نتیجۂ فکر: سید اولاد رسول قدسی
نیویارک امریکہ
سنگ شیشے سے مل کر ہوا باغ باغ
چشم حیرت ہوئی پر ضیا باغ باغ
بے رخی کی نظر سے ملا کر نظر
ہو گئی میری طرز وفا باغ باغ
کیسے پہنچے کوئی اس کی تہہ تک بھلا
اوڑھ کر ہے جو غم کی ردا باغ باغ
میں تو غلطاں تھا سوچوں کی پاتال میں
یک بیک کر گئی اک صدا باغ باغ
اس کے قدموں کی آہٹ کے سرتال پر
ہوگئی باغ دل کی ہوا باغ باغ
تھی نظر جس کی چاہت کے زیر نگیں
کیسے کرتی نہ اس کی ادا باغ باغ
جانے کیا خاص پیغام لائی ہے یہ
آج لگتی ہے باد صبا باغ باغ
دست جور و جفا کی حوالات میں
رہ نہ پائے گا رنگ حنا باغ باغ
پیکر رشک قدسیؔ ہے اس کی حیات
آیا روتا ہوا اور گیا باغ باغ