین وایمان کا سودا نہیں کرسکتیں ،وہ بھی دین کے لیے ہر طرح کی جانی مالی قربانی کے لیے تیارہیں، اپنے گھروں میں پردے کے اندر رہ کر بھی بہت کچھ کر گذر نے کا مبارک جذبہ رکھتی ہیں،مسائل آئیں گے اور آتے رہیں گے، مگر دین وشریعت کے مفاد کو سامنے رکھ کر اُس کامقابلہ کرتی رہیں گی۔
دشواریاں ہر جگہ ہیں ، اُس سے گھبراناہماری شان نہیں، بلکہ اس کا مناسب حل تلاش کرناہماری پہچان ہے،ہمیں قرآن وحدیث میں اس کا حل تلاشنا ہے،احادیث اور صحابیاتؓ کی سیرت ہماری رہنمائی کریں گی، اسلا م مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے ، اسکے قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں،ہمیں سنجیدہ ہوکر حفظ وامان کی راہ اپنانی ہے، جذبات سے ہٹ کر اصلاح کے ارادے سے سماجی پنچایت اور دارالقضاءامارت شرعیہ جیسے اداروں سے انصاف حاصل کرنا ہے، ہمیں غیروں کی عدالت میں خود کو ذلیل کرنے، مالوں کی بربادی اور اپنے قیمتی وقت کو ضائع ہونے سے بچاناہے۔ مذہب پربھرپور اعتماد اور کامل یقین بہت بڑی طاقت ہے اس سے جہاں عمل کی راہ آسان ہوتی ہے وہیں اللہ کی مددبھی شاملِ حال ہوتی ہے اور زندگی میں بھی عزت سے جینے کے راستے نکلتے ہیں۔