نتیجۂ فکر:عالمگیر عاصم فیضی
مجھ کو یقیں ہے آئے گی امید بر کبھی
دیکھوں گا میں بھی روضۂ خیر البشر کبھی
ہٹتی نہ مجھ سے چاند کی رشکی نظر کبھی
بن جاتا سنگ راہ میں ان کا اگر کبھی
بن جاؤں رشک مہر و مہ و نجم آسماں
"ہوجائے مصطفیٰ کی زیارت اگر کبھی”
آقا کی انگلیوں کے اشارے کا تھا کمال
ہوتا اِدھر ہلال تو ہوتا اُدھر کبھی
سوچا کہ وصف شاہ مدینہ لکھوں مگر
ساکت زباںہے محوتحیر ہے درک بھی
ماں کی دعائیں اس لئے لیتا ہوں ہر گھڑی
ہوتی نہیں ہے ماں کی دعا بے اثر کبھی
پہنچیں گے ہم بھی روضۂ سرور پہ ایک دن
دے گی ہماری شاخ طلب بھی ثمر کبھی
چہرے پہ مل لے غازۂ خاک در رسول
آنکھیں ملا نہ پائے گا تجھ سے قمر کبھی
من کی مرادیں پائے گا روضے پہ ان کے جا
خالی نہیں پھراتے شہ بحر و بر کبھی
ہوتا ہے منسلک جو دیار رسول سے
پھرتا نہیں جہان میں وہ در بدر کبھی
عاصم تھا رعب ایسا رخ نور بار پر
ان کو کسی نے دیکھا نہیں بھر نظر کبھ