تبصرہ نگار: ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ
مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی علم و ادب کی دنیا کا معروف اور مقبول نام ہے۔ ایک معتبر عالم دین ، شفیق استاذ، اچھے مصنف، شیریں بیاں مقرر، بہترین قلم کار اور کامیاب منتظم کی حیثیت سے انہوں نے اپنا وقار اور اعتبار بنایا ہے۔ طویل مدت تک سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے بڑی علمی و دینی خدمت انجام دی ہے۔ تعلیم کے فروغ کے لئے انہوں نے اپنے قلم و زبان سے بڑا کام لیا ہے، خاص طور پر حکومتی سطح پر مدارس ، اہل مدارس اور اردو زبان کی ترویج وترقی کے لئے کی جانے والی کوششیں نہایت حوصلہ مندانہ ہیں۔ اپنی زندگی کی ستر سے زائد بہاریں دیکھ لینے اور عمر رسیدہ ہوجانے کے باوجود آج بھی سرگرم اور حوصلے سے بھرپور ہیں۔ مولانا کا رکھ رکھاؤ، وضع قطع اور لباس و پوشاک بھی خاصے کی چیز ہے۔ اعتدال پسندی اور فکری توازن ان کا خاص وصف ہے۔ ہر حلقے میں مقبول اور ہر طبقے میں محبوب ہیں۔ جہد مسلسل اور عمل پیہم سے عبارت پچاس سالہ عملی و علمی اور تحریکی و تنظیمی زندگی اس بات کی متقاضی تھی کہ ان کے اوپر کتابیں لکھی جاتیں اور ان کی شخصیت اور خدمات کا بھرپور جائزہ لیا جاتا۔
اللہ کے یہاں ہر کام کا وقت متعین ہے ،دیر سے ہی سہی یہ سعادت مندی جواں سال صاحب قلم عالم دین مولانا صدرعالم ندوی کے حصے میں مقدر تھی، انہوں نے ”مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی: نقوش و تاثرات” کے نام سے ایک کتاب ترتیب دے کر شائع کیا ہے۔ یہ کتاب دوسو بہتر (272) صفحات پر مشتمل ہے، ان میں مولانا کی شخصیت اور خدمات کے تعلق سے کل بیس مضامین شامل ہیں۔ ”حیات وتاثرات” کے تحت نو مضامین اور ”خدمات و تاثرات ”کے ذیل میں گیارہ مضامین شامل ہیں۔ مضمون نگاروں میں مولانا کے ہم عصر بھی ہیں اور شاگرد و عزیز بھی ۔ ”حیات و تاثرات ”کے باب میں مولانا صغیر احمد رحمانی ، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، انوار الحسن وسطوی ، صفی اختر ، مولانا مستقیم ندوی ، مولانا اشرف علی ندوی ، سید شکیل حسن ، ڈاکٹر صادق حسین او ر ثناء اللہ دوگھروی نے مولانا ابو الکلام قاسمی صاحب کے احوال و اوصاف اور اخلاق و کردار پر دل آویز تحریر لکھی ہے۔ ان تحریروں کے پڑھنے سے مولانا کی سیرت و شخصیت ، اخلاق و کردار ، اخلاص و عمل اور جہد پیہم کی جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اس سے مولانا کی شخصیت اور احترام کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے ۔
دوسرے باب میں پروفیسر وہاب اشرفی ، ڈاکٹر کلیم احمد عاجز ، مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری ، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ، ڈاکٹر قمر الدین قاسمی، نورعالم ابراہیم، ڈاکٹر شفیع الزماں ، ڈاکٹر تنویر عالم اور ڈاکٹر بدرالدجٰی بدر نے اپنے اپنے مضامین میں مولانا کی علمی ، ادبی ، تصنیفی ، تحقیقی اور تدریسی خدمات کا جائزہ لیا ہے ۔مضامین مختصر بھی ہیں اور طویل بھی ، چند مضامین میں موضوع اور مواد کا تکرار ہے ۔ بعض مضامین وہ ہیں جو آج سے دس بیس سال قبل کسی کتاب کے مقدمے یا پیش لفظ کے طور پر لکھے گئے تھے ، مرتب کتاب نے افادیت کے پیش نظر اُسے بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔ تیسرے باب میں مولانا کے مضامین و مقالات کو جگہ دی گئی ہے، ان میں چار مضمون اردو زبان میں اور تین عربی زبان میں ہیں۔مضامین کا مطالعہ مولانا کے علم و تحقیق اور زبان و ادب پر گرفت کا پتہ دیتا ہے۔مولانا کا قلم صاف ، رواں اور تکلفات سے پاک ہے۔ مرتب کتاب مولانا صدر عالم ندوی اس تعلق سے تحریر کرتے ہیں:
”مولانا کو اردو ، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر قدرت حاصل ہے۔ زبان صاف ستھری اور اسلامی ادب کا شاہکار ہے۔ قلم تکلف سے پاک ہے، آپ پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ قلم پر خود بخود مضامین آتے جا رہے ہیں۔ مولانا کا مخصوص طرز انشاء ہے جس نے ہر مضمون کو جاذب نظر بنادیا ہے جو دل و دماغ دونوں کے لئے راحت بخش ہے ۔ وہ پر جوش عبارت اور استعاروں سے پرہیز کرتے ہیں، بالکل سادہ عبارت لکھتے ہیں، جسے ہم شاعری کی زبان میں سہل ممتنع کہیں گے ۔”
چوتھا اور آخری باب پریس ریلیز پر مشتمل ہے ، یہ پریس ریلیز قومی ، ملی ، تعلیمی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر ہیں جو وقتاً فوقتاً اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس سے مخصوص مسائل میں مولانا کے افکار و نظریات پر روشنی پڑتی ہے ، عام فہم زبان میں جاری یہ اخباری بیانات ، ملی ، سماجی اور تعلیمی مسائل پر غور و فکر کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔مولانا صدر عالم ندوی نے کتاب کے آغاز میں پانچ صفحات پر مشتمل پیش لفظ تحریر کیا ہے ، اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی تیار ی 2009 میں ہی شروع کر دی تھی ، لیکن بعض عوارض کی وجہ کر بروقت اس کی اشاعت ممکن نہ ہو سکی اور اس طرح کتاب کو منظر عام پر آنے میں دس سال کا وقفہ بیت گیا۔ اس عرصے میں کئی مضمون نگار دنیا سدھارگئے اور اب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ مرتب نے اپنا پیش لفظ بھی غالباً اسی وقت تحریر کیا تھا، اب جب کہ کتاب کی اشاعت دس سال کے بعد ہوئی ہے،مصنف کو پیش لفظ پر نظر ثانی کرنی چاہئے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیاہے۔
مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور قاسمی ان کے نام کا لاحقہ ہے، لیکن پوری کتاب میں کہیں بھی دارالعلوم سے استفادہ کا ذکر نہیں آیا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے اخیر میں مولانا شمیم اختر ندوی نے مولانا کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے اس میں بھی کہیں دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے مختصر مگر قیمتی مقدمہ تحریر کیا ہے۔ مولانا کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
” مولانا ابوالکلام قاسمی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں
ہے۔ و ہ
قاسمی اور شمسی دونوں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قدیم صالح اور جدید نافع کے جامع ہیں ، سیرت و تواریخ ان کا پسندیدہ موضوع اور مدارس کے احوال و کوائف ،اس کے عروج و زوال کی داستان ، نصاب تعلیم اور نظام مدارس ان کے فکر کا محور رہا ہے۔ سرکاری بندشوں کے باوجود ان کا قلم حق کی ترویج میں لگا رہا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے ۔”
بلاشبہ مولانا ابوالکلام قاسمی صاحب کی فکر کا محور نصاب تعلیم اور نظام مدارس رہا ہے ۔اس حوالے سے بھی ان کی فکر و نظر اور خدمات وکارنامے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح کتاب کی اشاعت میں لمبا وقت صرف ہوا اگر موضوعات کا تعین کرکے مضامین لکھوائے جاتے اور مولانا کی ملی و سماجی خدمات پر بھی روشنی ڈالی جاتی تو شاید مولانا کی شخصیت مزید ابھرکر اور نکھر کر سامنے آتی۔ مجموعی طور پر یہ کتاب مولانا کی شخصیت اور خدمات کو جاننے ، سمجھنے اور برتنے کے لئے نہایت مفید ہے اس سے مولانا کے شخصی و علمی نقوش مرتسم ہوتے ہیں۔ خوبصورت علمی پیشکش کے لئے مولانا صدر عالم ندوی مبارک باد کے مستحق ہیں، موصوف باصلاحیت نوجوان عالم دین ہیں ، ذہین بھی ہیں اور محنتی بھی ۔ اللہ نے انہیں قلم کی دولت سے نوازا ہے اور اس کے استعمال کی سلیقہ مندی سے بھی۔ کتاب کی ترتیب وطباعت ان کی سلیقہ مندی کا غماز ہے۔ طباعت معیاری ہے ، سرورق خوبصورت اور کاغذ نفیس ہے ، مرکزی پبلی کیشنز، نئی دہلی سے شائع اس کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے۔امید ہے کہ اہل علم و ادب اس کا بڑھ کر استقبال کریں گے ۔