(الف) مسلک دیوبند کے عناصر اربعہ کو مومن ماننے والا صرف سنیت سے خارج نہیں,بلکہ اسلام سے خارج ہے۔
(ب) قرآن مقدس اور حسام الحرمین کی تصدیق میں فرق ہے۔
(ج) حسام الحرمین اعلی حضرت کی تصنیف نہیں۔
(د) بعض اسلاف کرام کی طرف انکار تکفیر کی نسبت غلط
(ہ) گمراہ مصباحیوں کو "نہاری” کہنا چاہئے۔
(الف)
اشخاص ادبعہ کو مومن ماننے والا کافر ہے:
مذہب اسلام کے احکام تین قسم کے ہیں۔(1)ضروریات دین(2)ضروریات اہل سنت(3)ظنیات۔
ظنی احکام کے مختلف درجات ہیں۔اسی اعتبار سے ان کے انکار کا حکم بھی مختلف ہے۔
ضروریات دین کو ماننا فرض قطعی ہے اور اس کا صریح متعین انکار یعنی مفسر انکار کفر کلامی ہے۔
ضروریات دین خواہ کسی کتاب میں مرقوم ہوں یا کسی پتھر پر۔اسی طرح کسی مومن کی کتاب میں مرقوم ہوں یا کسی ہندو کی کتاب میں۔اس کو ماننا فرض قطعی ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
اگر کسی ہندو کی کتاب میں لکھا ہے کہ اللہ ایک ہے تو اسے ماننا ہو گا۔اس کا منکر توحید الہی کا منکر ہے اور کافر ہے۔
اللہ و رسول(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کی بے ادبی کفر ہے۔ختم نبوت کا انکار کفر ہے۔اللہ ورسول کی مفسر بے ادبی اور ختم نبوت کا مفسر انکار کفر ہے۔
مسلک دیوبند کے عناصر اربعہ میں سے گنگوہی نے اللہ ورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کی مفسر بے ادبی کی۔انبیٹھوی وتھانوی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مفسر بے ادبی کی۔نانوتوی نے ختم نبوت کا مفسر انکار کیا۔اپنے کفریات کے سبب یہ چاروں کافر کلامی ہیں۔جو ان لوگوں کو مومن مانے,یا ان کے کفر میں شک کرے,وہ کافر ہے۔
عناصر اربعہ کا حکم کفر جہاں بھی لکھا ہو,اس حکم کو ماننا ہو گا۔حسام الحرمین میں اشخاص اربعہ کا حکم مرقوم ہے تو اس حکم کو ماننا لازم ہے۔
(ب)
قرآن مجید اور حسام الحرمین میں فرق:
قرآن مجید اور حسام الحرمین میں فرق یہ ہے کہ قرآن مجید کے کسی حرف متواتر کا انکار کفر ہے۔اسی طرح کسی بھی حرف متواتر یا لفظ متواتر کو غلط کہنا کفر ہے۔
حسام الحرمین میں بالفرض کسی جگہ حرف جار "من”کا استعمال ہو گیا ہے اور قانون نحوی کے طریقے پر وہاں حرف جار”عن”ہونا چاہئے۔زید نے کہا کہ حسام الحرمین میں اس جگہ حرف "من”کا استعمال غلط ہے۔ ایسا کہنے کے سبب زید پر کچھ بھی حکم عائد نہیں ہو گا,اور صاحب تحریر کو بے التفاتی کے سبب معذور سمجھا جائے گا۔
حسام الحرمین میں مذکور اشخاص اربعہ کا حکم کفر صحیح ہے اور اشخاص اربعہ کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔یہ حکم کہیں بھی مذکور ہو تو اسے ماننا ہو گا۔حسام الحرمین کی تخصیص نہیں۔
حسام الحرمین کی تصدیق سے اس میں مرقوم حکم شرعی کی تصدیق مراد ہے کہ اشخاص اربعہ کافر ہیں۔
(ج)
حسام الحرمین اعلی حضرت کی مستقل تصنیف نہیں:
حسام الحرمین اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی مستقل تصنیف نہیں۔اس میں علمائے حرمین طیبین کے فتاوی ہیں اور شروع کے چند اوراق میں امام اہل سنت قدس سرہ القوی کا استفتا ہے۔
امام اہل سنت ان فتاوی کے جامع اور مرتب ہیں۔اسی جمع وترتیب کے سبب حسام الحرمین کو امام اہل سنت کی تصانیف میں شمار کر دیا جاتا ہے۔
الحاصل وہ حسام حرمین ہے,حسام بریلی نہیں۔المعتمد المستند کو حسام بریلی کہا جا سکتا ہے۔اسی میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اشخاص اربعہ اور قادیانی وغیرہ پر حکم کفر نافذ فرمایا ہے۔
(د)
اشخاص اربعہ کی تکفیر کے انکار کا الزام غلط:
بعض علمائے اہل سنت کی طرف اشخاص اربعہ کی تکفیر کے انکار کی نسبت غلط ہے۔
درحقیقت کافر کو کافر اعتقاد کرنا ضروری ہے۔ہاں,جب اس کے بارے میں سوال ہو تو اپنا اعتقاد ظاہر کرنا بھی ضروری ہے۔
اگر کسی عالم سے اس بارے میں نہ کچھ سوال ہوا,نہ کوئی استفتا ہوا,جس کے سبب ان کا زبانی اقرار یا ان کی تحریر موجود نہیں تو ان پر کوئی اعتراض نہیں۔
بعض ایسے علما بھی ہو سکتے ہیں کہ جن کو دیابنہ کی تکفیر کی اطلاع نہیں پہنچی اور وہ دیابنہ کی کفریہ عبارتوں سے بھی مطلع نہ ہوں تو عدم معرفت کے وقت ان کا انکار تکفیر دلیل نہیں بن سکتا۔
علامہ معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ کو تکفیر دیابنہ کی اطلاع نہیں تھی,نہ دیابنہ کی کفریہ عبارتوں کی خبر تھی۔
ایک مدت بعد انہوں نے تکفیر دیابنہ کی تصدیق کی,جب حجۃ الاسلام سے خط وکتابت کے ذریعہ حقائق معلوم ہوئے۔
بعض علما ومشائخ کے وارثین وجانشیں مذبذب ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے بزرگوں نے بھی دیوبندیوں کی تکفیر نہیں کی تھی تو ایسے لوگوں کی روایت ناقابل قبول ہو گی۔
اہل پھلواری بھی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے تکفیر نہیں کی تھی,حالاں کہ ان کے اسلاف تکفیر کے قائل تھے۔بعد کے لوگ مبتلائے ضلالت ہوئے۔
علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز نے حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں قدس سرہ القوی کے سامنے لکھنو میں تمام قابل اعتراض امور سے توبہ کر لیا تھا۔
خانوادہ فرنگی محل کے متاخرین مبتلائے ضلالت ہوئے۔دراصل تحریک ندوہ نے بہت سے لوگوں کو غلط راہ پر ڈال دیا۔
البرکات:رسالہ ہشتم,نصف اول,باب اول میں ان سوالوں کے تفصیلی جواب مرقوم ہیں۔
(ہ)
مصباحی یا نہاری؟
ایک صحابی نہار الرجال کو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے یمامہ(نجد)بھیجا تھا,تاکہ وہ مسلمانوں کو مسیلمہ کذاب کے فتنوں سے محفوظ رکھ سکے اور لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم دے۔
نہار الرجال یمامہ جا کر مسیلمہ کذاب کی نبوت قبول کر لیا اور لوگوں کو بتایا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مسیلمہ کو اپنی نبوت میں شریک بنایا ہے۔
نہار الرجال کی بات سن کر ان علاقوں کے مسلمانوں نے کثیر تعداد میں مسیلمہ کذاب کو نبی مان لیا۔نہ جانے اس میں کتنے تابعی ہوں گے۔بعض صحابی بھی ہو سکتے ہیں۔
جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں فراغت کے وقت حسام الحرمین کی تصدیق لی جاتی ہے,تاکہ فارغین خود بھی مذہب حق پر قائم رہیں اور مسلمانوں کے دین وایمان کی بھی حفاظت کریں۔
بعض مسلوب التوفیق فارغین نے نہار الرجال کا طریقہ اپنایا کہ وہ اشخاص اربعہ کو مومن ثابت کرنے لگے,جیسے نہار الرجال مسیلمہ کذاب کو نبی ثابت کرنے لگا تھا۔ایسے مصباحیوں کو نہار الرجال کی نسبت سے "نہاری”کہنا بہتر ہے۔
ان کی سندیں فقدان شرط کے سبب منسوخ ہو چکی ہیں۔اب وہ مصباحی نہیں۔ان میں سے جس کو اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں کا علم یقینی ہے اور علمائے عرب وعجم کی جانب سے اشخاص اربعہ کی تکفیر کا علم یقینی ہے,اس کے باوجود وہ اشخاص اربعہ کو مومن مانتا ہے تو وہ یقینا مرتد ہے اور اسلام سے خارج ہے,نہ کہ صرف سنیت سے خارج ہے۔