تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گورکھ پور
استاذ: جامعہ رضویہ اہلسنت، گولا بازار ضلع گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیا
ہماری کامیاب زندگی میں یوں تو بہت ساری شخصیتوں کی فرماں روائی تحقق ہوتی ہے، مگر جن دو شخصیت کی کارگزاری پیش پیش ہوتی ہے وہ ہیں: والدین اور اسا تذہ۔ ایک بچہ جب دنیا میں آ کر آنکھ کھولتا ہے تو اسے اولاً ماں، باب ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ انھیں دیکھ کر ان کی عادات واطوار کو اپناتا ہے۔ اور رفتہ رفتہ انھیں کے رنگ ڈھنگ میں ڈھل جا تا ہے؛ جیسے والدین ویسا بچہ۔ اس لیے ماں کی گود اور باپ کے آغوش کو دنیا کی پہلی درس گاہ کہا جا تا ہے۔ لیکن اکثر والدین بجا اور بےجا لاڈ و پیار میں ان کی صحیح تربیت نہیں کر پاتے، نتیجةً بچہ شریر ہو جاتا ہے یا یوں کہیں کہ اچھی باتوں کی طرف راغب نہیں ہو پاتا ہے۔ تو اب جو شخصیت اس کے ظاہر و باطن کو سنوارتی ہے اسے ہی "استاذ” کہتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر نرم اور لچک دارلکڑی جسے کسی بھی طرف جھکا دو، جھک جائے اس کو موڑنا ( تربیت کرنا) آسان ہوتا ہے جو والدین کرتے ہیں لیکن ذرا سخت ہونے پر اسے کسی طرف موڑنا مشکل ہو جاتا ہے کہ بسا اوقات ٹوٹنے کا ڈر رہتا ہے یہ کام اساتذہ کرتے ہیں ۔اس لیے میرا نظریہ ہے کہ اساتذہ کرام کے حقوق والدین سے بھی مقدم ہیں جس کا اشارہ حضور اعلی حضرت سرکار نے اپنے کلام (سلام) میں بھی کیا ہے فرماتے ہیں:
میرے استاذ ماں باپ بھائی بہن۔۔۔
جس میں آپ نے استاذ کو دوسرے تمام رشتوں پر مقدم رکھا ہے۔
لیکن آج ہمارا آزاد خیال معاشرہ کسی رشتے کو نبھانے کے لیے تیار کہاں ہے؟ اس آزاد خیالی نے جہاں والدین کے حقوق پامال کیے وہیں اساتذہ کے حقوق کو بالکل نیست و نابود ہی کر ڈالا ۔ مغربی تہذیب و تمدن سے متاثرہ اداروں کے علاوہ اب یہ و بادینی مدارس میں بھی پھیلنے لگی ہے، لیکن مجموعی طور پہ آج بھی مدارس دینیہ کے اساتذہ کرام عوام وخواص اور طلبا میں بھی معزز ومکرم گردانے جاتے ہیں ۔ ہاں بعض نااہل شاگرد ہوتے ہیں جو اپنے ان محسنین کو فراموش کر جاتے ہیں ( وہ کامیاب بھی کہاں ہوتے ہیں؟ )، ساتھ ہی دور حاضر میں فراغت پانے والے طلبا میں ایک بری عادت ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ دیں۔ بارہ سال اساتذہ کرام کی شفقتوں محبتوں اور ان کی رہنمائی ملے گزار دیتے ہیں اور فراغت کے بعد جیسے ہی عملی میدان میں آتے ہیں جانے کیوں اپنے ان اساتذہ سے بدظن ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثر کا ترک یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ نے انھیں صرف دین پڑھایا دنیا نہیں؟ آج وہ بے روز گار ہیں یا کم مشاہرہ میں زندگی گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں؟
ان کے ان باتوں پر نا چاہتے ہوئے بھی ہنسی آ جاتی ہے، اولاً یہ کہ دنیا حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کر کے وہ خود کو نبی کریمﷺ کی وعیدوں میں شامل کر لیتے ہیں، ثانیا جو لوگ کم مشاہرہ کی بات کر کے مدارس و مکاتیب اور مسجدوں میں فرائض انجام دینے سے انکار کر جاتے ہیں ان کے لیے تو بس یہی کافی ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
کم مشاہرہ پہ باروزگار ہونا بے روز گار رہنے سے تو بہتر ہی ہے ۔ پھر کم مشاہرہ پہ خدمت دین متین کرنا نہ تو باعث عار ہے اور نہ بھوک مری کا سبب۔ مشاہدہ رہا ہے کہ آج تک کسی خادم دین خدا و رسول نے بھوک مری سے اپنی جان نہیں گنوائی. اس موقع پر استاذ گرامی حضرت مولانا صاحب علی صاحب قبلہ یارعلوی ہمیشہ فرماتے ہیں "دوسرے لوگوں کو رزق ان کے کسب پر ملتا ہے یعنی جتنا وہ کسب کرتے ہیں اتنا انھیں رزق ملتا ہے لیکن دین کی خدمت کرنے والے علماے کرام کا رزق اللہ رب العزت نے اپنے ذمہ کرم پہ لے لیا ہے وہ انھیں کہیں سے بھی رزق عطا فرماۓ گا”۔ آخری بات کہ اساتذہ کرام کا کام ہوتا ہے راستہ دکھانا، راستے کا انتخاب کرنا اور اس پہ چلنا خود اپنی ذمہ داری ہوتی ہے جس طرح ایک پنکھے کا کام ہوتا ہے ہوا دنا لیکن وہ ہوا اسی وقت دے گا جب آپ اسے حرکت دیں گے۔ یہی مثال استاذ اور شاگرد کی ہے۔
ہمیں اساتذہ کی عظمت و رفعت سمجھنی چاہیے اور ان کی عزت وتکریم کرنی چاہیے کہ آج جو ہمیں بولنے، پڑھنے ، لکھے حتیٰ کہ غور و فکر کرنے کا جو مادہ میسر آیا ہے وہ انھیں اساتذہ کی مرہون منت ہے ۔
تاج رکھا ہے زمانے نے سروں پہ ان کے
تھے جو استاد کے جوتوں کو اٹھانے والے
میی یہ تحریر انھیں اساتذہ کرام کی نذر ہے جنھوں نے اپنے شب و روز ناچیز اور ناچیز جیسے ہزواروں بےکاروں کو کچھ کر گزرنے لائق بنا دیا۔…
یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ان سبھی اساتذہ کرام کی شفقتوں کو تادیر قائم و دائم رکھے۔
آمین بجاه النبي الامين صلى الله تعالى عليه واله وصحبه اجمعين