منقبت

یادِ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام

نام آیا جب لبوں پہ خدا کے خلیل کا
فیضان جاری ہوگیا ربِ جلیل کا

معمار ہیں وہ خانۂ پروردگار کے
کعبہ نشاں ہے آپ کی یادِ جمیل کا

اِتنا بلند آپ کا اَیوانِ ذات ہے
دہلیز پر خمیدہ ہے سَر جبرئیل کا

قرآں میں ذکرِ پاک ہوا، جن کا بار بار
کیا ہی شرَف ہے ایسے نَجیب و اَصِیل کا

قربانیوں کی شکل میں باقی ہے یادگار
تازہ ہے باغِ صبر و رضا، اُس نَبیل کا

راہِ وفا میں عشق نے سب کچھ لُٹا دیا
اُس پر اثر ہوا نہ خِرَد کی دلیل کا

مہر و مہ و نجوم ، مرے سامعین ہیں
میں ذکر کررہا ہوں ذبیح وخلیل کا

سُنیے بَغور ” یٰاَبَتِ افْعَل ” کی دھڑکنیں
اِیثار، "اِبن” میں بھی ہے "اَب” کے قَبیل کا

اُس مکتبِ وفا کی ہے شاگرد کائنات
عالَم گدا ہے اُن کے کرم کی فَصیل کا

میں نے کیا جو چشمۂ زمزم کا تذکرہ
پانی اتر گیا ہے فُرات اور نِیل کا

وہ افضلُ الرُّسُل ہیں مرے مصطفیٰ کے بعد
کردار لازوال ہے اُس بـے مَثِیل کا

واجب ہوئ مقامِ بَراہیم پر نماز
َسَرخم ہو بعدِ طَوف ، مُقیم و نَزِیل کا

سرکار کو دعاۓ بَرَاہیم کہتے ہیں
احسان مند ہے یہ جہاں اُس کفیل کا

رب نے جسے پَیمبرِ خَتمُ الرُّسُل کہا
وہ بے مثال گُل ہے اِنہی کے نَخِیل کا

یہ جو "حرم” میں جلوۂ حُسن و جمال ہے
صدقہ ہے اُس حَسِین و وَجِیہ و شکیل کا

دائم جو باغِ مکہ میں رہتی ہے تازگی
یہ رنگ ہے دعا کی اُسی سَلسَبِیل کا

وہ چاہیں، تو ابھی ہوں زمانے کے رنج دُور
قصہ ہے صرف ایک نگاہِ قلیل کا

پڑھ پڑھ کے اُس پہ نامِ بَراہیم دم کرو
یہ نسخۂ شفا ہے مریض و عَلیل کا

اُن کا وسیلہ رد نہیں کرتا خدائے پاک
کیا رتبہ ہے ہمارے نصیر و وکیل کا

کوشش یہ تھی کہ اُن کے کمالات ہوں رقم
آغاز بھی نہ ہوسکا راہِ طویل کا

نیکوں کی شان ایسے ہی کرتے رہو بیاں
یہ سلسلہ فریدی ! ہے اجرِ جَزیل کا
°°°°°°
بِے مثیل .. بے نظیر
نَبیل .. صاحبِ فضیلت
نَزِیل .. مسافر
نَجیب و اَصِیل .. شریف اور اچھے نسب والا
نخیل .. باغ
کفیل .. مددگار ، ضامن
وَجِیہ و شکیل .. خوب صورت
سَلسبيل .. نہر ، میٹھا پانی
قَبیل .. قِسم ، نوع
فصیل .. قلعہ ، ایوان
اِبن و اَب … بیٹا اور باپ
——

ازقلم: سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی
مسقط عمان
+96899633908

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے