مقامات مقدسہ

رحمتوں کے دیس میں !!

(سفر نامہ حرمین)

تحریر : غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

کچھ تاریخیں انسان کی زندگی میں یادگار کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے پیدائش کی تاریخ، شادی کی تاریخ، مکان خریدنے یا نئے مکان میں داخل ہونے کی تاریخ یا اس جیسے دیگر اہم مواقع، انسانی زندگی میں ہمیشہ یاد رہ جانے والے لمحات ہوا کرتے ہیں۔ہماری زندگی میں بھی ایسی کئی تاریخیں آئی ہیں جن کا تصور آج بھی دل میں ٹھنڈک اور مٹھاس پیدا کر دیتا ہے۔ایسی ہی ایک تاریخ امسال بھی آئی جب بارگاہ ایزدی سے زیارت حرمین شریفین کا بلاوا آیا۔مؤرخہ 20 محرم الحرام 1446ھ/ 27 جولائی 2024 بروز ہفتہ حرمین شریفین کے لیے نکلنا طے پایا۔بیس محرم کی صبح تقریباً چار بجے بیدار ہوئے۔یہ بے داری بھی بس علامتی ہی تھی ورنہ نیند آئی ہی کہاں تھی، لوگ کہتے ہیں کہ غم کی رات نیند نہیں آتی اور خوشی کی رات سوتا کون ہے، بس اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ:

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کے سو گئی

رات بارہ بجے تک دوست و احباب سے ملنا ملانا چلتا رہا، پیکنگ نے مزید گھنٹے بھر سے زائد وقت لیا، اس طرح بستر تک پہنچتے پہنچتے دو بج چکے تھے۔جسم بستر پر تھا اور خیالات مکہ مکرمہ کی پر نور وادیوں میں گشت کرتے رہے۔خیر چار بجے بستر چھوڑا۔غسل کیا اور نماز کے لیے گھر سے باہر آگیا۔موسم خاصا خوش گوار تھا۔مسلسل بارش کی بدولت ہوا میں ہلکی ہلکی ٹھنڈک سی اتر آئی تھی جو آہستہ سے جسم اور دل دونوں کو راحت پہنچا رہی تھی۔یوں بھی صبح رامنگر کی شادابی اور ٹھنڈی شام کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

_اس بار ہماری نصف بہتر شریک سفر نہیں تھی، اس لیے امیدوں کے عین مطابق آنسو بھری آنکھوں سے سامنا تھا۔ازدواجی رشتوں کی یہ محبت بھی مثالی ہوتی ہے کہ ایک فرد جدا ہوا تو دوسرے کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔چھوٹی بہن نے بھی آنکھوں میں فطری محبت کے ساتھ کندھے سے سر لگا کر اَمّی جان کے نہ ہونے کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔جو ایک تکلیف کی وجہ سے آنے سے قاصر تھیں۔رشتوں کی یہ گرماہٹیں بھی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوا کرتی ہیں۔پروردگار سب کو اس دولت سے مالامال رکھے۔
جامع مسجد کے صحن میں شہر کے علما و ائمہ خصوصاً مفتی سلیم مصباحی، مفتی اکبر علی منظری، مولانا عارف نعیمی، قاری صدام حسین، حافظ مظفر حسین رضوی، قاری گل شیر احمد، قاری عبید رضا، قاری محمد ناظم، حافظ شاداب رضا، ڈاکٹر قیام الدین، قرب وجوار کے دیگر محبین ومعتقدین اور ہمارے طلبہ جمع تھے۔پہنچتے ہی حمد ونعت کا آغاز ہوگیا۔یوں تو دل پہلے ہی زیارت مدینہ کا مشتاق تھا نعت خوانی نے جذبات مزید دو آتشہ کر دئے۔کبھی کبھی بعض اشعار اور بعض آوازیں طبیعت کو بے چین و بے قرار کر دیتی ہیں۔اسی روحانی ماحول میں سبھی حاضرین کو مصافحہ معانقہ کے بعد سلام رخصت کیا اور قافلہ وطن ثانی دہلی کی جانب روانہ ہوگیا، اس امید کے ساتھ کہ؛

ہو جاتے ہیں خود رستے ہموار مدینے کے
بلواتے ہیں جب شاہ ابرار مدینے کے

__کہنے کو فلائٹ رات کو تھی لیکن اہل ہنود کے مذہبی تہوار "کانوڑ یاترا” کی وجہ سے وقت سے پہلے نکلنا مجبوری تھی۔کانوڑ یاترا ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے، جو ساون کے مہینے میں خصوصاً اور اب سیاسی مفادات کی بنا پر سال میں جب چاہیں تب چلتا رہتا ہے۔اس تہوار میں ہندو عوام کاندھے پر کانوڑ رکھ کر پیدل یا موٹر گاڑیوں کے ذریعے ہری دوار(Haridwar) نامی شہر کا سفر کرتے ہیں۔جہاں گنگا ندی سے اپنے برتنوں میں پانی بھر کر مقامی شِوالوں میں اپنے بھگوان شِو(shiva) کی مورتی پر چڑھاتے ہیں۔یہ یاترا ویسے تو بھارت میں صدیوں سے جاری ہے لیکن مرکز اور /یوپی، اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت سازی کے بعد اس تہوار کو سرکاری سرپرستی میں مسلسل بڑھاوا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اب کانوڑ یاترا ایک بہت بڑا تہوار بنا دی گئی ہے۔اس یاترا کی وجہ سے ساون کے پورے مہینے دہلی، دہرادون ہائی وے اور مرادآباد، گڑھ مکتیشور ہائی وے کو ہفتے کے تین دن one way اور پیر (سوموار) کو پوری طرح بند کر دیا جاتا ہے۔سارا ٹریفک دوسرے شہروں کی جانب ڈائی ورٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ کانوڑیوں کو چلنے میں کسی طرح کی کوئی دقت و پریشانی نہ ہو۔مزید روڈ کے دونوں کناروں پر ان کے آرام کے لیے بڑے بڑے کیمپ، کھانے کے بھنڈارے اور نہانے دھونے کے وافر انتظام کئے جاتے ہیں۔
خدشات کے عین مطابق ہمیں بھی تین مقامات پر ڈائی ورٹ کیا گیا۔پہلے مرادآباد سے سنبھل کی جانب موڑا گیا۔یہاں سے حسن پور کا راستہ پکڑ لیا۔حسن پور سے مفتی فرمان برکاتی صاحب کو شریک سفر کرنا تھا۔ان تک پہنچنے کے لیے بھی ہلکی پھلکی مشقت کرنا پڑی لیکن خیر سے حسن پور پہنچ ہی گیے۔انہیں ساتھ لیا اور گجرولہ کے راستے پر گاڑی ڈال دی۔ذرا سا آگے بڑھے تھے کہ چوراہے پر تعینات پولیس والے نے گاڑی کو دوسری جانب مڑ جانے کا اشارہ کیا۔مولانا فرمان صاحب،کافی وقت سے دھوپ اور بھاگ دوڑ میں تھے سو پولیس والے سے الجھ پڑے، ہم اے سی میں چلے آرہے تھے سو انہیں سنبھالا اور ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی کا رخ تبدیل کرا دیا۔اب گاڑی ایک ایک غیر معروف راستے پر تھی۔تنگ گلیوں، کچے راستوں کے بعد بالآخر ٹھیک ٹھاک سا راستہ مل ہی گیا۔خدا خدا کرکے ہندوؤں کے مذہبی مقام گڈھ مکتیشور (Garh mukteshwar) سے دور نکلنے میں کامیاب رہے اور نیشنل ہائی وے پر پہنچ ہی گیے۔

_ایئرپورٹ پر اچھی خاصی بھیڑ بھاڑ تھی۔یوں بھی ہمارے یہاں اگر ایک شخص حرمین یا پردیس کو جاتا ہے تو اسے وداع کرنے کم از کم آٹھ دس لوگ پہنچتے ہیں۔معاملہ حج کا ہو تو یہ گنتی چالیس پچاس تک جا پہنچتی ہے۔اس کے پیچھے مسافر سے محبت کے ساتھ ساتھ دہلی دیکھنے کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔واپس ہونے کے بعد جامع مسجد کی سیڑھیوں اور قطب مینار کی لمبائی کے سوال پوچھ کر جانے والے افراد نہ جانے والوں کو چِڑھا کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
سیکورٹی لائن میں مغربی لباس میں ملبوس ایک فیملی ہمارے قریب ہی تھی۔میاں بیوی اور دو بیٹیاں تھیں۔اچانک مرد میرے قریب آیا اور کہا:

Are you going to Makkah ?

میرے ہاں کہتے ہی اس نے بڑے شوق کے ساتھ سلام کیا اور کہا:

pray for us

یہ کہتے ہوئے اس شخص کی آنکھوں میں عقیدت کے رنگ صاف دکھائی دے رہے تھے۔استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ رہتے ہیں اور وہیں جارہے ہیں۔انہوں نے اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کو بھی سلام ودعا کے لیے کہا، جس پر انہوں نے بھی سلام کیا اور دعا کی گزارش کی۔اندازہ ہوا کہ لباس ایک حد تک کچھ چیزوں کی علامت ضرور ہوتا ہے لیکن اصل چیز مومن کا جذبہ ہوتا ہے جو کپڑوں کا محتاج نہیں ہوتا اور جذبات کپڑوں سے نہیں دل سے سمجھے جاتے ہیں۔

گرمی شدت جذبات بتا دیتا ہے
دل تو بھولی ہوئی ہر بات بتا دیتا ہے

(جاری)

29 صفر المظفر 1446ھ
4 ستمبر 2024 بروز بدھ

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے