علما و مشائخ

محبوب العلماء حضرت محبوب مینا شاہ کی ہمہ جہت شخصیت کے چند گوشے

آج ۲۹؍محرم الحرام ۱۴۴۲ھ مطا بق ۱۸؍ستمبر ۲۰۲۰ء کو تقریباً تین بجے دن میں شوسل میڈیا کے ذریعہ اہل سنت وجما عت کے عظیم المرتبت، صاحب شوکت و سطوت ،محبوب العلما والمشائخ پیر طر یقت حضرت محبوب میناشاہ کی ر حلت کی خبر ملی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس جان کاہ خبر نے جما عت اہل سنت کے ہر ہر فرد کو محزو ن و مغموم کر دیا خصوصاً آپ کے مر ید ین و معتقد ین کے لئے شد ید تکلیف کی با ت ہے چو نکہ حضرت محبو ب العلما اپنے مر یدین و معتقدین کی اصلا ح و پر داخت رسماً کسی اورشیخ کی طر ح نہیں بلکہ ایک والد ومر بی کی حیثیت سے فر ما یا کر تے تھے ،آپ نے خالصاً لو جہ اللہ دین و سنت کے لئے کا م انجا م دیا ، تا عمر مذ ہب اسلام ، مسلک اہل سنت وجما عت کے فروغ و ارتقا کے لئے ہمہ جہت طر یقو ں سے دینی و دنیا وی ضرورتو ں کے لحاظ سے تعلیمی ، تنظیمی وتعمیری آفا قی کام سر انجام دیا ،عزم و یقین کے اس مر د مجا ہد نے اسلام کے ہر شعبہ کو اپنی خد ما ت سے زینت بخشی ،اسلام کے استحکام و بقا کے لئے جہا ں وسیع وعر یض زمین پر ’مد رسہ امیر العلوم مینائیہ ‘ کا قیا م کر کے اسلام کے بے شمار محافظین یعنی علما ومشا ئخ کی ایک بڑی ٹیم تیا ر کی وہیں آپ نے قوم و ملت وملکی تعمیر وتر قی کے لئے عصر ی علوم میں ایک عظیم عر بک یو نیورسٹی ’جا معہ مینا ئیہ‘ کا قیام ہے ، اعلیٰ عصری تعلیم کے لئے ڈگری کالج ’مینا شاہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لو جی اینڈ مینیجمینٹ ڈگری کا لج [ MSITM [ کا قیام خطیر رقم سے کیا جو آج ایک بلند قلعہ کے حیثیت سے کھڑا ہے جہا ں سے لاکھوں طلبہ عصری علوم میں فراغت حاصل کر کے دنیا کے مختلف خطو ں میں اعلیٰ مینیجمینٹ کے عہد ہ پر دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ معیشت کے حصول میں سر گر م ہیں اور یہ با ت ظاہرہے کہ کسی قوم کی تعمیر و تر قی کے لئے تعلیمی معیار بڑ ی اہمیت رکھتی ہے اور قرآن مقد س نے بھی ہمیں ان تما م علوم کی تعلیمات کا حکم دیا ہے جن سے اسلام اور مسلمانو ں کا غلبہ و تسلط ممکن ہو۔

ان ادارو ں کے قیام کا پس منظر حضرت محبوب العلما کے مر ید ڈاکٹر محمد قمر الزماں عرف کمل مینا ئی بیا ن کر تے ہیں کہ داعی اسلام شیخ طر یقت تا ج الاصفیا محبوب العلماحضرت محبوب شاہ مینا قدس سرہ کے پیر طریقت حضرت محمد امیر عرف اکرام مینا شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو سر زمین گونڈہ کا مخصوص علاقہ جو کر بلا کے نام سے جا نا جا تا ہے جہا ں کبھی عام انسان دن کی روشنی میں بھی جا نے سے خو ف کر تا تھا۔لیکن ایک مر تبہ حضرت کے پیر ومر شد نے جذب و کیف کے عالم اپنے اس مر ید خا ص کو طلب کیا اور فر ما یا کہ تم میری داہنے ہا تھ کی دو انگلیوں کے درمیان دیکھو یہ کہہ کر حضرت اکرام مینا شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ہا تھ کو بلند کر دیا اور حضرت محبوب مینا شاہ ان دونو ں انگلیو ں کے درمیان بغور دیکھنا شر وع کیا تو کر بلا اور اس کے ارد گرد کے تمام نقوش آئینے کی طرح نظر آنے لگے پھر کیا تھا آپ نے انہیں اشارو ں کے مطابق تعلیمی ، تعمیری اوردینی کا م انجا م دینا شروع کر دیا اور آج وہ علاقہ جو کبھی بنجر بیابان تھا ہنستا ، مسکراتا ، چمکتا ، دمکتا ،چہکتا ،روشن ومنور شہر میں تبدیل ہو چکاہے اور گونڈہ شہر کے تمام علاقو ں میں سب سے مہنگا اور پسند یدہ علاقہ بن چکا ہے ۔

اہل للہ کی یہی تو شان ہو تی ہے کہ جہا ں گئے وہا ں ایک دنیا آباد کر دیئے ، لو گ جو ق در جوق آپ سے سلسلہ مینا ئیہ میں بیعت ہو تے گئے اور آج لا کھو ں کی تعداد میں آپ کے روحانی اولاد موجود ہیں جو آپ کے دینی مشن میں مصروف بہ عمل ہیں ،آپ نے تن تنہا وہ آفاقی کام انجام دیا جو ایک جماعت کے لاکھوں افراد مل کر بھی نہیں کرپاتے ہیں اس کی وجہ آپ کی خلوصیت وللہیت ہے ،آپ شریعت وطریقت کے حسین سنگم ،دینی وعصری علوم سے بھرپور شخصیت ،اپنے اسلاف کے قول وعمل کے مظہر اورسرزمین ہندکے قابل فخر مشائخ تھے ،آپ کی حیات مبارکہ کا ہر پہلو روشن وتابناک تھا ،قول وعمل میں یکسانیت تھی ،اسلام کی نشرواشاعت میں آپ نے اپنی پوری زندگی صَرف فرمادی ،آپ کی ذات بابرکات نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فرزندان اسلام کو زیور علم سے مرصع ومزین فرمایا ۔

افسوس! آج وہ شخصیت بظاہرہمارے درمیان سے رخصت ہوگئی لیکن آپ کا روحانی فیضان ہمیشہ ہمیشہ جاری وساری رہے گا ،اسلامی افکار ونظریات کی تبلیغ وتوسیع کے لئے آپ نے بیعت وارشاد کا فریضہ انجام دیا اور کبھی پیری مریدی کو پیشے کے طور پر نہیں اپنایا ،آپ نے جتنے دورے جتنے اسفار جتنے پروگرام کئے محض رضائے الٰہی وفلاح قوم وملت کے لئے کئے ہیں ،آپ قوم کے سچے معمار تھے ،قومی ،ملی،فلاحی،تعمیری ،تنظیمی اور ترقیاتی کاموں کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے بخوبی انجام دیا ۔آپ نے قوم وملت کے لئے ایسے افراد تیار کئے جو سرکاری وغیر سرکاری ،مذہبی وغیر مذہبی تمام شعبوں میں کام کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں،ایک طرف آپ نے اہل صوفیا کی تعلیمات کے فروغ کے لئے خانقاہی نظام کا اجرا کیا تو دوسری طرف اسلام کی نشرواشاعت کے لئے دینی درسگاہ کا قیام عمل میں لایا جہاں سے قوم کے پسماندہ بچے علم وہنر سے لیث ہوکر آج خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں ،یہ طلبہ منبر ومحراب کے علاوہ سماجی وسیاسی اسٹیجوں سے حق وصداقت کی آواز بلند کرنے کی عظیم طاقترکھتے ہیں،آپ نے ملت کے نونہالوں کو علوم میں وبلندیاں عطا فرمائیں کہ مینائی سلسلے کے علما ہر زبان میں مذہبی ،ادبی،سماجی،سائنسی وٹیکنا لوجی کتابوں سے استفادہ کرنے ،لکھنے کی بھرپور صلاحیتوں سے مزین ہیں ۔

ایک مرتبہ میری ملاقات محب مکرم ڈاکٹر محمد قمر الزماں عرف کمل مینائی میراروڈ ممبئی کے دردولت پر ہوئی ،دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گیا منفرد لب ولہجہ ،نورانی چہرہ ،خوبصورت آنکھیں ،لمبا قد،رنگ سرخ بہ مائل ،انگلیاں بڑیں اور کھلی ہوئیں جو سخاوت کی علامت ہوتی ہے ،فقیرانہ لباس زیب تن کئے ہوئے ،ٹوپی ،کرتا،تہبند،یہاں تک کہ ہاتھ میں آپ نے جو رومال لے رکھا تھا ان تمام کے رنگ ہرے تھے بلکہ آپ جس گاڑی پر سوار ہوتے ہیں اس کا رنگ بھی ہرا ہوتا تھا ،غالباً آپ کا یہ عمل گنبد خضریٰ سے نسبت کی وجہ سے تھا خیر !جو بھی ہو یہ تو حق ہے کہ آپ زمین پر چلتے پھرتے ولی اللہ تھے ،جس کی ایک خاص علامت یہ تھی کہ آپ نمازوں کے سخت پابند تھے ،مریدوں کو سختی سے نمازپڑھنے کی تبلیغ وتلقین کیا کرتے تھے ،ان درمیان جب میری ملاقات حضرت سے ہوئی تواس وقت شہر میرا روڈ کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے ،مقامی علمائے سوء کی طرف سے بے وجہ ستائے جانے ،شہر میں شکوہ وشکایت کرنے ،مسلکی ومشربی تعصب اور الزامات واتہامات سے میں بڑا پریشان تھا ،ہمیشہ ذہنی خلجان میں مبتلا رہتا کہ آخر ہمارے ان علما کو ہوکیا گیا ہے کہ اپنی ہی مسلک وجماعت کے لوگوں کی شکوہ شکایت میںزبان دراز کئے ہوئے ہیں ،دبے زبان میں حضرت محبوب العلما محبوب میناشاہ سے شکایت کی کہ حضرت !مقامی علمائے سوء میرے تعلق سے غیر مہذب وغیر اخلاقی پروپیگنڈہ عوام اہل سنت میں کرتے رہتے ہیں جس سے میں ذہنی وفکری طور پر خلجان کا شکار ہواجاتا ہوں؟ حضرت نے تبسم ریز لہجہ میں فرمایا کہ اگر علمائے سوء آپ کی ذات میں نقص نکالتے ہیں تو پھر آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ وہ اپنا نقصان اور آپ کا فائدہ کرنے میں لگے ہیں ،ہر قیمتی شئے تکالیف سے گزر کر ہی مؤثر ہوتی ہے ،میں دیکھ رہاہوں کہ آپ دینی ودنیاوی ترقیوں کے مناصب طئے کریں گے اور حاسدین خسارے اور نقصان میں رہیں گے چونکہ اُن کا مطمح نظر کام کرنے والوں کی محض ٹانگیں کھینچنا ہوتا ہے اس کے علاوہ وہ کچھ کربھی نہیں سکتے ۔

حضرت کی ان حوصلہ افزا کن باتوں نے میرے ہمت وجذبہ کو بلندیاں عطا فرمادیں۔اسی لئے کہتے ہیں کہ بڑے بڑے ہی ہوتے ہیں ۔میرا مشاہدہ ہے کہ حضرت سے تنہا ئی میں ملاقات لیں یا مجلس میں شرف ملاقات کریں ،آپ ہمیشہ خاموشی کا مظاہرہ فرماتے ہیں اور سائلین آپ سے اگر دعا کی درخواست کرتے ہیں تو آپ نہایت نرم وشگفتہ لب ولہجہ میں کبھی مسکراتے ہوئے تو کبھی جلالی کیفیت میں دعا فرمادیا کرتے تھے ۔مریدین ومعتقدین آپ کے چہرے کی ساخت سے آپ کا مزاج بھانپ لیا کرتے تھے ،اصلاح پسند باتوں پر آپ مسکراتے اور ناگوار باتوں پرخاموش اپنی توجہ دوسری طرف فرمالیا کرتے تھے ،غضب کی شخصیت تھی کچھ نہ بول کر بھی بہت کچھ سمجھا دیا کرتے تھے ۔دینی اسٹیج پر بھی حضرت سے مجھ فقیر کو شرف ملاقات ہے ۔کرلا ممبئی کے ایک جلسہ میں جس کے مقرر خصوصی حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی مدظلہ العالی تھے میں نے دیکھا کہ جب تک علما خطاب فرماتے رہے آخر تک آپ اپنی نگاہیںنیچے کئے ہوئے بصد آداب منبر رسول پر جلوہ افروز تھے اور سامعین آپ کی زیارت سے شاد کام ہورہے تھے ،جب علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی مدظلہ العالی نے اختتام جلسہ پر آپ سے دعاکی التماس کی تو آپ نے دعا فرمائی اورفوراً قیام گاہ کی طرف چل پڑے ۔

افسوس!آج وہ روحانی شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہے ۔مولیٰ تعالیٰ جملہ علمائے ملت اسلامیہ ،مریدین ومعتقدین کو حضرت ممدوح کے روحانی فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے ۔

آمین ۔بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

ازقلم: محمد علاء الدین قادری رضوی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا ء والقضا ء ، میرا روڈ ممبئی

ترسیل فکر :صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی عفی عنہ
مقام وپوسٹ:پپرا دادن ،ضلع سیتامڑھی بہار
رکن اعلیٰ :افکار اہل سنت اکیڈمی میرا روڈ ممبئی
بتاریخ :۲۹؍محرم الحرام ۱۴۴۲ھ؍مطابق ۱۸؍ستمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے