تحریر: محمد ثناءالہدی الہدیٰ قاسمی نائب ناظم و مدیر ہفتہ وار نقیب امارت شرعیہ،پٹنہ
این ڈی اے میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے، کابینہ میں توسیع کا معاملہ اب تک اٹکا ہوا ہے، دونوں نائب وزراء اعلیٰ کے دہلی جا کر بی جے پی اعلیٰ کمان سے گفت وشنید کے با وجود کوئی حل نہیں نکل سکا، بی جے پی اپنی تعداد کے اعتبار سے وزارت میں نمائندگی چاہ رہی ہے اور جد یو کے لیے یہ قابل قبول اس لیے نہیں ہے کہ پہلے سے ہی دباؤ کے شکار وزیراعلیٰ کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہو کر رہ جائے گی، نتیش کمار اس حد تک جانے سے پہلے اپنے عہدہ کو چھوڑنا زیادہ بہتر سمجھیں گے، اس کام کے لیے انہوں نے پارٹی کی عاملہ میٹنگ میں لیڈروں کے ساتھ لمبی گفتگو کی ہے، مسلسل تین روز وہ پارٹی دفتر آتے رہے اور اچھا خاصہ وقت غور وفکر میں گذارا، اس غور وفکر کے نتیجے میں سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ پارٹی کے قومی صدر کے عہدہ کو خیر باد کہہ کر اپنے انتہائی معتمد، تجربہ کار اور پارٹی میں مضبوط پکڑ رکھنے والے سابق آئی اے اس افسر رام چندر پرساد سنگھ (آر سی پی سنگھ) کو قومی صدر بنا دیا، گذشتہ بائیس سالوں سے وہ نتیش کمار کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں، بہار کی سیاست میں قدم جمانے کے لیے انہوں نے رضا کارانہ طور پر سبکدوشی (VRS)لے لیا تھا، ۰۱۰۲ء اور ۶۱۰۲ء میں وہ راجیہ سبھا کے ممبر بنے، ان کا شمار جد یو کے نظریہ ساز لیڈروں میں ہوتا ہے اور ہر قسم کے فیصلے میں ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
پارٹی صدر کی کرسی چھوڑنے کا فیصلہ نتیش کمار کا چونکا دینے والاتھا، انہوں نے پریس کو یہی بتایا ہے کہ وہ دو بڑے عہدوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہے تھے اور وقت کی کمی محسوس ہوتی تھی، مستقل صدر ہونے کے بعد مختلف ریاستوں میں پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور اروناچل پردیش جیسے واقعہ کو روکا جا سکے گا، جیسا کہ معلوم ہے اروناچل پردیش میں بی جے پی نے جد یو کے سات میں سے چھ اسمبلی ممبران کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کر لیا تھا، جو انتہائی غیر اخلاقی قدم تھا، اسی لیے جد یو نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ بی جے پی نے گٹھ بندھن کے لیے اٹل دھرم نہیں نبھایا، اشارہ اٹل بہاری باجپئی کے اتحادیوں کے ساتھ سلوک کی طرف تھا۔
اروناچل پردیش کے شرمناک واقعہ کے بعد بہار کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے نتیش کمار پر ڈورے ڈالنا شروع کر دیا ہے، ایک تجویز آر جے ڈی کے سینئر لیڈر اودے نرائن چودھری کی طرف سے آئی ہے کہ وہ راجد کو سپورٹ کر دیں، تیجسوی کو وزیر اعلیٰ بنادیں اور ۴۲۰۲ء میں اتحاد انہیں پی ام کا چہرہ بنا کر انتخاب میں حصہ لے گی، یہ تجویز نتیش کمار کے لیے اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ ۴۲۰۲ء تک کیا ہوگا کس نے دیکھا ہے۔
بی جے پی بھی اپنے اس مہرے سے آسانی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے، جس کو بڑی منت وسماجت سے اس نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا ہے، نتیش کمار بقول ان کے ایک پائی بھی وزیر اعلیٰ بننے کے حق میں نہیں تھے، ان کے اس بیان کی تائید سوشیل کمار مودی بھی کر رہے ہیں، جس سے اس کی حقیقت معلوم ہوتی ہے، نتیش کمار چاہتے تھے کہ ان ڈی اے وزیر اعلیٰ کے لیے دوسرے کسی شخص کو چن لے، مگر بی جے پی کوئی رِسک لینا نہیں چاہتی تھی، اس نے اپنی ضد کا نتیجہ مہاراشٹر میں دیکھا تھا، جس کے نتیجے میں بی جے پی حکومت سے وہاں باہر ہو گئی اور مہان اگاری کی سرکار ادھو ٹھاکر ے کی قیادت میں کئی مہینے سے وہاں بہتر انداز میں چل رہی ہے، اور شرد پوار کی حکمت عملی سے حکومت گرانے کے سارے حربے بی جے پی کے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں ایک رائے سیاسی نجومیوں کی یہ ہے کہ نتیش اگر کرسی چھوڑتے ہیں تو آر سی پی سنگھ اس کرسی کو سنبھال سکتے ہیں، وہ آئی اے ایس افسر رہ چکے ہیں، انتظامی صلاحیت مضبوط ہے اور آپسی تال میل بنانے میں بھی ان کی مہارت مسلم ہے، وہ خیالات کے اعتبار سے بی جے پی کے زیادہ قریب ہیں، اور بی جے پی کے لیے ان کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانا نتیش کمار کے مقابل زیادہ آسان ہوگا، اس صورت میں نتیش کمار کو دہلی کا سفر کرایا جا سکتا ہے، اور سوشیل کمار مودی کی طرح مرکز میں ان کی پذیرائی ہو سکتی ہے، بلکہ وزارت میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے، متبادل نائب صدر اور گورنر کے عہدے کے طور پر بھی موجود ہے، یہ متبادل نتیش کمار کے لئے بھی قبول کرنا آسان ہوگا؛کیوں کہ وہ اس انتخاب کو اپنا آخری انتخاب کہہ چکے ہیں اور انہیں لوگوں کو سمجھانا آسان ہوگا کہ میں نے جو کہا کر دیا،ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نتیش کمار استعفیٰ دے کر راجد کے اتحادی کے طور پر سامنے آئیں،تیجسوی وزیر اعلیٰ اور آر سی پی سنگھ نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اقتدار سنبھالیں،اس طرح بہار کو بی جے پی کی حکومت سے نجات مل سکتی ہے اور نتیش کمار کو بھی چین کی سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے۔
تیش کمار کے کرسی سے ہٹنے کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ جیتن رام مانجھی بی جے پی کا ساتھ نہ دے سکیں؛ کیوں کہ آج کل وہ نتیش کمار اور جدیو کی حمایت میں خاصہ زور صر ف کر رہے ہیں، اب انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ نتیش کمار نے ہی انہیں وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچایا تھا، دیر سے ہی سہی، اس احساس نے نتیش کمار کے ساتھ ان کی وفاداری پکی کر دی ہے اور جب نتیش کمار ہٹیں گے تو وہ بھی بی جے پی سے الگ ہو جائیں گے، اس طرح این ڈے اے کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ کر الگ ہو چکا ہوگا۔
ایسے میں اگر مانجھی، مکیش سہنی اور اویسی کی حمایت داخلی یا صرف خارجی طور پر عظیم اتحاد کو مل جائے تو تیجسوی کا وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچنا بغیر جدیو کی حمایت کے بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، لیکن ان قیاس آرائیوں سے اتنی بات صاف ہوجاتی ہے کہ این ڈی اے میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے، بلکہ اس مین اندرونی خلفشار ہے اور ہر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے رہا ہے، ایسے میں یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔