تحریر: شہادت حسین فیضی، کوڈرما جھارکھنڈ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو مصیبت میں مبتلا فرماتا ہے۔(بخاری: 843 / 2)
اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے کبھی کسی کو بغیر کسی آزمائش کے ہی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے اور کبھی آزمائشوں کے بعد کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث پاک میں ہے۔ یقینا آج پوری دنیا کے مسلمان ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہیں۔ اب اگر مسلمان ان حالات میں اپنے مصائب و مشکلات اور کٹھنائیوں کو اوسر کے طور دیکھیں تو ضرور ایک شاندار کامیابی ہماری مقدر ہونے والی ہے۔بیشک ہرسختی کے بعد آسانی ہے.(الشرح:٦)
اگر کوئی پریشان حال ہے تو اسے آسانی کی امید بھی رکھنی چاہیے.(البقرة:٢٨٠)
میں یہاں اس کی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔
(1) جنگ بعاث:-
جنگ بعاث ہجرت سے چار یا پانچ سال پہلے یثرب میں اوس و خزرج کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ کا نام ہے جس میں کثیر تعداد میں اوس و خزرج کے جوان اپنے بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ عورتیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے۔ نیز اس آپسی جنگ نے معاشی طور پرانہیں اس قدرکمزور کیا کہ ان میں سے اکثر مفلسی کے شکار ہوگئے۔ اور اس جنگ کے بعد ان میں سے چھ لوگ جب حج کے لیے گئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت اس طرح پیش کی کہ "میں لوگوں کو ایک اللہ کے عبادت کی،اور اخلاق حسنہ کے ساتھ اتحاد و بھائی چارگی کی دعوت دیتا ہوں۔ کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوتا ہے تو وہ پھر تمام مسلمانوں کا بھائی ہو جاتا ہے اور مسلمان آپس میں مل کر ایک مضبوط دیوار کی طرح ہیں اور ایک جسم کی طرح ہیں کہ تکلیف جسم کے کسی بھی اعضاء میں ہو، اس کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو سن کر ان لوگوں نے فورا اسلام قبول کرلیا۔ کیونکہ جنگ بعاث میں انہیں جو عظیم نقصانات ہوئے تھے اسلام میں انہیں اس کی تلافی نظر آئی۔ جبکہ جنگ بعاث سے پہلے انہی لوگوں کو حج کے موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جب اسلام کی دعوت پیش کی تھی،تو انہوں نے حقارت کے ساتھ اسلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت انہیں اسلام میں اپنی آزادی سلب ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ گویا جنگ بعاث جس میں کافی جانی و مالی نقصانات سے وہ دو چار ہوئے تھے،بعد میں وہی ان کے لیے ایک عظیم کامیابی یعنی حصول ایمان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جس نعمت پر اوس وخزرج بہت زیادہ متشکر رہتے تھے وہ نعمت تھی صدیوں پرانی دشمنی کا ختم ہونا۔ اور ایک ترقی پذیر مذہب کا حصہ ہو کر شعور زندگی سے آگاہی اور سماجی وقار کا حاصل کرنا۔
(2) رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال کے صرف پچیس سال بعد، آنے ولے تقریبا پانچ سالوں میں (یعنی 18 ذی الحجہ 35ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت سے لے کر 19 رمضان 40 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک) لگ بھگ ایک لاکھ مسلمان دوسرے مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ جس میں ہزاروں صحابۂ کرام شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد منہج نبوت پر گامزن خلافت راشدہ کے پچیس سالہ دور میں بشمول صحابۂ کرام کے مسلمانوں کی اکثریت دعوت و تبلیغ اور تحریک و جہاد کی جانب گامزن رہی۔ لیکن اس کے بعد کے پانچ سالوں میں ایک لاکھ مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہونا مسلمانوں میں ایک عظیم انقلاب برپا کر گیا۔ اس مصیبت کے نتیجے میں تعلیم یافتہ صحابۂ کرام میں ایک انقلاب پیدا ہوا اور انھوں نے سیکڑوں حفاظ و محدثین کی شہادت کو بے حد seriously لیا اور دن بدن علماء کے اٹھنے کی وجہ سے علم کے اٹھنے اور مٹنے کے خدشے نے انہیں بے چین کردیا اور انھوں نے علوم اسلامیہ کی تدوین و تحقیق اور تراث اسلامی کی حفاظت پر کمر کس لی۔اس کے لیے ہر طرف علمی و تحقیقی تحریک چلائی۔اس کے لیے مخصوص ادارے اور درسگاہیں قائم کی۔یہ تبدیلی اسلام کے لیے بے حد سود مند ثابت ہوا۔ محدثین و مفسرین اور فقہاء صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت نظام خلافت و حکومت اور سیاست سے الگ ہو کر تعلیم قرآن و تفسیر قرآن، تدوین احادیث اور تفہیم دین کے تعلق سے اپنی اپنی درس گاہیں قائم کیں۔ اور دوسری جانب تصنیف و تالیف اور مسائل کے استخراج و استنباط کا اہم کام شروع ہوا۔ آج دنیا کے پاس جو لاکھوں احادیث کا ذخیرہ، سیرت رسول، سیرت صحابہ اور دینی مسائل پر مشتمل جو بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں ہیں یہ انہیں صحابۂ کرام کی مرہون منت ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھ کر جہاد و قتال اور حکومت و سیاست سے منہ موڑ کر اپنی پوری توانائی درس قرآن،درس حدیث اور خالص دینی و علمی کاموں میں صرف کردی۔ گویاجنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان جیسے جنگوں نے مسلمانوں کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جس کی سخت ضرورت تھی۔ ایسی ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن میں یہاں صرف ان دو مثالوں کے بعد مسلمانوں کو درپیش مسائل وحالات کے تناظر میں ایک مثبت تجزیہ پیش کرتا ہوں۔
6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ہی ہمارے ملک میں مسلمانوں کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے صرف ایک جہت سے نہیں بلکہ ہر چہار جانب سے اور مختلف ذرائع اور طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی توانائی کو آپسی تنازعات میں الجھا کر اور آپس میں لڑوا کر ختم کرنے کی سازش کی گئی۔ دوسری جانب انہیں احتجاجی جلسہ و جلوس اور پھر کچھ سطحی وعدوں میں الجھا
کر جدید
عصری علوم سے دور رکھا گیا۔ گویا ہم اپنی تباہیوں کا علاج وقت اور سرمایہ کی بربادی سے کرتے رہے۔ اور جب ہماری حالات و حیثیت کی زمینی تحقیق سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ ہم ہریجن اور آدیواسی سے بھی معاشی اور تعلیمی طور پر بہت پیچھے ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرف دو سو سال پہلے تک اسی ملک میں تقریبا آٹھ سو سالہ ہماری حکومت رہی ہے۔ جب ہم زمانے میں معزز تھے تو ہمیں زمانے میں معزز ہی رہنا چاہیے تھا کہ ہم مؤمن ہیں۔ لیکن ہم ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ ہمارے قائدین کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کو نہ خواندہ اور قلاش بنانے کے نئے نئے تجربے ہوتے رہے۔ اور ہم گھر، محلہ، گاؤں سے لے کر ملکی سطح اور پھر بین الاقوامی سطح پر ہر جگہ آپسی اختلافات کےفرسودہ موضوعات پہ مناظرہ،مباحثہ، سیمینار وغیرہ منعقد کرکے مزید منتشر ہوکر تباہ و برباد ہوتے رہے اور مرتے مٹتے رہے۔ یہاں تک کہ 2014ء میں کٹر مسلم مخالف اور جارح تنظیم آر ایس ایس کی حمایت سے بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی۔ جس نے سب سے پہلے ان لوگوں کے ذریعے جنہیں انہوں نے اپنے اسکولوں اور کوچنگوں کے ذریعےاعلی عہدے تک پہنچایا تھا۔ تمام آئینی اداروں کو اپنے شکنجے میں لیا۔اور پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کو جائز ٹھہرانے کے لیے غیر قانونی و غیر انسانی قانون سازی کی تاکہ انتظامیہ اور عدلیہ کو مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس کے بعد احتجاج کرنے والوں اور حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو اس بے دردی کے ساتھ سلاخوں میں ڈالا گیا کہ عالمی برادری بھی چیخ اٹھی۔یہاں تک کہ مسلمانوں پر ظلم و استحصال کی مقابلہ آرائی ہو نے لگی کہ مسلمانوں پر جو زیادہ مظالم ڈھاتے ہیں انہیں اعزازات سے نوازا جانے لگا.
ان حالات پہ غور کرنے کے بعد اس حدیث کو ایک بار پھر سے پڑھیں۔ جس کو میں نے شروع میں بیان کیا ہے۔ کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو مصیبت میں مبتلا فرماتاہے۔ ہم بے شمار مصائب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ تو کیا اب ہمارے لیے کامیابی کے راستے کھلنے والے ہیں؟ اور اللہ تعالی کے فرمان کہ ہر سختی کے بعد آسانی ہے کہ مطابق شان و شوکت اور راحت و آرام کے دن آنے والے ہیں؟۔
ایک کہاوت ہے کہ عقل مند لوگ مصائب کو بھی کامیابی کے مواقع میں تبدیل کر لیتے ہیں اور ہمیں اللہ اور رسول کے فرمان پر ایمان بھی ہے۔ اور یہ یقین بھی ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ عقل مند مسلمان ہیں۔ اگر ان باتوں میں سچائی ہے تو لازما ہمیں اس عالم اسباب میں مثبت اقدام کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنا ہوگا۔ مصیبت سے فائدہ اٹھانے کی تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔
(1) تین طلاق بل:-
اس بل کے قانون بن جانے کے بعد مسلمانان ہند نے دوطرح کی تحریکیں شروع کیں:
▪️ کچھ لوگوں نےجلسہ، جلوس، اشتہارات و اخبارات اور شوشل میڈیا کے ذریعے اس کی مخالفت کی۔ کچھ دن سرخیوں میں رہے اور پھر خاموش ہو گئے۔
▪️جبکہ اکثریت جس میں "تنظیم اہل سنت ضلع کورما” بھی شامل ہے نے تین طلاق قانون کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے سیمینار اور تعلیمی و تربیتی پروگرام وغیرہ منعد کی اور عوامی بیداری تحریک چلا کر ایک بارگی تین طلاق کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی۔ کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً حرام ہے اور قانونا جرم بھی ہے۔ بے شک اس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔
(2) لو جہاد کے نام پہ بننے والا غیر انسانی قانون:-
اس میں بھی مسلمانوں کی ایک بہت ہی چھوٹی تعداد ہے جو اس کو مسلم مخالف قانون بتا کر شور مچا رہی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس سے راحت کی سانس لی ہے۔ظاہر ہے کہ وہ مسلم لڑکے جو غیر مسلم لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں وہ اپنے خاندان کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ اور وہ مسلم سماج کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہیں۔ کیونکہ جتنے لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اتنی ہی مسلم لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں۔ گویا یہ جو ہو رہا تھا دوہرے خسارے کا کام تھا۔ اب اگر ہم اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو غیر مسلم سے شادی کرنے کے مضر اثرات سے واقف کراتے ہیں اور حکومت کی جانب سے ظالمانہ کارروائی سے ڈراتے ہیں اور نتیجتا ہمارے بچے اس قبیح فعل سے بچتے ہیں۔ تو یقینی طور پر اس کا فائدہ مسلمان کو ہی ہوگا۔
(3)تعلیم اور ملازمتوں میں تعصب:-
اچھی ملازمت یا اچھی یونیورسٹی وغیرہ میں داخلہ کے لیے اگر مساوی صلاحیت میں تعصب کی بنیاد پر کامیابی نہیں ملتی ہے۔ تو یہاں بھی کچھ لوگ دھوکے میں آکر احتجاج کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے حریف سے برتر صلاحیت حاصل کریں تاکہ ناکامی کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ اور اگر پھر بھی مقصد میں ناکامی ملتی ہے تو اس وقت بھی ہم فائدے میں ہیں کہ اس وقت ہم اتنی صلاحیت کے مالک ہو چکے ہوں گے کہ اس طرح کی ملازمت ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں۔ اس کے عملی نمونے بہت ہیں۔
الغرض مذکورہ بالا حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ:
(1) آپس میں اتحاد قائم کیا جائے۔
(2) ردعمل اور احتجاج سے باز رہا جائے۔
(3) اپنی ساری توانائی اور قوت کو تعلیم،تجارت اور تنظیم و تعمیر میں لگائی جائے۔
(4) منصوبہ بندی اور حکمت عملی جو مسلمانوں کا حق اور خاصہ بھی ہے کو ہمیشہ زیر عمل رکھا جائے۔
(5) تمام مسلمان ایک دوسرے کے خیر خواہ،معاون و مددگار اور محافظ ہو جائیں۔
یہ پانچ باتیں جو قرآن و سنت سے منصوص ہیں اگر ہم نے صدق دل سے عمل کیا تو إن شاء الله! ہم ہی سرخرو اور بلند و بالا ہوں گے۔