- سفر نامہ حرمین (قسط دوم)
ازقلم: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
_کہنے کو ہوائی سفر کلفت اور مشقت سے بچاتا ہے لیکن سفر شروع کرنے سے پہلے سامان کی سپردگی اور حفاظتی تام جھام کبھی کبھی اتنا پریشان کرنے والا ہوتا ہے کہ جو تھکاوٹ سفر میں آتی وہ پہلے ہی گلے پڑ جاتی ہے۔اس بار ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ایک گھنٹے سے زیادہ وقت میں حفاظتی تکلفات مکمل ہوئے۔بعدہ مطلوبہ گیٹ کی جانب رخ کیا۔جو اچھی خاصی دوری پر تھا۔یوں بھی دہلی کا اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ دنیا کے چند بڑے اور وسیع و عریض ائیر پورٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔یہاں سے سالانہ چار کروڑ ساٹھ لوگ آمد و رفت کرتے ہیں۔اس کا رقبہ لگ بھگ پانچ ہزار ایکڑ وسیع زمین پر مشتمل ہے۔سال 2011 میں ایئرپورٹ کاؤنسل انٹرنیشنل کی جانب سے عالمی سطح پر اسے دوسرا مقام حاصل ہوا تھا۔پورا ائیر پورٹ کمرشل آؤٹ لیٹ/کمپلیکس اور دکانوں سے سجا ہوا ہے۔دنیا بھر کی نامی گرامی کمپنیوں کے اسٹال اور قرینے سے سجے ہوئے ساز وسامان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم ہوائی اڈے پر نہ ہو کر کسی بین الاقوامی منڈی میں آگیے ہیں۔کمرشل چکا چوند کے بیچ درمیانی نوعیت کا عبادت خانہ ائرپورٹ اتھارٹی کا قابل ستائش اقدام ہے۔جہاں مرد وخواتین کے لیے الگ الگ حصہ مختص ہے۔اندر ہی چھوٹا سا وضو خانہ ہے۔وضو خانہ کے ٹھیک بغل میں طہارت خانہ بھی ہے۔اس طرح نماز و طہارت کا لیے معقول انتظام ہے۔یہاں پہنچ کر ہم نے وضو کیا، احرام باندھا اور جماعت کے ساتھ نماز عصرادا کی۔
____جو لوگ پہلی مرتبہ عمرے کو جاتے ہیں انہیں احرام کا تہبند باندھنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔کیوں کہ اب لوگوں میں تہبند باندھنے کا چلن برائے نام رہ گیا ہے۔(جنوبی ہند والے مستثنیٰ ہیں) زیادہ تر لوگ Lower پہننے ہی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔پینٹ اور لوور میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا، اصلاً دونوں کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے، ناک نقشے کا معمولی سا فرق پایا جاتا ہے۔دونوں میں سب کچھ سیٹ ہوتا ہے، بس بندے کو اس میں داخل ہونا ہوتا ہے، لیکن جنابِ تہبند کا اپنا ایک وقار ہے، اس میں داخل نہیں ہوا جاتا بل کہ احترام اور مہارت کے ساتھ زیب تن کرنا پڑتا ہے، اور یہاں آکر بڑے بڑے لوگ مشکل میں پڑ جاتے ہیں، کوشش کے باوجود احرام کا تہبند باندھ نہیں پاتے۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں مولوی حضرات بڑے فخریہ انداز میں تہبند زیب تن کرتے ہیں اور دوسروں کو باندھے کی اسکل بھی بتاتے ہیں؛
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
تہبند پہننے کو بھی ہنر چاہیے
(میر صاحب سے معذرت کے ساتھ)
ایسے مقام پر دشواری تب آتی ہے جب کچھ سَجّن قسم کے لوگ یہ مطالبہ کر بیٹھتے ہیں؛ حضرت آپ ہی باندھ دو! اب بتائیں، نیچے بندے نے کچھ پہنا نہ ہو، ایسے میں اسے تہبند پہنانا کس قدر پر خطر کام ہے۔اس لیے ایسوں سے لہجہ استادی ہی میں کام لیا جائے تبھی خطرات سے حفاظت ممکن ہے، لیکن پھر بھی رسک اٹھا کر کچھ نہ کچھ مدد کرنا پڑ ہی جاتی ہے۔
فلائٹ میں ابھی وقت تھا اس لیے نماز مغرب کا انتظار کیا۔وقت مقررہ پر مفتی فرمان صاحب نے اذان دی اور فقیر نے امامت کا فریضہ انجام دیا۔باہر نکلے تو ماشاء اللہ سفید لباس میں ملبوس لوگوں کی موجودگی سے ائرپورٹ پر ایک الگ ہی نظارہ تھا۔غیر مسلم مسافروں کی نگاہیں پلٹ پلٹ کر زائرین عمرہ کو دیکھتی ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے پوچھنا چاہتے ہوں کہ آخر سبھی لوگ عمدہ لباس اتار کر اتنا سادہ لباس کیوں پہن لیتے ہیں؟ کچھ لوگ جھجک کی وجہ سے نہیں پوچھ پاتے، تو کچھ لوگوں کے دل ودماغ میں موجود تعصب پوچھنے نہیں دیتا، لیکن کچھ لوگ پوچھ ہی بیٹھتے ہیں، ایک صاحب نے پوچھ ہی لیا تو انہیں نرم لہجے میں بس اتنا بتایا:
🔸یہ لباس اللہ کے محبوب پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے۔ان کا سادہ لباس خدا کو اتنا پسند آیا کہ رب کریم نے اپنے گھر آنے والے زائرین کو پابند کر دیا کہ وہ بھی اسی لباس کو پہن کر آئیں جو میرے پیارے پیغمبر نے پہنا تھا۔
🔹چمکیلا اور رنگ برنگا لباس انسانی ذہن کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔زائرین عمرہ اپنی من مرضی کے لباس میں رہیں تو انسانی فطرت کے مطابق ذہن ادھر، ادھر متوجہ ہوگا، جب کہ اس اہم عبادت کا تقاضا ہے کہ ساری توجہ پروردگار کی جانب رہے، کپڑوں کی جانب نہیں۔
🔸زائرین حج و عمرہ میں امیر وغریب سبھی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔اگر سبھی لوگ من پسند کپڑوں میں رہیں تو ان کا فرق کپڑوں سے ظاہر ہوگا، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے دیار میں کپڑوں کی بنیاد پر امیر وغریب کے درمیان کوئی فرق نظر آئے اس لیے اس کریم رب نے اپنے ہر بندے کو ایک جیسے کپڑوں اور رنگ میں رنگ دیا تاکہ سب اس کے بندے نظر آئیں کوئی امیر/وزیر/سیٹھ/ساہوکار نظر نہ آئے۔
🔹سفید رنگ سادگی اور بھلائی کا رنگ ہے۔پہننے والا چاہے جیسا ہو، اسے پہن کر اچھا دکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی منشا ہے کہ اس کے بندے اس کے گھر میں حاضر ہوں تو اچھے اور بھلے نظر آئیں۔
اس طرح بندہ مکمل طور پر اللہ کے رنگ میں رنگ کر صرف اپنے رب کی جانب ہی متوجہ ہوتا ہے۔بس اسی کو یاد کرتا ہے:
روح میں، تن میں، رگ و پے میں اتاروں تجھ کو
اور پھر دل کی صدا بن کے پکاروں تجھ کو
_فلائٹ لگ چکی تھی، سب لوگ آہستہ آہستہ جہاز میں سوار ہو گیے۔ہماری بغل میں موجود صاحب بھی زائر حرم تھے اور بڑے غصے میں تھے۔پوچھنے پر بتایا کہ انہیں مکہ جانا تھا، احرام باندھ کر بیٹھے تھے کہ ایجنٹ کا فون آیا کہ آپ جدہ سے مکہ نہیں مدینہ آئیں گے، لہذا احرام اتار دو۔کسی بھی شخص کے لیے پہلی مرتبہ احرام پہننا اور عمرہ کیے بغیر اتارنا تکلیف دہ احساس ہوتا ہے، جس کا غصہ موصوف کے چہرے نمایاں تھا۔کہہ رہے تھے کہ ملنے پر سب سے پہلے ایجنٹ کو بری بھلی سناؤں گا اور گھر واپسی پر طبیعت بھی صاف کروں گا۔انہیں سمجھایا کہ مقدس سفر پر ہیں، پاک سرزمین پر پہنچیں گے اس لیے بس بھلی سنانا، بری نہیں اور طبیعت صاف مت کرنا، معاف کر دینا۔کبھی کبھار لاپرواہی یا ہوٹل بکنگ میں دشواری کی بنا پر زائرین کو ادھر سے ادھر کرنا پڑ جاتا ہے۔
سعودی ائیرلائن میں سعودی جھنڈے اور کچھ حد تک ائیر ہوسٹس کی ٹوپی چھوڑ کر کچھ اور خوبیاں تلاشنے کے لیے بڑی محنت درکار ہوتی ہے۔مفتی فرمان صاحب نے سیٹ سے وابستہ اسکرین کو آن کیا اور کہا حضرت اس کی میموری میں تو انڈین/امریکن فلمیں بھی بھری ہوئی ہیں۔اس پر میں نے صرف اتنا ہی کہا کہ جن لوگوں نے سرزمین عرب پر سنیما ہال/شراب خانے/جوا خانے کھول دئے ہیں ان کی ائیر بسوں میں فلمیں ہونا ہرگز حیرت کی بات نہیں ہے۔ہاں سفر حج وعمرہ کی جہت سے دیکھا جائے تو کسی مسلم ملک کی فلائٹ میں یہ چیز یقیناً قابل مذمت ہے۔کم از کم مقدس سفر والی ایئر لائنز کے پروگرام تو تبدیل کیے ہی جا سکتے ہیں۔یہاں حامیان سعود کا یہ عذر بے سود ہوگا کہ اس پروگرام میں قرآنی تلاوت بھی فیڈ ہوتی ہے،مسافر کا اپنا اختیار ہے، تو جناب محترم آپ مسافروں کو وہ چیز فراہم ہی کیوں کرتے ہیں جو سفر کے تقدس اور پاکیزگی کے خلاف ہو، زائرین کو فتنے میں مبتلا کر سکتی ہو؟
__ہوائی میزبانوں کی بھیڑ میں ایک میزبان خاتون کی آواز اور انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ موصوفہ یا تو گھر سے لڑ کر آئی ہیں یا مسافروں کو انہوں نے افراد خانہ سمجھ لیا ہے۔سیٹ بیلٹ ہو یا پانی طلب کرنا وہ لگاتار مسافروں سے ایک بہن یا بیٹی کے انداز میں تکرار بھی کر رہی تھیں اور ان کی مدد بھی۔اسے موصوفہ کا جذبہ دینی ہی کہا جائے گا کہ مسافروں کو تلبیہ کی تاکید کے ساتھ خود سے سکھا بھی رہی تھیں۔ان سے نوک جھونک اور تکرار کرنے والوں میں بوڑھے جوان سبھی شامل تھے۔ہندوستانی زائرین میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے جو پہلے تو تکلف برتتے ہیں لیکن ایک بار تکلف دور ہوگیا تو سراپا تکلیف بن جاتے ہیں۔جس کا نظارہ یہاں بھی کئی بار کیا،خیر سے جہاز نے اڑان بھری، اڑان سے پہلے اسلامی ٹچ کے طور پر سفر کی دعا سیٹ اسکرین اور فلائٹ مائک دونوں پر پیش کی گئی جو بہر حال اچھا لگنے والا کام تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے لوہے کا ٹکڑا، پرندوں کی طاقت ورفتار کو مات دے کر آسمان چھونے کی کوشش کر رہا تھا۔ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہمارا جہاز جدہ کے کنگ عبدالعزیز انٹر نیشنل ہوائی اڈے پر اتر چکا تھا۔اس طرح ہم ہندی مسافروں کا قافلہ سرزمین ہند سے ارض مقدس پر اتر گیا۔
(جاری)
5 ربیع الاول 1446ھ
9 ستمبر 2024 بروز پیر