ایڈیٹر کے قلم سے سیاست و حالات حاضرہ

لاک ڈاؤن کے اکیس دن: کورونا اور بھوک سے بچیں تو آرام پسند ضرور ہوجائیں گے

ان دنوں پوری دنیا کورونا کی تباہیوں سے پریشاں حال ہے، کئی ممالک میں لاک ڈاؤن بھی جاری ہے، البتہ چین جہاں سے اس وائرس کی پیدائش ہوئی تھی اس نے اب جاکر ضرور اس پر گرفت حاصل کی ہے اور تقریبا ڈھائی ماہ سے زائد عرصے کے بعد ووہان شہر سے لاک ڈاؤن ختم ہوا۔ دیگر ممالک کی طرح اپنے ملک کے پاس بھی لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا اس لیے یہاں بھی لاک ڈاؤن جاری ہے۔ 22 مارچ کو ہوئے عوامی کرفیو کی کچھ حد تک کامیابی کے بعد 24 مارچ سے جاری ملک گیر پیمانے پر یہ لاک ڈاؤن جسے پہلے 21 دنوں یعنی آج تک جاری رکھنے کا اعلان ہوا تھا مگر کم ہونے کا نام نہ لے رہی اس قدرتی وبا کو دیکھتے ہوئے کئی ریاستوں نے پہلے ہی مزید دو ہفتوں یعنی 3پ اپریل تک اس لاک ڈاؤن کو بڑھانے کا اعلان کردیا تھا اور آج صبح دس بجے ملک کے وزیراعظم ملکی پیمانے پر بھی اس لاک ڈاؤن میں 19 دنوں کااضافہ کردیا، اب یہ لاک ڈاؤن 3مئی تک جاری رہے گا۔
اب تک سیاسی لیڈران سے لے کر مذہبی رہنماؤں تک بلاتفریق اس لاک ڈاؤن کی حمایت کرتے آرہے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو اس لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں ہی رہنے کی گزارش بھی کر رہے ہیں، حتی کہ اس دوران ہونے والے بڑے بڑے جلسے اور کانفرنسوں تک کو نامعلوم مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مساجد اور عبادت گاہیں بھی بند ہیں۔ اس سے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کو مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے اور ہونی بھی چاہیئے کہ یہ پوری انسانیت کے وجود کا مسئلہ ہے۔ اگر چہ میڈیا کی کچھ غلطیوں کی وجہ سے کورونا سے جاری یہ جنگ مذہبی رنگ میں نظر آیا مگر کلی طور پہ بلا تفریق سبھی لوگ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے فقط چار گھنٹے پہلے ملک کے وزیر اعظم کے اس اعلان نے شروع میں کافی ہل چل مچائی، لوگ بے چین اور افراتفری کے شکار نظر آئیں، مگر کئی ذرائع سے حکومت نے سب کو ساتھ میں لے کر چلنے کی کافی کوششیں کی۔ اسی چکر میں شاید حکومت سے کچھ غلطیاں اور کچھ ناقابل فہم امور بھی صادر ہوئے۔ حکومت کی بے توجہی سے جہاں بہت سارے لوگ جو اپنے وطن سے کوسوں دور دوسرے شہروں، ریاستوں میں رہ کر کام، کاج کرتے تھے انہوں نے سواریوں کے بند ہونے کی وجہ سے پیدل ہی سفر کرنا شروع کردیا، تو دوسری جانب یومیہ مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت تک پہونچ گئی۔ ملک میں کورونا کی جانچ کے لیے بہترین ہسپتال اور جانچ کٹ کی کمیابی اور کافی مہنگا ہونے کی وجہ سے بہت سارے غریب لوگ کورونا جانچ کرانے سے بھاکنے لگے، حفاظتی اسباب مہیا نہ ہونے کی وجہ سے طبی عملے کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑنا حتی کہ بعض جگہوں سے یہ بھی خبر نکل کر آئی کہ خود ڈاکٹروں نے اپنی ایک دن کی تنخواہ کے عوض حکومت سے حفاظتی اسباب مہیا کرانے کی بات بھی کہہ ڈالی۔ سوشل میڈیا پہ بڑھتے افواہوں کی گرم بازاری نے کئی ایک ایسے لوگوں کو پریشانی میں ڈال دیا جن کی نہ تو کوئی غلطی تھی اور نہ ہی ان میں کورونا کا اثر مگر پھر بھی احتیاط کے پیش نظر میڈیکل اور انتظامیہ نے نہ صرف انھیں قرنطینہ میں ڈال دیا بلکہ ان کے گھروں کو بھی مکمل سیل کردیا جس کی وجہ سے انھیں اور ان کے گھر والوں کو ڈھیر ساری پریشانیاں جھیلنی پڑی۔ میڈیا کی متعصبانہ نظریہ نے ملک کے ایک اقلیتی طبقے کو کورونا پھیلانے کا مجرم قرار دے کر دوسروں کو ان کے تئیں متنفر کردیا۔ حکومت وقت اور انتظامیہ کی جانب سے بارہا تنبیہ کے باوجود ملک کے تاجرین خوردونوش کے سامنوں کو بھی مہنگے داموں میں فروخت کرنے سے باز نہ آئے۔ کروڑہا روپئے راحتی فنڈ میں جمع ہونے کے باوجود سبھی غریبوں تک راحتی سامان نہ پہونچ سکے۔ ملک کے ثروت مندوں نے صدقہ، دان  اور مدد کے نام پر غریبوں کی ناموس کو خوب اچھالا (الاماشاءاللہ) اور فاقہ کشی سے کہیں زیادہ اپنی عزت کے خوف سے کئی ایک خوددار پریواروں نے اپنی جان گنوائی۔ تو کچھ لوگ لاک ڈاؤن اور کرفیو کے نام پر انتظامیہ کی حد سے تجاوز سختیوں کے شکار بنے تو کہیں پہ خود انتظامیہ عملہ بعض ناہنجاروں کی عتابوں کا شکار بن گیا۔ اور ان سب سے پہلے ہی حکومت سے بڑی غفلت اس وقت ہوئی جب دیگر ممالک اپنی سرحدوں کو بند کررہے تھے اسی وقت ہندوستان نے اپنی سرحد بند نہ کی۔ بعد میں یہی وہ بڑی غفلت ثابت ہوئی جس نے بیرون ممالک کے کورونا متاثرین کو ملک میں داخل ہوکر جانے انجانے میں دوسرے لوگو تک کورونا کے اثرات پہونچانے میں نمایا کردار ادا کیا۔
فی الحال اتنی سختیاں اور پابندیاں ہونے کے باوجود کورونا متأثرین کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ناقابل یقین ہے جس کی وجہ سے درجنوں لوگ موت کا جام پی چکے ہیں اور اسی کے پیش ملک میں لاک ڈاؤن بھی بڑھتا جا رہا ہے جو کہ بلاشبہ ضروری ہے مگر لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں ہی غریب

طبقے کے لوگ بھوک کی وجہ سے اور دیگر امراض سے متأثرین بہت سارے افراد علاج ومعالجہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان گنوا چکے ہیں اور جو بچے ہیں وہ بے روزگاری اور بے کاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اور اب لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اگر کورونا اور بھوک سے بچ بھی گئے تو معاشی اعتبار سے بلکل ہی کمزور اور جفاکش کے بجاے آرام پسند ضرور ہوجائیں گے۔

خیر جو بھی ہو جان ہے تو جہان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے