حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ کا ایک مختصر تعارف

ازقلم: محمد چاند رضا مصباحی
متعلم: درجۂ سابعہ, جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
سکونت: بہرائچ شریف یو۔پی۔

اللہ رب العزت نے اس خاکدان گیتی پر ایک مقررہ میعاد کے ساتھ لوگوں کی تخلیق فرما کر تمام انسانوں پر اپنا احسان عظیم فرمایا تاکہ سب اس کی عبادت و ریاضت میں مشغول رہیں. مگر ان میں سے بعض نے تو اعراض کر کے اللہ و رسول کی نافرمانی کی جو سزا کے مستحق ہو گئے جب کہ انہیں میں سے اکثر و بیشتر فرمان خداوندی و سنت نبوی کو بجالائے اور شریعت طاہرہ پر تادمِ حیات قائم رہ کر تقرب الٰہی حاصل کی تو وہ محبوب خدا ہو گئے, انہیں میں سے ایک نام حضور جلالۃ العلم ابو الفیض حضور حافظ ملت علامہ الشاہ عبدالعزیز مراد آبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمہ کا بھی ہے۔
آپ کا نام عبد العزیز اور لقب جلالۃ العلم, ابو الفیض اور حافظ ملت ہے جبکہ سلسلہ نسب عبد العزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبد الرحیم ہے۔

آپ کا یہ نام آپ کے دادا ملا عبد الرحیم صاحب نے شیخ عبد العزیز محدث دہلوی کی نسبت سے رکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا بڑا عالمِ دین بنے گا۔ وقت ولادت پاس پڑوس کی بڑی بوڑھیوں نے ”پیرا” کہا، آپ دنیائے اسلام میں استاذ العلماء جلالۃ العلم اور حافظ ملت کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

آپ نے 1312ھ مطابق 1894ء قصبہ بھوجپور ضلع مرادآباد یوپی ہند میں بروز پیر صبح کے وقت پیدا ہوئے۔

والد ماجد حضرت حافظ غلام نور رحمۃ اللہ علیہ سے یہی خواہش تھی کہ آپ ایک عالم دین کے حیثیت سے دین کی خدمت سرانجام دیں. لہذا جب بھی بھوجپور میں بڑے عالم تشریف لاتے تو آپ اپنےصاحبزادے حضور حافظ ملت کو ان کے پاس لے جاتے اور عرض کرتے حضور میرے اس بچے کے لیے دعا فرما دیں۔

حضور حافظ ملت نے ناظرہ اور حفظ قرآن کی تکمیل والد ماجد حافظ غلام نور رحمۃ اللہ علیہ پاس کی اس کے علاوہ اردو کی چار جماعتیں وطن عزیز بھوجپور میں پڑھیں جبکہ فارسی کی ابتدائی کتب بھوج پور اور پِیپَل سانہ (ضلع مراد آباد) سے پڑھ کر گھریلو مسائل کی وجہ سے سلسلہ تعلیم موقوف کر دیا اور پھر قصبہ بھوج پور میں ہی مدرسہ حفظ القرآن میں مدرس اور بڑی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دینے لگے۔

جب آپ کا سلسلہ تعلیم رک گیا تو کبھی کبھار غمگین ہو کر والدہ ماجدہ سے عرض کرتے: آپ تو دادا حضور کا یہ فرمان کہ” تم عالم بنو گے” سنایا کرتی تھیں لیکن میں عالم بن نہ سکا یہ سن کر والدہ ماجدہ کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیتیں, انہیں دعاؤں کی برکت سے آپ ایک اچھے عالم دین بنے اور استاذ محترم حضور صدر الشریعہ کے حکم خاص سے مبارک پور میں اسلام کا پرچم بلند کرنے کے لیے تشریف لائے۔
کچھ عرصہ بعد حالات بدلے اور والد ماجد کی خواہش اور دادا کی پیشین گوئی پوری ہونے کا سامان یوں ہوا کہ حضرت علامہ عبد الحق خیر آبادی کے شاگرد رشید, طبیب حاذق مولانا حکیم محمد شریف حیدرآبادی علیہ الرحمہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں بھوجپور تشریف لانے لگے اور جب بھی آتے تو حضور حضور حافظ ملت کی اقتدا میں نماز ادا کرتے. ایک دن کہنے لگے: آپ قرآن مجید تو بہت عمدہ پڑھتے ہیں اگر علم طب پڑھنا چاہیں تو میں پڑھا دوں گا آپ نے جواب دیا میرا ذریعہ معاش امامت و تدریس ہی ہے اور روزانہ مرادآباد آنا جانا میری استطاعت سے باہر ہے حکیم نے کہا: آپ ٹرین سے مراد آباد چلے جایا کریں اور سبق پڑھ کر واپس آ جایا کریں اخراجات کی ذمہ داری میں اٹھاتا ہوں. والد صاحب نے اس کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : روز کا آنا جانا مناسب نہیں لہذا مراد آباد میں رہ کر ہی تعلیم مکمل کرو . یوں آپ امامت و تدریس کو چھوڑ کر مراد آباد تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ حکیم صاحب سے علم طب پڑھا۔
حکیم صاحب نے آپ کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے کہا میری مصروفیات زیادہ ہیں اور آپ کو پڑھانے کے لئے مجھے مزید مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملتا لہذا اب آپ تعلیم جاری رکھنے کے لیے جامعہ میں داخلہ لے لیجئے چنانچہ حافظ ملت نے 1339ھ کو تقریبا 27 سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لے لیا اور تین سال تک تعلیم حاصل کی مگر اب علم کی پیاس , شدت اختیار کر چکی تھی جسے بجھانے کے لیے کسی علمی سمندر کی تلاش تھی۔

جب 1342 ہجری میں آل انڈیا کانفرنس مراد آباد میں منعقد ہوئی تو اس میں ہندو پاک کے نامور علمائے اہل سنت تشریف لائے جن میں صدر شریعت بدر طریقت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بھی شامل تھے حضور حافظ ملت نے موقع دیکھ کر صدر الشریعہ کی بارگاہ میں درخواست کی تو آپ نے فرمایا: شوال المکرم سے اجمیر شریف آجائیں مدرسہ میں داخلہ دلوا کر تعلیمی سلسلہ شروع کروا دوں گا۔
آپ شوال المکرم1342 ہجری میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اجمیر پہنچے جن میں امام النحو علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمۃ بھی شامل تھے . چنانچہ حضور صدر الشریعہ نے سب کو جامعہ معینیہ میں داخلہ دلوا دیا اور تمام درسی کتابیں دیگر مدرسین پر تقسیم ہو گئیں مگر صدرالشریعہ علیہ الرحمن از راہ شفقت اپنی مصروفیات سے فارغ ہوکر تہذیب اور اصول الشاشی کا درس دیا کرتے. علم منطق کی کتاب "حمد اللہ”تک تعلم حاصل کرنے کے بعد حافظ ملت نے معاشی پریشانی اور ذاتی مصروفیات کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھنے کا ارادہ کیا تو صدرالشریعہ نے فرمایا: آسمان زمین بن سکتا ہے, پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے لیکن آپ کی ایک کتاب بھی رہ جائے ایسا ممکن نہیں . چنانچہ آپ نے ارادہ ملتوی کر لیا اور پوری دل جمعی کے ساتھ صدر الشریعہ کی خدمت میں رہ کر منازل علم طے کرتے رہے بالآخر استاذمحترم کی نگاہ فیض سے سن 1351 ہجری مطابق 1932ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے دورہ حدیث مکمل کیا اور دستار بندی ہوئی اور آسمان علم کے درخشاں ستارے بن کر نکلے.
29 شوال المکرم 1352 ہجری بمطابق 14 جنوری 1934ء کو مبارک پور پہنچے اور مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم میں تدریسی خدمات میں مصروف ہوگئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ کے طرز تدریس اور علم و عمل کے چرچے عام ہو گئے اور تشنگان علم کا ایک سیلاب امنڈ آیا جس کی وجہ سے مدرسے میں جگہ کم پڑنے لگی اور ایک بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی. چناں چہ آپ نے اپنی جدوجہد سے 1353ھ میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم درسگاہ کی تعمیر کا آغاز گولہ بازار میں فرمایا جس کا نام سلطان التارکین حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم رکھا گیا۔
حضور حافظ ملت شوال المکرم 1361ھ میں کچھ مسائل کی بنا پر استعفیٰ دے کر کر جامعہ عربیہ ناگپور چلے گئے چونکہ آپ مالیات کی فراہمی اور تعلیمی امور میں بڑی مہارت رکھتے تھے لہذا آپ کے دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور سے چلے جانے کے بعد یہاں کی تعلیمی اور معاشی حالت انتہائی خستہ ہو گئی تو صدر الشریعہ کے حکم خاص پر1362ھ میں استعفی دے کر دوبارہ مبارک پور تشریف لے آئے اور تا دم حیات دارالعلوم اشرفیہ سے وابستہ رہ کر تدریسی و دینی خدمات کی انجام دہی میں مشغول رہے. حافظ ملت کی کوششوں سےمفتی اعظم ہند شہزادہ اعلی حضرت مفتی محمد مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ کے دست مبارک سے1392 ھ مطابق 1972ء کو مبارک پور میں وسیع قطع ارض پر الجامعۃ الاشرفیہ عربک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
مگر افسوس کہ آسمان کا یہ درخشندہ ستارہ یکم جمادی الاخرہ 1396ھ مطابق 31 مئی 1976ء کو رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر غروب ہوگیا” انا للہ وانا الیہ راجعون” آپ کی آخری آرام گاہ الجامعۃ الاشرفیۃ مبارک پور کے صحن میں "قدیم دارالاقامہ” کے مغربی جانب اور "عزیز المساجد” کے شمال میں واقع ہے اللہ تعالٰی ہمیں حافظ ملت سے حد درجہ محبت کرنے کا جذبہ خیر عطا فرمائے ان کے سینچے ہوئے چمن کو سرسبز و شاداب رکھے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں حافظ ملت علیہ الرحمہ کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کی توفیق بخشے آمین یا رب الکریم بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے