ازقلم: سعدیہ بتول اشرفی (سبا)
بنت _ عبد الحمید اشرفی
اللہ پاک کے بیان کردہ احکام کے آگے سر جھکا دینا ہی مقصد قربانی ہے۔
قربانی انبیاء سابقین کی سنت، دینی اور دنیوی کامیابی کی ضمانت ہے ، یہ چاہے جان کی ہو یا مال کی اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ بنتی ہے
یہ جو لفظ ہے قربانی اس کا مادہ ہے "ق ، ر ، ب ” یعنی قریب ہونا
اصطلاح میں یہ لفظ قربان سے بنا ہے "” ہر وہ شئ جسے اللہ پاک کی راہ میں قرب حاصل کرنے کے لئے پیش کیا جائے””
قربانی کا ایک سبب غریبوں کی مدد کرنا بھی ھے _ شریعت میں گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ایک حصہ اپنے لئے ایک رشتہ داروں کے لئےاور ایک حصہ غریبوں کے لئے _
غریبوں کی مدد کرنے کے مقصد کے ساتھ ساتھ اس عمل کا مقصد "صلہ رحمی ” کو مسلم معاشرے میں فروغ دینا بھی ھے
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں کی جاتی ھے آپ کا یہ عمل اللہ پاک کی بارگاہ میں ایسا مقبول ہواکہ قیامت تک صاحب نصاب پر قربانی کرنا فرض قرار دیا گیا اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ جانور کو ذبح کرکے سنت ادا کرنے کے ساتھ مسلمان آپ علیہ اسلام کے اسوۂ حسنہ کو بھی اپنائیں جس طرح رب کے حکم کے آگے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بیوی اور بچے کو ریگستان میں چھوڑدیا ، جان و مال کو قربان کیا ، دہکتی ہوئی آگ میں کود گئے صرف اور صرف اللہ پاک کی رضا کے لئے
مسلمان آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے جان و مال کی قربانی اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرے اور رب کے ہر حکم کے آگے سر جھکا دے
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ھیں مسلماں ہونا
قارئین کرام!
قربانی نماز ، روزہ ، زکوۃ ، حج ہر عبادت میں پائی جاتی ھے
نماز میں نیند و عیش کی قربانی _ زکوۃ میں مال ودولت کی قربانی _ روزے میں کھانے اور پینے سے رک جانا اپنی خواہش کو قربان کردینا حج میں اپنی جان کو مشقت میں ڈالنا اور مال کو قربان کردینا
غرض کہ قربانی پہلی امتوں میں بھی تھی اور اسلام میں بھی بہت ہی اہم رکن اور اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ ہے
جس کے کرنے کا خود اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے ارشاد فرمایا
فصلِّ لربّک ونحر (سورۂ کوثر آیت ٢)
تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو
یہ قربانی کس کے لئے ؟
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)
تم فرماؤ بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا۔
قربانی میں تمہاری کیا چیز بارگاہ الٰہی میں پہنچتی ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)
اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔
زمانۂ جاہلیت میں لوگ قربانی کے خون سے کعبۂ معظمہ کی دیواروں کو آلودہ کرتے اور اسے قرب کا ذریعہ سمجھتے تھے جب مسلمانوں نے حج کے بعد اسی کام کا ارادہ کیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئ اور ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی بارگاہ میں ہرگز ان کی قربانیوں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون _ البتہ تمہاری طرف سے پرہیز گاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے اور قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور تقوی کی شرائط کی رعایت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں قربانی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا ہو کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے
معززقارئین! نیت عمل کو مقبول بنادیتی ہے نیت کا بڑا رول ہے عمل میں
جب جمرات میں کنکری ماری جاتی ہے شیطان کو اس نیت کے ساتھ کہ میں اپنے اندر کے شیطان کو مار رہا ہوں جو مجھے ذکر خدا سے غافل کرتا ہے
اگر وہ کنکری اور تمہاری نیت قبول ہوئ تو پھر تم دیکھوگے کہ زندگی بھر شیطانی وسوسے نہیں آئیں گے کیوں کہ
تم نے ماردیا شیطان کو وہاں پر _
اسی طرح جب قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت نیت ہو کہ اپنے اندر کے تمام خرافات کو ذبح کررہا ہوں اور تمہاری نیت سچی ہو تو پھر تم دیکھو گے وہ بری حرکتیں تمہارے اندر نہیں ہوں گیں یہ قربانی کا مفہوم و مقصد ہے کہ اپنے اندر کی تمام بری خصلتوں کو خرافات کو ذبح کرو
اور اللہ پاک نے فرمایا: كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ __ اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں دے دئیے
فرمایا: تمہارے قابو میں دے دئیے کہ اس سے تمہیں اللہ پاک کی عظمت معلوم ہو کہ اس نے ان جانوروں کو تمہارے قابو میں دے دیا جنہیں لوگوں کے قابو میں دینے پر اس کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں اور اس بات پر تم اللہ پاک کی بڑائ بیاں کرو کہ اس نے تمہیں ان جانوروں کو مسخر کرنے اور ان کے ذریعے تقرب حاصل کرنے کے طریقے کی ہدایت دی اور ائے محبوبﷺ! آپ ان لوگوں کو اعمال قبول ہونے کی خوش خبری اور جنت کی بشارت دے دیں جو نیک کام کرنے میں مخلص ہیں
( صراط الجنان)
فضائل _
حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ سے صحابہ کرام نے عرض کی : یارسول اللہﷺ ! یہ قربانیاں کیا ھیں ؟ آپﷺ نے فرمایا تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہیں
صحابہ کرام نے عرض کی _ یارسول اللہ ﷺ ! ان میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے؟ فرمایا: ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے "” عرض کیا اور اون میں ؟ ” فرمایا: اس کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے
( ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی۔ باب ثواب الاضیحہ ،رقم ٣١٢٧ ج ٣ ص ٥٣١)
سبحان اللّٰہ__
ایام قربانی میں( ١٠,١١٠١٢ ذی الحجہ) میں انسان کا کوئ بھی عمل اللہ پاک کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے روز قربانی کا یہ جانور اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور بلاشبہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں مرتبۂ قبولیّت کو پالیتا ھے تو ائے مومنوں ! خوش دلی سے قربانی کیا کرو
(ترمذی شریف ، ج ٣ ص ١٦٢حدےث ١٤٩٨)
المعجم الکبیر حدیث نمبر ٢٧٣٦ میں یہ فرمان پاک ملتا ہے کہ جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی تو وہ (قربانی)آتش جہنم سے حجاب (روک) ہوجائے گی
معزز قارئین! معجم الکبیر کی ہی حدیث نمبر ١٠٨٩٤ میں بیان ہے کہ جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئ روپیہ پیارا نہیں
سبحان اللہ العظیم_
تاجدارِ ختم نبوت ﷺ نے فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے فرمایا: فاطمہ! ( رضی اللہ عنہا) اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس جاؤ اور اسے لے کر آؤ کیوں کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے پر تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ انعام ہم اہلِ بیت کے لئے خاص ھے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ھے؟ تو تاجدارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلکہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ھے
( المستدرک حدیث نمبر٧٦٠٠)
اللہ پاک اخلاص کے ساتھ قربانی کرنے اور مقصد قربانی کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ثم آمین