تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
’’کسی مذہب کے پیروکاروں کے اعتقادات مجروح کرنے کے عمل کو آزادیِ اظہار کا نام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ یہ بیان کسی مسلم دانشور کا نہیں بلکہ ایک کرسچن پیشوا کا ہے؛ جو حالات کے تجزیے سے اُبھرا ہے۔ آزادیِ اظہار کا نعرہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی، توہین، گستاخی، اہانت، شرعی قوانین پر تنقید کے لیے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔
آزادیِ اظہار کا سلوگن: آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن فطری تقاضا یہ ہے کہ آزادی قانون کی لگام سے مستحکم رہے۔ تخریب نہ بن جائے یا زندگی اجیرن نہ کر دے۔ اس لیے آزاد ملکوں میں امن و امان- قانون کی بالادستی سے قائم ہوتا ہے۔ اظہارِ خیال کی چھوٹ اگر دی جانی چاہیے تو اس ضمن میں بھی قواعد کی رعایت بہر حال ضروری ہو گی۔ مثلاً سچ کہنا، سچ سُننا، سچ پر چلنا یہ فطری اُصول ہے۔ اگر اسی روش کو اپنا لیا جاتا تو دُنیا سیکڑوں اور ہزاروں مسائل سے بچ جاتی۔ فساد فی الارض پر روک لگتی۔ زمیں امن و امان سے بھر جاتی؛ لیکن عصبیت و حسد کی آگ نے آزادیِ اظہار کے دل کش نعرے کو جھوٹ کے پُلندے میں جکڑ دیا۔ جس کا نتیجہ بربادی و تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔
توہین رسالت کی مہم: صدیوں تک شکست سے دوچار ہونے کے بعد یہود وانگریز نے جب یہ دیکھا کہ؛ ہم اسلام کے سیلِ رواں کو روک نہیں پا رہے، نبوی عظمت کا شہرہ بلند سے بلند تر ہو رہا ہے، نبوی اخلاق کے اثرات و ثمرات انسانیت کو دوام و استحکام عطا کر رہے ہیں، من کی دُنیا میں اسلام کی حسیں چاندنی پھیل رہی ہے، دل و جاں اسلامی نور میں نہا رہے ہیں، قافلہ در قافلہ، جوق در جوق اسلام کے دامن سے وابستگی بڑھ رہی ہے، علاقے کے علاقے کفر سے ٹوٹ کر اسلامی شوکت سے جُڑ رہے ہیں، ٹوٹے دل جُڑ رہے ہیں، غریب خوشی خوشی دامنِ اسلام میں آ رہے ہیں، تو انھوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ اب شرعی قوانین پر تنقید کی جائے۔ سیرتِ نبوی کو نشانہ بنایا جائے۔شعائرِ اسلامی سے انحراف کو ہوا دی جائے۔ اس کے لیے جھوٹ/اتہام کا سہارا لیا گیا۔ اگر سچ کا سہارا لیا جاتا تو سازشوں کا محل زمیں بوس ہو جاتا، اسلام کی ضیا؛ بے نور وجود کو ایمان سے منور کر دیتی، بقول اعلیٰ حضرت ؎
ترے دین پاک کی وہ ضیا کہ چمک اُٹھی رہِ اصطفا
جو نہ مانے آپ سقر گیا، کہیں نور ہے کہیں نار ہے
ایک جائزہ: توہین رسالت کی سازش پُرانی ہے، اس میں تمام باطل قوتیں متحد ہیں، بعض ان کے آلۂ کار -مؤحد- بھی ایسے ہیں جن کے دامن عصمتِ انبیا میں جرأت سے آلودہ ہیں۔ اس بابت ایک تجزیہ نقل کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ توہین اسلام و پیغمبر اسلام ﷺ کی بے ادبی کی بادِ سموم کس قدر وسیع کی گئی:
[۱] 15؍اپریل 2005: ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ iiنے سرکاری طور پر شائع شدہ اپنی بائیو گرافی میں کہا کہ ’’آئیے اسلام کے خلاف ہم اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار کریں۔‘‘
اسی دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی منصوبہ بندی ہوئی۔
[۲] ڈینش مصنف کیری بلجن کی ایڈیٹر جیلنڈس پوسٹس فلیمنگ روز سے ملاقات، ایڈیٹر نے اسی ملعون مصنف کی کتاب کے لیے خاکے تیار کروائے۔اور اگست 2005 میں ہی اس کے لیے اشتہار دیا گیا۔
[۳] 30؍ ستمبر 2005جمعہ: ڈنمارک کے اخبار جیلنڈس پوسٹس میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم)کے تصویری خاکے، کے عنوان سے 12؍گستاخانہ خاکوں کی اشاعت۔
[ماہ نامہ لانبی بعدی لاہور، تحفظ ناموس رسالت نمبر،ص133 ]
اس کے فوری بعد مسلمان مضطرب و بے چین ہوئے۔ کوپن ہیگ میں 27 مسلم تنظیموں کے قائدین نے یورپی کمیٹی براے حرمتِ رسول قائم کی۔ معافی کا مطالبہ کیا گیا۔ توہین کی مذمت کی گئی۔ 14؍ اکتوبر 2005 جمعہ کو، کوپن ہیگ میں پانچ ہزار افراد نے مظاہرہ کیا۔
لیکن تشویش ناک بات یہ رہی کہ مسلم کہلانے والے ملکوں کے صہیونیت پرست اخبارات نے ان کی گستاخانہ فکر کو آگے بڑھایا۔ جیسا کہ مصر کے اخبار الفجر میں خاکوں کی اشاعت ہوئی۔ پھر توہین کی فکر آگے بڑھتی گئی۔ پورا یورپ، امریکہ اس میں شامل ہوئے۔ کئی میگزین نے خاکے شائع کیے۔ آزادیِ اظہار کے پردے میں اس امرِ خبیث کو سہارا دینے کی کوشش کی گئی۔ اسے یورپ سے ایشیا پہنچایا گیا۔
خود ہندوستان میں کئی اخبارات نے اسی منفی فکر کی تائید کی۔ اسلام پر طنز و تشنیع کی۔ اسلامی اُصولوں کا مذاق اڑایا۔ اپنے دامن کے دھبوں کو نظر انداز کر کے اسلامی حسن میں نقص نکالنے کی جرأت کی۔
[۱] عصمتِ انبیا کے عقیدے پر ضربِ کاری لگائی گئی۔
[۲] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے رشتہ و تعلق و محبت کی پیمائش کی گئی۔
[۳] اسلام مخالف تمام قوتوں کو پیغمبر اسلام کی توہین کا راستہ دکھایا-
[۴] مسلمانوں کے زوال کی راہیں متعین کی گئیں۔
[۵] مسلم قوت و شوکت کی پیمائش کی گئی۔
[٦] مسلمانوں کو بے وطن کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
ہند میں گستاخیوں کا طوفان: ہند میں بھی جرأت اتنی بڑھی کہ رسول اللہ ﷺ کی توہین میں زبانیں کھلنے لگیں۔ سادھوؤں، یوگیوں اور بھگوا توا قوتوں نے اسلامی اُصولوں کے خلاف مہم چھیڑی۔ کورٹوں کے ذریعے اقتدارِ وقت نے اسلامی قوانین کے خلاف فیصلے کروائے۔ پھر مزید دو قوم آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی توہین کروائی۔ نرسنگھانند کی حال ہی میں توہین کی پے در پے جسارت، اقتدار کی پشت پناہی؛ یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ فرقہ پرست یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خاموش رہیں۔ یہ توہین کریں۔ جو چاہیں بکیں۔ ہم منھ بند رکھیں۔ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر جانِ ایمان ﷺ سے متعلق بکواس کریں اور ہم بے غیرتی کی چادریں تانے رہیں۔معاذاللہ! دُشمن چاہتا ہے کہ توہین کا عام ماحول بنا دیا جائے۔ بے ادبی روز مرہ کا معمول بن جائے اور قوم بے غیرتی کی نیند میں مست ہو؛ تو پھر کیا بچے گا! لیکن! ایسا نہیں ہو سکے گا۔ متاعِ عشق کو گوارا نہیں کہ آقا ﷺ کی بے ادبی ہوتی رہے اور عاشقِ رسول خاموش رہے۔کبھی کبھی عقل گھٹنے ٹیک دیتی ہے، کورٹیں بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہیں، طوفان جب سر چڑھ آتا ہے تو مشیت کسی غازی اور عاشق ممتا ز قادری کو پیدا کرتی ہے اور محبتوں کا اسیر دیوانگی سے کام لیتا ہے۔ عقل تکتے رہ جاتی ہے اور عشق سرفرازی پا جاتا ہے۔
نرسنگھانند نے بدتمیزی کی۔ ناموسِ رسالت ﷺ میں بار بار توہین کی۔ متعدد بار بکواس کی۔ پورے ملک میں ایف آئی آر کا اندراج ہوا۔ بریلی شریف میں جماعت رضائے مصطفیٰ کے توسط سے زبردست احتجاج کیا گیا؛ سروں کا سمندر جمع ہو گیا؛ مالیگاؤں میں بھی سڑکوں پر نکل کر ہم نے مظاہرہ کیا- افسوس کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اقتدار خاموش ہے؛ بلکہ گستاخ کا پشت پناہ معلوم ہوتا ہے!! ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے عاشقانِ مصطفیٰ کی کوششیں ضرور بہتر نتائج کا موجب ہوں گی- اللہ تعالیٰ! اہلِ شرک کو ذلتوں کی وادیوں میں دفن فرمائے ؎
تازہ مِرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰ عقلِ تمام بولہب
ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس و احترام کی فضا ہموار کی جائے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے تعظیم و تکریمِ رسول ﷺ کا درس دیا۔ ہمیں چاہیے کہ تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے تصانیفِ اعلیٰ حضرت کی اِس زمانے میں کثیر تعداد میں اشاعت کریں۔ تاکہ نئی نسل میں محبتِ رسول ﷺ کی ذہن سازی ہو۔ احترام نبوی کے معاملات کو فروغ دیا جائے۔ ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور درود و سلام کی محافل کو رواج دیا جائے۔ مسلمانوں کو جہاں عقیدۂ توحید کا درس دیا جائے؛ وہیں شانِ مصطفوی کے ایمان افروز اسباق بھی یاد کرائے جائیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظمتیں بیان کی جائیں جو شان و رفعت سے تعلق رکھتی ہیں؛ محبوبِ رب العالمین کی عظمتوں کی باتیں کی، کہی اور سُنی جائیں۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کیے اور کرائے جائیں تا کہ ایمان و عقیدے کے گلشن میں تازگی پھیل جائے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں امام احمد رضا قادری نے جو کتابیں لکھیں، کتاب و سنت کے احکام بیان کیے نیز دیگر ایمان افروز کتابوں کوگھر گھر پھیلایا جائے،ان کا نعتیہ مجموعہ ’’حدائق بخشش‘‘ پڑھا، سنا اور عام کیا جائے اور ان کے اس پیغام کو گرہ میں باندھ لیا جائے تا کہ مغرب کے طلسم کی تہیں چاک ہوں اور ہند کے مشرکین کی سازشیں دَم توڑ جائیں ؎
کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں