تحریر: ظفر کبیر نگری
چھبرا، دھرم سنگھوا بازار ،سنت کبیر نگر، یوپی
آج چھبیس جنوری(یوم جمہوریہ)ہے، 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے بعد آج ہی کے دن 1950 میں گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ کو ہٹاکر ہندوستان کا جمہوری آئین نافذ کیا گیا تھا، یہ جمہوریت کیا ہے؟ در اصل جمہوریت کا لفظ دویونانی الفاظ Demo یعنی عوام اور Kratos یعنی حکومت سے مل کربنا ہے، جمہوریت کے لغوی معنی”عوام کی حکومت“ کے ہیں، یونانی مفکرہیروڈوٹس کے مطابق جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں، گویا جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں مذہب، نسل، رنگ، زبان اور کسی مخصوص شناخت و خیالات سے پرے تمام انسانوں کو یکساں اور برابر کے حقوق حاصل ہوں، ہر شہری کو اپنے ذاتی معاملات میں فیصلہ سازی اور زندگی گزارنے کا حق ہو، فیصلے کثرت رائے سے اور عوام کے حق میں کئے جاتے ہوں، عوام ہی قانون ساز اداروں کے نمائندوں کا انتخاب کرتی ہو، حکومت پالیسیاں بناتی ہو اور انتظامیہ عملدرآمد کراتی ہو، جمہوریت سیاستدانوں کی شکلوں کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک نظام حکومت ہے، لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دینے کو جمہوریت کہا جاتا ہے، یا دوسری صورت میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی رائے سے کئے گئے فیصلے کو جمہوری فیصلہ کہا جاتا ہے، جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں جمہوریت اور آئین کے تئیں احترام کا جذبہ موجزن ہوتا ہے، کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے، مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور نمائندگان حکومت کا انتخاب صحیح ہو، جب ہم ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہیں اور اس پر غور کرتے ہیں تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، کیا ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد اور اعمال و افعال پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، کیا ہماری معیشت آزاد ہے، ہمارے ہاں قانون آزاد ہے، لوگ آزاد ہیں، اظہار رائے کی آزادی ہے؟ کیونکہ ایک آزاد اور جمہوری ملک ہونے کا عمومی مقصد تو یہی ہوتا ہے، تو کیا ہم واقعی جمہوریت کی فضاؤں میں جی رہے ہیں؟
مذکورہ سوالات کے جوابات کے لئے جب ہم ملک کی گذشتہ چند سالوں کے سیاسی حالات اور حکومت کی پالیسیز پر نظر ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے، چند لوگ تمام چیزوں سے بالاتر ہو کر براہ راست انتظام حکومت چلا رہے ہیں، ملک میں لوگوں کو اپنی بات کے اظہار اور حکومتی پالیسیوں پہ آزادانہ رائے زنی کرنے اور تنقید کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے، ملک میں مضبوط اپوزیشن موجود نہیں، جو ہے بھی وہ متحد نہیں منتشر ہے، آئین اور قانون کی حکمرانی کے بجائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے، اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی نہیں، قانون کی نظر میں سب برابر نہیں بلکہ قانون کا اطلاق مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہوتا ہے، عوام کی جان اور مال محفوظ نہیں، معاشرہ طبقاتی نظام میں بٹا ہوا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کا میڈیا گودی میڈیا بن چکا ہے، جو حکومت پر تنقید کرتا ہے اس پہ طرح طرح کی قدغنیں لگائی جاتی ہیں، جمہوریت کے پردہ میں آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہے، سرمایہ دارانہ نظام غالب ہے، پورے ملک میں معاشی ابتری اپنے عروج پر ہے، لاقانونیت اور ناانصافی کا دور دورہ ہے، نظام انصاف مطعون ہو رہا ہے اور خود انصاف کی دہائی دے رہا ہے، بے روزگاری عام ہے، روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کی ایک جنگ جاری ہے، سیاسی قوتوں کی نااہلی، اداروں میں عدم شفافیت، بدعنوانی کا شکار معاشرہ، احتساب کا فقدان اور لوٹ کھسوٹ سے پریشان ہو چکی عوام سوچنے پر مجبور ہے کہ کہاں ہے جمہوریت اورکہاں ہے عوام کی حکومت۔وہیں دوسری سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے، ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور طاقت کا مرکز بھی پارٹی یا اس کا کوئی ممبر نہیں بلکہ ایک شخصیت ہی ہوتی ہے، جس کی قیادت کو پارٹی کے اندر کوئی چیلنج کر سکتا ہے نہ ہی اس کے فیصلے سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے، یہی جبر اور آمریت کی فضا ان پارٹیوں کو جمہوریت کا وہ مضبوط ستون نہیں بننے دیتی جو ان کا اصل مقام ہے،
موجودہ وقت میں دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے کسانوں کی زندگی بدل دینے، ہر برس دو کروڑ بے روزگار لوگوں کو نوکری دینے، سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ سب کی ترقی کرنے، کالا دھن لانے اور ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے ڈالنے کے سبز باغ دکھا کر اقتدار پر قبضہ تو کر لیا، لیکن کئے گئے وعدوں کو نہ صرف پورا نہیں کیا بلکہ ان کو انتخابی جملے قرار دے کر بہت ہی بے شرمی سے ان کو ٹھندے بستے میں ڈال دیا، اس کے بعد نوٹ بندی کی، جس سے تقریباً پانچ سے ساڑھے پانچ کروڑ لوگ نوکری سے نکال دیے گئے، ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تین لاکھ لوگ نوکری سے باہر ہو گئے، اس کے ساتھ ہی مسلمانوں، دلتوں اور دیگر کمزور طبقات کے خلاف نفرت پھیلانے والی مہم کافی زور و شور سے جاری کردی، جس کی بدولت ان کے کاروبار، رہن سہن، پوشاک، مذہبی مقامات اور رہائش پر پے در پے حملے کیے جا رہے ہیں، ان کی نہ تو پولیس میں رپورٹ درج ہوتی ہے اور اگر کوئی عدالتوں میں انصاف حاصل کرنے کی ہمت بھی کرتا ہے تو عدالتوں سے ان کے مقدمات مسترد کر دیئے جاتے ہیں یا ان کے ہی خلاف فیصلے دیئے جاتے ہیں، یہ سارے حالات و واقعات جمہوریت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں، جیسا کہ مشہور دانشور پرتاپ بھانو مہتا کہتے ہیں، "ایک بات تو واضح ہے کہ ا
نڈ
ین جمہوریت نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ 2019 کے انتخابات میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے، ….سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ جمہوریت بچے گی یا نہیں، گذشتہ چند برسوں میں جو ماحول بنا ہے اس سے گذشتہ دس پندرہ برسوں میں جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ سب داؤ پر لگی ہوئی ہیں، ایسا اس لیے ہے کیونکہ مجھے لگ رہا ہے کہ ہماری جمہوریت کے ساتھ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو جمہوریت کی روح کو ختم کر رہا ہے، ہم غصے سے جلتے دلوں، چھوٹی ذہنیت اور چھوٹی روح والے ملک کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، جمہوریت آزادی اور جشن کا نام ہے جہاں یہ معلوم کرنا اہم ہوتا ہے کہ لوگ کہاں جا رہے ہیں اور نہ ہی یہ کہ وہ ماضی میں کہاں سے آئے ہیں”۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے ایک خط اور پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا جس میں چار جج صاحبان نے کہا ہے کہ”چیف جسٹس عدالتی اصولوں کے خلاف اپنی پسند کے مطابق مختلف بینچوں کو کیسز متعین کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب تک عدالتی ضابطہ کار کی پاسداری نہیں کی جائے گی تو ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی”، آج ہماری سیاسی جماعتیں اور لیڈران بھی ملک میں جمہوریت کے اقدار کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنے کی بجائے وہ خود جمہوریت کے خلاف سازشیں کرتے نظر آتے ہیں، کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے کے بعد قوم کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے، اس لئے ہمیں اپنے لئے خود سوچنا ہوگا،اپنی راہیں خود متعین کرنا ہوگی، ورنہ ویران صحرا میں اسی طرح بھٹکتے رہے تو بہت زیادہ اپنا نقصان کر لیں گے۔