اولیا و صوفیا

مکتوبات امام ربانی: کشف و الہام سے مؤید کتاب

412/ ویں عرس مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے موقع پر خراج عقیدت:

تحریر: خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین:- تحریک علمائے ہند

کتابوں کے ہزار رنگ ہوتے ہیں اور علمی دنیا میں ہر رنگ کی اپنی اہمیت لیکن اگر ان کتابوں کے بیچ کوئی ایسی کتاب مل جائے جو بیک وقت ظاہری اور باطنی علوم و معارف کے ساتھ کسی مسلم شخصیت کے کشف و الہام کا بھی نتیجہ ہو تو ظاہر ہے اسے دیگر کتابوں پر ٹھیک وہی تفوق حاصل ہوگا، جو عام باتوں پر کشف و الہام کو ہوا کرتا ہے۔
مکتوبات امام ربانی ایسی ہی چیدہ چنیدہ اور مقبول بارگاہ ایزدی کتابوں میں سے ایک ہے، ایک ایسی کتاب جس میں علمائے خیر کے علوم و معارف بھی ہیں اولیائے کاملین کے حقائق و دقائق بھی بلکہ راست مشکات نبوت سے مقتبس وہ اسرار حق بھی جو اس بارگاہ عالی سے صرف حضرت امام ربانی علیہ الرحمہ کا حصہ تھے۔
ان سب پر مستزاد یہ کہ جو کچھ بھی ہے، کشف صحیح اور الہام صریح سے مؤید ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ روحانی تجلیات کی ہزار ہمہ ہمی اور مکاشفات کے تسلسل کے باوجود، یہ تو ہو سکتا ہے کہ مکتوبات کی بہتری باتیں عام فہم سے کہیں بالا ہوں لیکن یہ قطعاً نہیں ہو سکتا کہ کوئی بات شریعت و سنت سے سر مو منحرف نظر آئے بلکہ مخالف ہونا تو دور، جو کچھ ہے وہ سنت کے عین مطابق اور الحمد للہ نظریات اہل سنت کی الہامی تائید ہے۔
اگر عام اور سادہ انداز میں سمجھیں تو یہ اسم با مسمی کتاب حضرت امام ربانی، مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ (پیدائش: 14/ شوال971 ھ مطابق 26/ مئی 1564ء – وفات: 28/ صفر 1034ھ مطابق 10/ دسمبر 1624ء) کے خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اگر خاص اور خاص الخاص انداز میں سمجھنا چاہیں تو؛
(الف) یہ مجموعہ ان حق نما تحریروں کا کراماتی گل دستہ ہے، جنھوں نے مکتوبات و مراسلات کے بہانے دین حق کے مقابل تیار کردہ باطل دین، دین الہی (سن تاسیس: 1597ء) کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا کام کیا اور نہ صرف یہ کہ اس نہایت پر فتن عہد میں دین حق کے احیا اور اس کی تجدید میں اپنا حصہ ڈالا بلکہ دین حق کے آئندہ مبلغین کے لیے بھی ایسے عملی اور تربیتی رہ نما خطوط مرتب فرما دیے، جن کی روشنی میں آگے آنے والا پورا ہزارہ ہر اس وقت حق و باطل کی واضح تصویر دیکھ سکتا ہے، جب جب باطل زور پکڑے اور حق پر ہلکا سا دھندلکا چھائے۔
(ب) مکتوبات و ملفوظات اور بھی بزرگوں کے محفوظ کیے گئے اور یہ کام آئندہ بھی ہوتا رہے گا لیکن اس بھری دنیا میں مکتوبات امام ربانی کو یہ ربانی امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک مجدد شریعت کے ساتھ مجدد طریقت اور پھر اس مجمع البحرین مجدد کے تجدیدی مشن کا حصہ ہونے کی وجہ سے کشف و الہام اور خصوصی عنایات ربانی کا حصہ ہیں۔
(ج) ان مکتوبات سے مردان کار اور ملت کے درد مندوں کو ہمت مردمی ملتی ہے، ایسی عالی ہمت جس سے بوئے فاروقی آئے۔ جو ایک طرف اگر حق کے لیے سینہ سپر ہو جانے کا حوصلہ دے تو دوسری طرف کسی لمحہ حسن تدبیر اور قرآنی حکمت و موعظت کا دامن نہ چھوڑنے دے۔
(د) چوں کہ مکتوبات کا عہد، دین خداوندی کی تجدید کا عہد تھا اور یہ مکتوبات ٹھیک اسی خوش نصیب شخصیت کے مکتوبات ہیں، جنھیں قسام ازل نے اس خوش نصیبی کے لیے منتخب فرما رکھا تھا، اس لیے مکتوبات میں شریعت اسلامیہ کی تشریح و تعبیر کا جو خاص انداز نظر آتا ہے، ظاہر ہے وہ دوسری کتابوں کا مقدر نہیں ہو سکتا۔ یعنی تنگی کے عہد میں تقریب شریعت، پھر تشریح شریعت اور پھر تنفیذ شریعت کس رنگ و آہنگ کے ساتھ ہونا چاہیے، مکتوبات امام ربانی خوب بتاتے ہیں۔
(ھ) مکتوبات کے مطالعے سے اس کے قاری پر جو سب سے نمایاں رنگ چڑھتا ہے، وہ رنگ ہے عشق رسالت کا رنگ۔ امام ربانی نے اپنے مرسل الیہ/ قاری کو اس رنگ میں رنگنے کا جو طریق اپنایا، وہ خود ان کی اپنی ایجاد نہیں بلکہ حکم خداوندی کی تعمیل ہے اور وہ الہی فارمولہ ہے اتباع رسول کا فارمولہ۔
مکتوبات کے مطالعے سے سنت کی متابعت اور نتیجتاً بدعت سے منافرت کا کچھ ایسا مزاج پروان چڑھتا ہے کہ قاری اپنے اندر ایک عجب قسم کا روحانی جوش اسلام محسوس کرتا ہے۔
حضرت امام ربانی علیہ الرحمہ نے اس بابت ایسا متصلب رویہ اپنایا کہ یہی حسن اسلام آپ کی تعلیمات اور دینی خدمات کی شناخت بن گیا۔
امام ربانی کا نظریہ بدعت و سنت، ایک مستقل موضوع کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر آپ کے مکتوبات اور دیگر تصانیف و تعلیمات سے درجنوں شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں اور اس پر ایک مستقل موضوع کی طرح خاصی خامہ فرسائی کی جا سکتی ہے۔
(و) مکتوبات امام ربانی میں شریعت اسلامیہ کے ساتھ طریقت کی تجدید کا بھی رنگ دور سے نظر آتا ہے بلکہ مکتوبات کی ابتدا ہی ان خطوط سے ہوتی ہے جو آپ نے اپنے مرشد گرامی اور گویا آپ ہی کے لیے بھارت کی سرزمین پر بھیجے گئے حضرت خواجہ رضی الدین باقی باللہ علیہ الرحمہ (971ھ – 1012ھ) کو لکھے بلکہ دراصل مرید و مرشد کی یہی مراسلت مکتوبات کی بنیاد بنی۔
ان مکتوبات کے مطالعے سے کوئی بھی غیر جانب دار شخص یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت امام ربانی علیہ الرحمہ کس طرح ایک روحانی شخصیت کے زیر تربیت درجہ بدرجہ عروج کی منزلوں پر چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ شاید قدرت کو یہی منظور رہا ہوگا کہ دنیا جہاں آپ کی تجدید سے فیض یاب ہو، وہیں آپ کے مکتوبات آپ کی شخصیت کا قدرے راز کھولیں۔
تجدید طریقت، دراصل عہد اکبری میں اتنی ہی ضروری تھی، جتنی تجدید شریعت کیوں کہ ایک طرف جہاں علمائے سو نے بد باطن بادشاہ کے لیے دین الہی کی راہیں ہموار کیں، وہیں دوسری طرف اپنی جہالتوں کی وجہ سے شیطان کے مسخرے بن چکے فرضی صوفیوں نے بھی اسلامی روحانیت کی شکل مسخ کر کے رکھ دی تھی۔
حضرت امام ربانی علیہ الرحمہ نے ان کے مقابل حقیقی اسلامی تصوف متعارف کروایا بلکہ عملی طور پر واقعی صوفی بن کر دکھایا بلکہ اس سے بھی آگے ایسی کتنی ہی شخصیات تیار کیں، جن کی روحانیت سے آج بھی عالم اسلام فیض یاب ہو رہا ہے۔
یوں تو مکتوبات امام ربانی کی اہمیت و فضیلت اور اس کے فیوض و برکات پر دم تحریر سے اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، جس کے نقل کی یہاں گنجائش نہیں البتہ مناسب ہوگا کہ حضرت مجدد علیہ الرحمہ کی شخصیت، آپ کے علوم و معارف اور بشمول مکتوبات کے، آپ کی دیگر تصانیف کے متعلق آپ کے خلیفہ، سوانح نگار اور مشہور زمانہ کتاب "حضرات القدس” کے مصنف حضرت مولانا بدر الدین سرہندی علیہ الرحمہ (پیدائش: 1002ھ) کا وقیع تبصرہ یہاں نقل کر دیا جائے تاکہ کسی حد تک تفصیلات کی تلافی ہو سکے، لکھتے ہیں:
"واضح ہو کے مبدء فیاض سے باطن شریف آں جناب پر جو کچھ معارف و اسرار مخصوصہ وارد ہوتے تھے، ان کے چند قسمیں ہیں:
ایک قسم ایسی ہے کہ آں جناب قدس سرہ کبھی ان کو زبان فیض ترجمان پر نہ لائے اور رمز و اشارہ سے بھی کبھی ظاہر نہ کیا مثلاً تاویل مقطعات و متشابہات قرآنی کہ آں جناب پر منکشف ہوئے تھے۔
دوسری قسم وہ ہے کہ ان کا اظہار صرف اپنے صاحب زادوں سے خاص طور پر فرمایا، دوسرے اشخاص کو اس میں شریک نہیں فرمایا اور نہ ہی وہ معرض تحریر میں لائے گئے۔
تیسری قسم کے وہ معارف ہیں، جن کو آپ نے اپنے ان مریدوں سے جو محرمان راز و کاملین اصحاب تھے، بیان کیا اور ان کے اظہار کے وقت خلوت خاص ہوتی تھی اور دروازے بند کر لیے جاتے تھے اور اگر اتفاقاً کوئی اور شخص آ جاتا تو سکوت اختیار فرماتے اور روئے سخن بدل دیتے اور بقیہ اسرار کو اور کسی وقت بیان فرماتے تھے۔ یہ معارف حتی الامکان تحریر نہیں کیے جاتے تھے مگر جب کوئی محرم راز التماس کرتا تو بلحاظ اجابت سوال ایسے طریقے سے تحریر فرماتے کہ ہر کوئی شخص اس کا ادراک نہ کر سکے۔
چوتھی قسم یہ ہے کہ بالتماس سائل یا بنیت افادہ طالبان عموماً و شمولا تحریر کیے گئے۔ رسائل و مکاتیب دفاتر ثلاثہ وافر البرکات انھی اسرار قسم چہارم پر مشتمل ہیں”۔ (مقدمہ، مترجم مکتوبات امام ربانی، از: حکیم محمد موسیٰ امرت سری، بحوالہ: حضرات القدس)
اس قدیم اور بچشم خود جانچے پرکھے تبصرے پر اس کے علاوہ کسی تبصرے کی ضرورت نہیں کہ وہ لوگ جو مکتوبات سے یکسر نا آشنا ہیں، انھیں اسی قدر سے اندازہ لگ گیا ہوگا کہ مکتوبات امام ربانی کس شان کا مجموعہ ہے۔
مولانا بدر الدین سرہندی علیہ الرحمہ اس کے بعد حضرت مجدد علیہ الرحمہ کی درج بالا قسم چہارم پر مشتمل تصانیف -جن میں مکاتیب قدسیہ بھی شامل ہیں- کی علو شان اور جامعیت کا یوں نقشہ کھینچتے ہیں:
بلحاظ مطالب کی باریکیوں اور عبارتوں کے دقائق اور اسرار کی تحقیق اور حالات و اشارات کی تدقیق کے، آں جناب قدس سرہ کے علو شان اور رفعت مکان و بلندی مراتب پر کرامت ساطعہ اور آیت قاطعہ ہیں۔ کشف حقائق الٰہی میں جو کچھ باریکیاں اور نازک بیانیاں آں جناب قدس سرہٗ نے کی ہیں، اکابر علما و مشائخ، اس کے شیفتہ ہیں۔ اور جو کچھ دقائق متعلق بہ حضرات خمس اور توحید وجودی و شہودی اور مشاہدہ و مکاشفہ اور ایقان و ایمان، غیب و بیان، اطوار سبعہ و ظہور انوار مختلفہ و تجلیات متکیفہ و غیر متکیفہ و جمع بین التشبیہ و التنزیہ، و تنزیہ صرفہ اور خفا باقی اطلاق و محال تعینات و تجلی برقی و دوامی و معاملہ ورائے تجلی، سکر و صحو و علوم وراثت و غیر وراثت اور ولایت کی قسموں کی تحقیق یعنی صغریٰ و کبری و علیا و مقام نبوت و رسالت و صدیقیت و قربت وتدلی وتدنی و محبت وخلت اور درجات سبعہ متابعت وحد صباحت وملاحت و جمع درمیان ہر دو اور سیر آفاقی و انفسی اور سیر ماورا آفاق و انفس میں آں جناب نے بیان فرمائے ہیں، وہ عقل مندوں پہ ظاہر و ہویدا ہیں۔ صرف یہی علوم و معارف جو تحریر فرمائے گئے، وہ علو مقال، فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے مرتبہ اعجاز میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ ابنائے روزگار اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں — جب خلوت میں زبان الہام ترجمان سے بیان کرتے تھے تو اور ہی حال وارد ہوتا تھا۔ گویا مرقومات قال ہیں اور ملفوظات حال و بیان معرفت ہیں اور یہ القائے نسبت و اعطائے نعمت ہیں۔ (ایضا)
کیا ہمارے عہد کا بھارت ہم سے اس بات کا مطالبہ نہیں کرتا کہ ہم کبھی شریعت و طریقت کے احیا اور کبھی مومنانہ ہمت و فراست کے لیے مکتوبات جیسی کتابوں کو حرز جاں بنائیں اور یہ ناپنے کی کوشش کریں کہ ہمارے اسلاف نے کس پا مردی سے اسلام ہم تک پہنچایا اور کیا ہمارا چشمہ ٹھیک وہی نہیں ہونا چاہیے، جو کسی قلندر کا یوں تھا:

حاضِر ہُوا میں شیخِ مجدّدؒ کی لحَد پر
وہ خاک کہِ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھُکی جس کی جہاں گیر کے آگے
جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار

وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں مری بِینا ہیں، و لیکن نہیں بیدار

آئی یہ صدا سلسلۂ فقر ہُوا بند
ہیں اہلِ نظر کِشورِ پنجاب سے بیزار

عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خِطّہ کہ جس میں
پیدا کُلَہِ فقر سے ہو طُّرۂ دستار

باقی کُلَہِ فقر سے تھا ولولۂ حق
طُرّوں نے چڑھایا نشۂ خدمتِ سرکار۔ (اقبال)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے