تحریر: خلیل احمد فیضانی، جودھ پور راجستھان
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں کچھ ملکوتی صفات نفوس ایسے بھی گزرے ہیں کہ ایک زمانہ ان پر فریفتہ رہا اور وہ مرجع عالم رہے اتنے بلندمراتب پر فائز ہوے کہ زمانہ کے اکابر اور خود ان کے شیوخ نے ان کی ناز برداریاں اٹھأیں انہیں ذوات قدسیہ میں ایک ذات ماضی قریب میں ہم کو ایسی بھی ملتی ہے کہ جس نے ایک عالم کو اپنے علم و عمل کی نورانیت سے منور کیا اور ہزاروں تشنگان علوم نبویہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی علمی تشنگی کو رفع فرمایا اصاغر ان کے خوشہ چیں رہے اکابر ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے میری مراد حضور حافظ ملت علامہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ ہے جو ہر دل عزیز تھے اور علمی دنیا میں تو اس قدر عزیز تھے کہ آپ کی موجودگی سواد اعظم کی سعادت مندی اور آپ کی رحلت اس کا عظیم اور تلافی نہ ہونے والا نقصان قرار دیا گیا آپ کی رحلت پر اکابر اہل سنت نے شدید غم کا اظہار فرمایا اور آپ کی ہمہ جہت شخصیت پر اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار بھی فرمایا جن میں سے بعض اکابرین کے تاثرات مع مختصر توضیح و تشریح کے پیش خدمت ہے
۱. سرکار کلاں حضرت مولانا سید مختار اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ
مولانا حافظ ملت مخلص ایثار پسند ہم درد تھے ان کی خوبیاں تحریروں سے باہر ہیں ,حافظ ملت نمبر ص ۴۸۷
زمانے کا ولی کامل اگر کسی کے بارے یوں گویا ہو کہ وہ اتناعظیم المرتبت ہے کہ اس کی خوبیاں ضبط تحریر میں نہیں لأی جاسکتی تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس زمانہ میں اس ہستی کا مقام و مرتبہ کیا رہا ہوگا
۲. صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا امجد علی اعظمی عليه الرحمہ
زندگی میں دو ہی باذوق پڑھنے والے ملے ایک مولوی سردار احمد یعنی محدث اعظم پاکستان اور دوسرے حافظ عبد العزیز یعنی حافظ ملت حضرت مولانا شاہ عبد العزیز ,فیضان حافظ ملت ص ۲۸ مکتبہ المدینہ دہلی
امجد علی کؤی چھوٹا نام نہیں یہ وہ ہستی ہے کہ جن کی علمی قابلیت پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو بھی بھروسہ تھا اتنی معتمد و مستند ہستی اگر اپنے کسی شاگرد کے بارے میں تعریفی کلمات کہے تو ہر علم دوست اس شاگرد کی علمی قابلیت کا اندازہ لگا سکتا ہے
۳.برہان ملت حضرت علامہ برہان الحق قادری قدس سرہ
حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی رحلت عالم علم عالم سنیت اور عالم درس و حدیث و حکمت کی موت ہے موت العالم موت العالم ایسے مرجع عالم مقبول عالم منبع علم و کمال افضل العلما استاذ العلماکی موت موت نہیں حیات ابدی اور دار فنا سے دار بقا کی طرف ارتحال ہے حافظ ملت کی ذات دنیاے درس و تدریس و علم و حکمت کے لیے نعمت عظمی تھی ,ماہنامہ اشرفیہ اپریل ۱۹۷۷مبارک پور
حضرت علامہ مولانا برہان ملت کےکلمات فصیحہ سے آسمان بے سحاب کی طرح صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی قدر و منزلت وافر مقدار میں تھی اور سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اس فرمان سے حافظ ملت کا علمی مقام کس طرح عیاں ہو جاتا ہے
۴.محدث اعظم ہند حضرت علامہ سید محمد کچھو چھوی علیہ الرحمۃ
آج ۱۰شعبان ۱۳۶۹ھ مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کے درجہ اعلی کے ان طلبہ کا امتحان لیا گیا جو تفسیر و حدیث کی آخری تعلیم حاصل کر چکے تھے صحیح عبارت خوانی اور صحیح ترجمہ اور صحیح مطلب بتانے میں طلبہ نے بے حد خوش کیا اور ان مقامات کا سوال کیا گیا جس کو پہلے سے متعین نہیں کیا گیا تھا کتاب سے باہر کی باتیں امتحان ذکاوت کے لیے پوچھیں گئیں اور یہ نہ گھبراے اور سوال کا جواب مدرسانہ انداز میں دیتے رہے اور اس تجربہ کی بنیاد پر جو ملک کے مدارس عربیہ کا رکھتا ہوں اور جا بجا امتحان کی خدمت مجھ سے لیے جاتی ہے میں بغیر کسی مبالغہ کے کہتا ہوں کہ اس مدرسہ کے کمزور طالب علم کا درجہ دوسرے مدارس کے قابل فخر طلبہ سے بڑھا ہوا پایا یہ مدرسین کرام حافظ ملت و دیگر اساتذہ اشرفیہ کی انتھک کو ششوں اور معاونین کی پاک نیتوں کا ثمرہ ہے ,اشرفیہ کا ماضی اور حال ص :۷۴
یقینا آج جو ہندو ستان بھر میں مصباحی برادران اور ان کے شاگردوں کے ذریعے دین کا ایک بہت بڑا کام ہو رہا ہے یہ سب حافظ ملت علیہ الرحمۃ کا روحانی فیض ہے آپ نے علم کا ایک ایسا چھتہ لگا یا کہ آج اس کی شہد کی مٹھاس سے ساری کڑواٹیں دور ہورہیں ہیں آپ نے علم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ایسی بلا کی فرماءی کہ آج ایک عالم آپ کے مربی ہونے کا ممنون ہے
۵.علامہ فضل حق علیہ الرحمۃ
حضرت نے اجمیر شریف میں حافظ ملت کا امتحان لیا پہلی ہی کتاب میں بہت سے داخلی اور خارجی سوالات کیے اور جوابات سے مطمئن ہوکر کتاب بند کرکے ارشاد فرمایا ,,اب ہم ان کی کسی کتاب کا امتحان نہیں لیں گے ان کی قابلیت درجہ کمال کو پہنچی ہؤی ہے ,حافظ ملت نمبر ,ص:۲۳۳
علامہ فضل حق علیہ الرحمہ کا علمی مقام نہایت ہی بلند و بالا ہے اور حافظ ملت علیہ الرحمۃ ابھی راہ علم کے راہی ہے لیکن اس کے باوجود اعتماد کا عالم یہ کہ کتاب بند کردی امتحان موقوف کردیا اور گویا ہوے کہ امتحا ن ان کا لیا جاتا ہے جن کو تراشنا ابھی باقی ہو یہ تو خود ہیرہ بنے ہوے ہیں لہذا ان کے امتحان کی کوءی حاجت نہیں
۶.مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ
اس دنیا سے جو لوگ چلے جاتے ہیں ان کی جگہ خالی رہتی ہے خصوصا مولوی عبد العزیز علیہ الرحمۃ ,حافظ ملت ,جیسے جلیل القدر عالم مرد مومن مجاہد ,عظیم المرتبت شخصیت اور ولی کی جگہ پر ہونا تو بہت مشکل ہے یہ خلا پر نہیں ہوسکتا ,حافظ ملت افکار اور کارنامے ,ص:۳۵
ایک اور مقام پر اپنے گراں قدر تاثرات کا یوں اظہار فرماتے ہیں یہ ساری برکات ,جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی, میرے گمان میں اسی (حافظ ملت) وجود مسعود کی ہیں یہ ساری بہار اسی کے سے ہے یہ روشنی اسی کے جلوے ہے اسی کی خلوص اسی کے اخلاق اسی کے انتخاب نے اچھے قابل مدرسین و طلبہ کو جمع کردیا مولی تعالی اسے اور مدرسہ کو نظر بد سے بچاے رکھے آمین,,اشرفیہ کا ماضی اور حال ص:۷۰
ایک جگہ فرماتے ہیں دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کو ایک عظیم یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی نیک کوشش کا میں خیر مقدم کرتا ہوں اور حافظ ملت حضرت مولانا عبد العزیز صاحب کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ مولا تعالی انہیں اپنے عظیم مقاصد میں کامیابی عطا فرماے اور حضرات اہل سنت کو توفیق بخشے کہ وہ اشرفیہ یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ لے کر دین کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت پوری فرماءیں اور عند اللہ ماجورے ہوں , حافظ ملت افکار اور کارنامے ,ص:۳۵
علما فرماتے ہین کہ شہزادہ مجدد اعظم تاجدار اہل سنت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا ایک جملہ ہزار تقریروں پر بھاری ہوتا ہے اتنی فصیح و بلیغ شخصیت اگر کسی کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہے تو موصوف کی صفات حسنہ کا کوءی کیا اندازہ لگا سکتا ہے
۷ اجمل العلما حضرت علامہ مولانا شاہ اجمل مراد آبادی علیہ الرحمۃ
صدر المدرسین بدر المعلمین فاضل جلیل عالم نبیل جامع معقول ومنقول حاوی فروع و اصول حضرت مولانا مولوی حافظ عبد العزیز صاحب دام فیو ضہ قابل صد تحسین ہیں یہ ساری بہار (جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی ) انہیں کے دم کا صدقہ ہے اور اس چمن مصطفوی کی بہار انہیں کی ذات پر موقوف ہے (اشرفیہ کا ماضی اور حال ,ص:۷۴)
حضور اجمل العلما کا حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ کو ان مہتم بالشان القاب و آداب سے فرمانا دلالت کرتا ہے کہ آپ علیہ الرحمۃ نے کی خدمات کا دائرہ صرف تعمیری و اقتصادی میدانوں میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ علوم عقلیہ و نقلیہ یعنی تفسیر حدیث , فقہ ,تصوف ,منطق و فلسفہ میں بھی اپنی گراں قدر خدمات کے ایسے تابندہ نقوش چھوڑے کہ جن کی بدولت آج ایک عالم روشن و منور ہے
۸ پاسبان ملت حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمۃ
حافظ ملت میری نگاہ میں عارف باللہ اور اللہ کے ولی ہیں علم ظاہر وباطن کے ایسے سنگم جہاں پر ہر پیاسے کو پانی ملے وہ استاذ العلما کی ذات گرامی ہے
ایک ایسا عابد شب زندہ دار کہ زہد و تقوی و پارسائی جس کے دامن کے حسین جھالر ہیں زمین پر آنکھیں بچھاتے اس طرح گزر جأیں کہ فرش توعرش کی کائنات نہیں دیکھے لیکن ان کی خدا شناس نگاہوں کو کویٔی کچھ نہ سکے لباس میں ایسی سادگی جس سے عالمانہ وقار پھوٹ پھوٹ کر برستا ہو گفتار میں ایسی نرمی اور مٹھاس گویا ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے ہیں ایسے کریم و شفیق کہ بچے انہیں پاکر ماں کی گود بھول جائیں اپنے بزرگوں کے ایسے ادب شناس کہ امام احمد رضا و صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی علیہما الرحمہ والرضوان کا نام سنتے ہی اپنی گردنیں جھکالیں
تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند و دیگر اکابر اہل سنت کے تذکرہ پر اپنی والہانہ مسرت کا اظہار یہ حافظ ملت کی خصوصی اداے محبت ہے (معارف حدیث ,ص:۱۱۸. از حافظ ملت )
علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمۃ نے سمندر کو کوزے میں بند کرتے ہوے نہایت ہی جامع اور فصیح و بلیغ انداز میں حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو اجاگر فرمایا اور اچھوتے اور نرالے پیرایہ میں آپ علیہ الرحمہ کی مختصر سیرت کو بھی واشگاف کیا آپ کے یہ جملے حافظ ملت کی عہد ساز عبقری شخصیت کو متعارف کروانے کے لیے کافی حد تک مفید ہے
۹. محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد گورداس پوری علیہ الرحمۃ
(جامعہ اشرفیہ کی تعمیر و ترقی) محب محترم عالی
درجت حامی سنت ماحی بدعت مولانا مولوی صوفی حافظ عبد العزیز( حافظ ملت ) صاحب قبلہ کے فیوض و برکات کا اثر ہی (اشرفیہ کا ماضی اور حال , ص:۷۴)
جہاں پر آپ علم و فن کے تاجدار تھے وہیں پر فرق باطلہ کا قلع قمع کرنے والے بھی تھے اس پر آپ کی تصنیف ,عقائد دیوبند ,, شاہد ہے
۱۰ شمس العلما حضرت علامہ قاضی شمس الدین جون پوری علیہ الرحمۃ
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ کے انتقال پر ملال کی خبر جانکاہ اور روح فرسا سے جس قدر صدمہ ہوا وہ قابل بیان نہیں (,ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور ۱۹۷۶)
یقینا آپ کی وفات ایک عظیم سانحہ تھی اور شدید کرب کا باعث تھی بر صغیر پاک و ہند کے اکابر اہل سنت نے اس موقع پر شدید غم کا اظہار فرمایا اور ہر ایک نے اپنے تاثرتی کلمات سے ان کی دین متین کے تٔیں بے لوث خدمات کو خوب سراہا
۱۱. شمس العلماء حضرت مفتی نظام الدین علیہ الرحمۃ
حافظ ملت یوں تو تمام مروجہ علوم کی تمام کتابوں پر قابو یافتہ رہیں مگر فن تفسیر و حدیث میں ان کو حاصل ہے , مختصر سوانح حافظ ملت ,ص:۸۲
یعنی جس طرح وہ حافظ قرآن و حافظ ملت تھے اسی طرح حافظ احادیث اور ماہر فن تفسیر بھی تھے اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا