تحریر: (مفتی) نور محمد قادری حسنی
قادری دارالافتاء، جامعہ خدیجہ للبنات، پورنپور،پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش
ایام تشریق وہ یاد گار دن ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے شہزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیئے ہیں جب جب عید الاضحٰی منائی جائے گی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا اللہ جب اپنے محبوب بندوں سے خوش ہوتا ہے تو امت کے لیے ایڈیل (پہچان) بنا دیا جاتا ہے-
ہر دن کسی عبادت کے ساتھ خاص ہے اور یومُ النحر ایسی عبادت کے ساتھ خاص ہے جسےحضرت ابراہیم علیہ السَّلامنےادا کیا یعنی قربانی کرنااورتکبیرپڑھنا(یعنی تکبیرات تشریق)اور اگر انسان کےفدیہ میں کوئی چیز جانور کو ذبح کرنے سے زیادہ افضل ہوتی تو حضرت ابراہیم علیہ السَّلام،حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کے فدیہ میں اسے(یعنی جانور کو) ذبح نہ فرماتے-
ایام تشریق اور تکبر تشریق کتنے ہیں:
نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں، وہ یہ ہے:
اللہُ اکبراللہُ اکبر لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ ُوَاللہُ اکبراللہُ اکبر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ[21] (تنویر الابصار وغیرہ) ۔۔۔۔۔۔ ”تنوير الأبصار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۱، ۷۴، وغيرہ
تکبیر تشریق کے کچھ مسائل:
تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کر سکے، اگر مسجد سے باہر ہوگیا یا قصداً وضو توڑ دیا یا کلام کیا اگرچہ سہواً تو تکبیر ساقط ہوگئی اور بلا قصد وضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے. ۔۔”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۳
تکبیر تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے اس کی اقتدا کی اگرچہ عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا اور اگر اس کی اقتدا نہ کریں تو ان پر واجب نہیں. ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۴.
نفل پڑھنے والے نے فرض والے کی اقتدا کی تو امام کی پیروی ميں اس مقتدی پر بھی واجب ہے اگرچہ امام کے ساتھ اس نے فرض نہ پڑھے اور مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو مقیم پر واجب ہے اگرچہ امام پر واجب نہیں. ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۴
نفل و سنت و وتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے اور نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔ ۔”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۳
اور دِنوں میں نماز قضا ہوگئی تھی ایّام تشریق میں اس کی قضا پڑھی تو تکبیر واجب نہیں۔ يوہيں ان دنوں کی نمازیں اور دنوں میں پڑھیں جب بھی واجب نہیں۔ يوہيں سال گذشتہ کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایّام تشریق میں پڑھے جب بھی واجب نہیں، ہاں اگر اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انھيں دنوں میں جماعت سے پڑھے تو واجب ہے. ۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل، ج۳، ص۷۴-
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب
ماہِ ذُوالْحِجَّۃِالْحَرام وہ مُبارَک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےپیارے خلیل حضرتِ سَیِّدُنا اِبْراہیم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےاپنے صاحبزادے حضرتِ سَیِّدُنا اِسْمٰعِیْل ذَبِیْحُ اللہعَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ مِلْ کر صَبْرو رِضا کا ایسامَنْظر پیش فرمایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔حضرتِ سَیِّدُنا اِبْراہیم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ذُوالْحَج کی آٹھویں(8) رات خواب دیکھاجس میں کوئی کہنے والایہ کہہ رہا ہے: ’’بے شکاللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہیں اپنے بیٹے کو ذَبْح کرنے کا حُکم دیتا ہے ۔‘‘نَویں(9) رات پھر وہی خواب دیکھا، دَسویں(10) رات پھر وہی خواب دیکھنے کے بعدآپعَلَیْہِ السَّلَام نےصُبح اس خواب پرعمل کرنے یعنی بیٹے کی قُربانی کا پَکّا اِرادَہ فرمالیا۔(تفسیرِ کبیر، ۹/۳۴۶،از بیٹا ہو تو ایسا،ص۲۔۳، ملتقطاً :
جب حضرتِ سَیِّدُنا اِبْراہیم خَلِیْلُاللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ ُوَالسَّلَام نے یہ سارا ماجرا اپنےکم عُمر بیٹے حضرت اِسْمٰعِیْل عَلَیْہِ السَّلَام کو بھی بتادیا کہ اللہعَزَّ وَجَلَّ کا فرمان ہے کہ میں تمہیں ذَبح کروں،اب تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے۔حضرتِ سَیِّدُنا اِسْمٰعِیْلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خُود بھی اللہعَزَّ وَجَلَّ کے ہر حکم پر سَرِتسلیم خَم کرنے والے تھے،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے جو جواب دیا اسے قرآنِ پاک نے پارہ 23 سُوْرَۃُ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 102میں ان الفاظ سے بیان کیا ہے:
قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲)
تَرجَمۂ: کنز الایمان:کہا اے میرے باپ! کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابرپائیں گے-
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد سے کیا کہا ؟
تَفسیرِ خازِن میں ہے کہ حضرتِ سَیِّدُنااِسْمٰعِیْل عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے والدِمُحْترم سےعرض کی : ابُوجان!ذَبْح کرنے سے پہلے مجھے رَسّیوں سے مَضْبُوط باندھ دیجئے تاکہ میں ہِل نہ سکوں، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے ثواب میں کمی نہ ہوجائے اورمیرے خُون کے چھینٹوں سے اپنے کپڑے بَچا کر رکھئے تاکہ انہیں دیکھ کر میری اَمّی جان غمگین نہ ہوں۔ چُھری خُوب تیز کرلیجئے تاکہ میرے گلے پر اچھی طرح چل جائے (یعنی گلا فوراً کٹ جائے)کیونکہ موت بَہُت سخت ہوتی ہے،آپ مجھے ذَبْح کرنے کے لئے پیشانی کے بَل لِٹایئے(یعنی چہرہ زمین کی طرف ہو) تاکہ آپ کی نظر میرے چہرے پر نہ پڑے اور جب آپ میری اَمّی جان کے پاس جائیں تو انہیں میرا سَلام پہنچا دیجئے اوراگرآپ مُناسِب سمجھیں تو میری قمیص انہیں دے دیجئے،اس سے ان کوتَسلّی ہوگی اورصَبْرآجائےگا۔حضرتِ اِبْراہِیْم عَلَیْہِ السَّلَامنےاِرْشادفرمایا : اے میرے بیٹے !تم اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم پر عمل کرنے میں میرے کیسے عُمدہ مَدَدْگار ثابت ہورہے ہو!پھرجس طرح حضرتِ اِسْمٰعِیْل عَلَیْہِ السَّلَامنےکہا تھا ان کو اُسی طرح باندھ دیا،اپنی چُھری تیز کی ،حضرت اِسْمٰعِیْل عَلَیْہِ السَّلَامکوپیشانی کے بَل لِٹا دیا ،ان کے چِہرے سے نظر ہَٹالی اور ان کے گلے پرچُھری چلا دی ،لیکن چُھری نے اپنا کام نہ کیا یعنی گَلا نہ کاٹا۔(تفسیر خازن،۴/۲۲،ملخصاً) قربانی کے فضائل و مسائل
تکبیر تشریق کی وجہ تسمیہ:
حضرتِ سَیِّدُنااِبْراہِیْم عَلَیْہِ السَّلَام نے جب حضرتِ سَیِّدُنا اِسْمٰعِیْل عَلَیْہِ السَّلَام کو ذَبْح کرنے کے لئے زمین پر لِٹایا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے حضرتِ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام بَطورِ فِدْیہ جَنَّت سے ایک مینڈھا(یعنی دُنْبہ) لئے تشریف لائے اور دُور سےاُونچی آوازمیں فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہ ُاَکْبَر، جب حضرت اِبْراہِیْم عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ آواز سُنی تو اپنا سر آسمان کی طر ف اُٹھایا اور جان گئے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وَقْت گُزر چُکا ہے اور بیٹے کی جگہ فِدیے میں مینڈھا بھیجا گیا ہے، لہٰذا خُوش ہوکر فرمایا:لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر،جب حضرتِ اِسْمٰعِیْل عَلَیْہِ السَّلَامنے یہ سُنا تو فرمایا:اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْد، اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے اِن مُبارَک اَلْفاظ کی اَدائیگی کی یہ سُنَّت قیامت تک کیلئے جاری وساری ہوگئی۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ ج۳ص:۱۳۰)
ہمارے لیے درس عبرت:
اس واقعۂ قربانی میں ہمیں ، سب سے پہلےتویہ معلوم ہواکہ حضرتِ سَیِّدُنا اِبْراہیم اورحضرتِ سَیِّدُنا اِسْمٰعِیْل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃ ُوَالسَّلَام میں اطاعتِ الٰہی کاکیسا جذبہ تھا کہ حضرت سَیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے رِضائے اِلٰہی کی خاطر اپناوہ بچہ جس کو بڑی دُعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا، جوآپ کی آنکھوں کا نُوراوردل کا سُرُور تھا، مگرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کی خاطر اس كی قربانی کیلئے تیار ہوگئے اور بیٹا ہوتو ایسا کہ وہ بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا حکم سُن کر غمگین اور خوفزدہ ہونے کے بجائے فَرحَت ومُسرَّت سے گویا جُھومنے لگا کہ میری خُوش قِسمَتی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری قُربانی کو طَلَب فرمایا ہےاوربَخُوشی اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر قربان ہونے کے لئے تَیار ہوگیا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے برگزیدہ بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے ،جو جس قدر مُقرَّب ومحبوب ہوتا ہے اس پر آزمائش بھی زیادہ آتی ہے، تاکہ یہ نُفُوسِ قُدْسِیہ اس کی رضاپر راضی رہتے ہوئےآنے والی آزمائش پر صبر کرکے بطورِ انعام اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ سے بُلند مَراتِب حاصل کرسکیں۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَہے :جب بندے کااللہ عَزَّ وَجَلَّکے ہاں کوئی مرتبہ مقرر ہو اور وہ اس مرتبے تک کسی عمل سے نہ پہنچ سکے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّاسے جسم، مال يا اولاد کی آزمائش ميں مبتلا فرماتا ہے، پھر اُسے اِن تکاليف پر صبر کی توفيق عطا فرماتاہے يہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں اپنے مقرردرجے تک پہنچ جاتا ہے۔(1)نیز واقعۂ قربانی سے تربیتِ اَولاد اور والدین کی اِطاعت کا بھی درس ملتاہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے نُورِ نظرکی تربیت کی تو آزمائش کے وَقْت حضرت سَیِّدُنا اسمعیل عَلَیْہِ السَّلَام بھی اپنے والد کی اطاعت کرتے ہوئے بخوشی قربانی کیلئے تیار ہوگئے۔ہمیں بھی اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سُلُوک کرتے ہوئے ان کی اطاعت میں زندگی بسر کرنی چاہیے.