اولیا و صوفیا

حضرت صوفی حمیدالدّین فاروقی ناگوری رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے کچھ تابندہ نقوش

تحریر. خلیل احمد فیضانی، جودھ پور، راجستھان

بقول بعض: اللہ تعالی کے اولیا کی باعتبار شہرت و عدم شہرت کے تین قسمیں ہوتی ہیں
۱: وہ پاک باز ہستیاں کہ جنہیں خود بھی جیتے جی علم ہوگیا تھا کہ وہ اللہ تعالی کے ولی ہیں اور ان کے دور کا ہر عام و خاص بھی جان چکا تھا کہ یہ نفوس ملکوتی صفات کے حامل ہیں اور ان کا رب کی بارگاہ میں بہت بڑا مقام ہے
۲: وہ عالی ہمت افراد کہ جنہیں خود تو علم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ولی ہیں لیکن مخلوق خدا اس گوہر نایاب کی شناخت سے قاصر رہتی ہے تاہم بعد وفات ( یہ راز ظاہر ہو ہی جاتا ہے) اور کثیر تعداد میں خلق خدا ان کے فیوض و برکات سے ہمکنار ہوتی ہیں
۳:وہ مومنین ہوتے ہیں کہ اللہ تعالی کے یہاں ان کا کویٔی خاص مقام ہوتا ہے بایں معنی وہ بھی اللہ تعالی کے ولی ہوتے ہیں لیکن ظاہری حیات میں نہ تو خو د انہیں اپنی ولایت کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی خلق خدا کو ان کی عظمتوں کا پتہ چل پاتا ہے
جب ہم ان تینوں طبقات کی روشنی میں حضور سلطان التارکین صوفی حمید الدین ناگوری رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق طبقہ اول سے ہے کیوں کہ جس طرح ہمارے صوفی صاحب علیہ الرّحمہ کا بحر فیض آج رواں دواں ہے اسی طرح ان کی ظاہری حیات میں بھی تھا-
معتمد و مقبول واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی بارگاہ فیض میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم وغیرہ نیز امیر وغریب،امرا وسلاطین وقت بھی بڑے ذوق و شوق، عقیدت ومحبت اور بصد عجزونیاز ہمیشہ حاضر ہوتے رہے ہیں، جو خلق خدا میں آپ کی مقبولیت کی بین دلیل ہے-
لیکن ان سب مراتب رفیعہ وکمالات عالیہ کے باوجود آپ کی زندگی امیرانہ ٹھاٹ باٹ والی نہیں تھی بلکہ بالکل سادہ اور صوفیانہ کردار والی تھی، حصول جاہ و اعلیٰ عہدوں ومناصب سے آپ ہمیشہ دور رہے، دنیاوی عیش و آرام اور ظاہری زیب وزینت سے ہمیشہ بیزار رہے، آپ کا زہد یعنی اس فانی دنیا سے بے رغبتی تو اس قدر مشہور تھی کہ خود آپ کے پیر و مرشد حضور سلطان الہند خواجۂ خواجگان حضرت غریب نواز علیہ الرحمۃ نے آپ کو سلطان التارکین کے لقب سے ملقب فرمادیا، آپ کی سادگی صرف ظاہری حیات طیّبہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ بعد وفات بھی آپ کے مزار اقدس پر اس کے اثرات کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے- آج بھی اس عظیم المرتبت ہستی کے مزار پر نہ کویٔی نقش و نگار کیا ہوا گنبد ہے نہ مزار پاک کے اطراف میں منقش و مزین قالین ہے کہ پہلی مرتبہ حاضری دینے والا زائر آپ کے مزارپاک کو پہچان ہی نہ پائے، ایسی سادگی پر ہزاروں دنیاوی شہرتیں قربان-

یہ باتیں فقط عقیدت و محبت کی بنا پر نہیں کہی گئیں بلکہ ہر وہ شخص جو آپ کی سیرت پاک کا مطالعہ کیے ہوے ہے وہ بلادغدغہ یہ کہے گا کہ یقینا سادگی میں آپ علیہ الرحمۃ کا کویٔی جواب نہیں بلکہ ہر زائر بوقت زیارت آپ رحمہ اللہ تعالی علیہ کا وہ شعر بھی ملاحظہ کرسکتا ہے جو آج بھی مزار پاک کی چہار دیواری پر مرقوم و مسطور ہے
مزار پر انوار پر جلی حروف میں آپ کا یہ شعر لکھا ہوا ہے کہ
درویش نہ آنست کہ مشہور جہاں است
درویش آنست کہ بے نام و نشاں است
یعنی درویش وہ نہیں جو دنیا میں مشہور ہو بلکہ اصل درویش وہ ہے کہ جو بے نام و نشاں ہو
صوفی صاحب علیہ الرحمۃ کی ساری زندگی اس شعر کی عملی تصویر رہی آپ ہمیشہ اپنے آپ کو لوگوں سےچھپاتے رہے ، ہر وقت اپنے کو مخلوق کی نگاہوں سے مخفی رکھنے میں کوشاں رہے، لیکن آپ کے کردار و اخلاق اور دعوت و تبلیغ کی بنیاد پر آپ کا شہرہ ہر سو پھیل گیا اور آج آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق بنا ہوا ہے
دعا ہے کہ رب قدیر آپ کے صدقے ہم سب کو سلامت رکھے- آمین

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے