تحریر: محمد عسجد رضا مصباحی، بانکا
دارالعلوم غریب نواز و صدر تحریک اصلاح معاشرہ گڈا جھارکھنڈ
تخلیق آدم سے لے کر تا ہنوز اس سطح زمین پر لاتعداد افراد پیدا ہوئے اور اپنی حیات مستعار کے مقررہ لمحات گذار کر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس جہان فانی کو داغ مفارقت دے گئے ، مگر ان میں بہت کم ایسے انسان تھے جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ امت مسلمہ کی اصلاح اور فلاح میں گزرا ہو ۔ ہاں ! کچھ ایسے افراد بھی اس دنیا میں آئے جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی میں گزرا ۔ انھیں نفوس قدسیہ میں ایک عظیم المرتبت شخصیت، خلیفہ اعلٰی حضرت ، حضرت علامہ و مولانا مفتی سید شاہ عبد الرحمن قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات گرامی بھی ہے ۔ آپ کو دنیا مخدوم عالم پناہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔
*ولادت با سعادت*: آپ کی ولادت آپ کے نانا جان عارف باللہ سید شاہ عبدالحق قادری رحمۃ اللہ علیہ کے دولت کدہ پر ۱۲۹۴ھ بماہ صفر المظفر بروز جمعہ ہوئی۔ (ملخص، حیات مخدوم، ص:۷)
*تعلیم و تربیت*: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے جان سے ہی حاصل کی (چونکہ آپ کی عمر شریف ابھی چند ہی سال کی تھی اور آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا) خانگی تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ ہوکر سہسرام، کان پور اور بلند شہر میں رہ کر درس نظامیہ کے متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی اور پھر منتہی درجہ کی کتابیں پڑھنے کے لیے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ۔جب درس نظامیہ کے معیاری کتابوں و صحاح ستہ کی احادیث پر آپ نے مکمل عبور حاصل کر لیا، تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے ۲۰ جمادی الآخر ١٣٢٢ھ/١٩٠٣ء بروز جمعۃ المبارکہ، دستار فضیلت وسند حدیث سے نوازا اور خود فاضل بریلوی قدس سرہٗ نے آپ کی سند پر اپنے دست مبارک سے”ایھا الفاضل الکامل مرضی الخصائل محمود الشمائل الرفیع الشان مولانا سید عبدالرحمن القادری البیتوی”جیسی مستند عبارت تحریر فرمائی۔ (ملخص، حیات مخدوم، ص :12)
*درس و تدریس اور فتاوٰی نویسی*: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے ارشاد گرامی پر ہی آپ مسلسل ٢سال تک دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں بخاری شریف و دیگر کتب احادیث کے درس و تدریس میں منہمک رہے، اسی دوران اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے دارالافتاء کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کردی، پھر آپ نے ١٣٢٨ھ/١٩٠٩ء سے لیکر ١٣٤٠ھ/١٩٢١ء (وفات اعلٰی حضرت) تک فتاوٰی نویسی کا کام بحسن و خوبی انجام دیا ۔ (حیات مخدوم، ص:13 )
*تصانیف*: معرفت کی طرف زیادہ رغبت کے سبب آپ نے تصانیف کم چھوڑی، پھر بھی ایک معتبر اور اہم کتاب "افتاے حرمین کا تازہ عطیہ”، جو مصنف بہار شریعت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کے حسب فرمائش پر تحریر فرمائی تھی، ملنے کے ساتھ ساتھ حضور شیخ المسلمين علامہ سید حسنین رضا قادری مدظلہ کے پاس بھی آپ کے قلمی نسخے بکثرت موجود ہیں، جو علم کلام، علم جعفر، علم تکسیر، نیز اوراد و وظائف پر مشتمل ہیں۔ (ملخص، حیات مخدوم،ص:15)
*بیعت و خلافت*: آپ ارادۃ رضوی اور بیعتاََ قادری تھے ۔آپ کے سوانح نگار حضور شیخ المسلمين علامہ سید حسنین رضا قادری مدظلہ نے حیات مخدوم میں لکھا ہے کہ آپ کو اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے خلافت سے نوازا تھا ۔نیز آپ کو فیاض المسلمین سید شاہ محمد بدر الدین قادری علیہ الرحمہ نے بھی بیعت و خلافت سے نوازا تھا ۔ (ملخص ، حیات مخدوم، ص:21)
*علمی مقام اعلیٰ حضرت کی نظر میں* : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کو آپ کے استخراج و استدلال پر اتنا مستحکم یقین تھا کہ آپ کو دارالافتاء کی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی۔ذیل کے واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دارالافتاء میں آپ کی شخصیت کتنی اہم تھی ۔مخدوم عالم پناہ خود ارشاد فرماتے ہیں "ایک دفعہ میں اور مولانا امجد علی و حشمت علی صاحبان رحمۃاللہ علیہم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مجلس میں موجود تھے، دوران گفتگو ایک شخص استفتا لےکر حاضر ہوا ۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے نظر فرما کر میری طرف بڑھاتے ہوے ارشاد فرمایا کہ جواب تحریر کردیں۔ (ملخص، حیات مخدوم، ص:14)
*وصال*: افسوس! ١١ ذوالحجہ کو آپ کی طبیعت کچھ اس طرح علیل ہو گئ کہ پھر سنبھل نہ سکی اور ١٣ ذوالحجہ ١٣٩٤ھ جمعۃ المبارک کا دن گزار کر شب میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ۔آپ کو آپ کے حجرہ مبارک میں غسل دیا گیا۔ آج بھی کیری شریف بانکا بہار ہی میں آپ کا مزار مبارک زیارت گاہ خلائق بنا ہوا ہے۔آپ کا عرس مبارک ہر سال ٢٠، ٢١ جنوری کو کیری شریف میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور ہر عوام و خواص آپ کے فیضان سے خوب مالا مال ہوتے ہیں ۔