تحقیق و ترجمہ تنقید و تبصرہ

میلاد اکبر ، موضوع روایات، مقامات احتیاط اور کفریہ اشعار

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ

ایک لمبےزمانے سے خصوصاً دیہات اور قصبوں میں ہونے والی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل میں پڑھی جانے والی میلادیں، میلاد اکبر اور میلاد گوہر شامل ہیں – ان کی اہمیت اس قدر ہے کہ کوئی بھی محفل ان میلادی کتابوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، ہم بچپن سے انھیں میلادوں کو سنتے آئے ہیں اور انکا لطف اس وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب چند خواتین مل کر پڑھتی ہیں – میلاد اکبر کی حمد تو اتنی مشہور ہے کہ خواتین ہی نہیں مَردوں کو بھی قریب قریب یاد ہوتی ہے اور جب پوری محفل میں توحید باری کا شور گونجتا ہے تو خود بخود منھ توصیف باری میں کھل جاتا ہے –
میلاد اکبر کی مشہور زمانہ حمد بچوں کو پانچ چھ سال کی عمر میں ہی یاد ہوجاتی تھی، وجہ، کثرت سے مولود مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کا ہونا تھا، آپ بھی اپنے بچپن کو یاد کیجیے مجھے لگتا ہے کہ اس حمد باری تعالیٰ کے چند اشعار آپ کو آج بھی یاد ہوں گے –

کس سے توحید کبریا ہو رقم
سر قلم ہیں یہاں قلم کے قلم
فرش سے تا بَعالم بالا
غُل ہے سبحان ربی الاعلی
روح قالب میں ڈالنے والا
دامِ غم سے نکالنے والا
بیٹھو آکر یہاں ادب کے ساتھ
دل لگاؤ شہ عرب کے ساتھ
غمزدوں کا ولی غریب کا یار
سب کا بگڑی اَڑی میں کِھیون ہار
خلق کرنے لگی جو بے ادبی
بھیجا اس نے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم)
نور حق سے جہاں ہوا معمور
ظلمت کفر ہو گئی کافور
رشتئہ عشق حق سے جوڑ دیا
کلمہ پڑھ کر بتوں کو توڑ دیا……..

بہت سی میلاد کی کتب وجود میں آئیں لیکن میلاد اکبر اور گوہر (میلاد گوہر پر بھی ایک مضمون الگ سے ہوگا، ان شاء اللہ) کی جگہ نہ لے سکیں، آج بھی یہ کتابیں ہر محفل کی زینت بنی ہوئی ہیں –
خیر! اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، اس کتاب کی مقبولیت تو آپ جانتے ہی ہیں ، تین چار سال قبل جب اس کتاب کو پڑھایا تو اس پر کچھ لکھنا ضروری سمجھا، لیکن بات آئی گئی ہو گئی، ابھی چند روز قبل اس میلاد کا تذکرہ گھر میں پھر چھڑا، تو سوچا اب اس میں موجود مشمولات پر لوگوں کی آگاہی کے لیے لکھنا چاہیے، اور آپ کے سامنے یہ مضمون حاضر ہے، کوشش کریں کہ یہ مضمون خواتین معلمات، طالبات اور عام گھریلو خواتین تک ضرور پہنچائیں اور جن اشعار یا واقعات کی نشان دہی کی جارہی ہے ان کے پڑھنے سے ہماری بہنوں کو روکا جائے –

کچھ صاحب کتاب کے بارے میں

اصلی نام :محمد اکبر خاں

پیدائش :میرٹھ, اتر پردیش

وفات 1 مئی 1953

اکبر وارثی میرٹھی اردو زبان کے ممتاز نعت گو شاعر گزرے ہیں ، اکبر وارثی بجولی ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آپ اردو کے علاوہ عربی و فارسی کے بھی عالم تھے۔ ان کی نعتیں سلاست، روانی، بندش ، صفائی، سادگی اور شیرینی میں آپ اپنی مثال ہیں۔ آپ کی نعتیں تکلف اور تصنع سے پاک ہیں۔ آپ کے نعتیہ کلام "میلاد اکبر” کو بہت مقبولیت حاصل تھی۔ اکبر وارثی حضرت حاجی سید وارث علی شاہ (علیہ الرحمہ) سے بیعت تھے۔ اکبر کی شاعری میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت "میلاد اکبر” کو ملی۔ اس میلاد نامے کا آغاز حمد سے ہوتا ہے……. بعدہ ولادت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)……. اکبر وارثی کا حلقہ تلامذہ وسیع تھا۔ آپ کے شاگردوں میں شاہنامہ اسلام اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی ہیں۔ اکبر وارثی کا زمانہ، اکبر الہ آبادی اور شاہ اکبر داناپوری کا زمانہ تھا۔ یہ تینوں ہمنام شعرا اپنے عہد کے نامور شعرا میں سے تھے۔ اکبر وارثی نے 6 رمضان 1372ھ بمطابق 20 مئی 1953ء بروز بدھ کو لیاقت آباد کراچی میں وفات پائی اور میوہ شاہ قبرستان لیاری میں دفن ہوئے۔ بحوالہ (ریختہ)

کچھ اشعار جن میں شائبہ کفر جھلکتا ہے

میلاد اکبر میں پیدائش نوری محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں تمہید میں یہ عبارت اور شعر درج ہے ” جب اس معشوق حقیقی نے جو بہت سے بے نام و نشان حجابوں میں پردہ نشیں اور بے انتہا عدم نما پردوں میں حجلہ گزیں تھا نے ارادہ کیا کہ کوئی ایسا آئینہ ہوکہ جس میں اپنے حسن و جمال و قدرت کے گونا گوں جلوے اور کمال و عظمت کے بو قلموں کرشمے دیکھے تو اس وقت یہ نورانی خیال بشکل آئینہ رو برو ہوا "-

آئینہ ذات حق نے رکھا رُو برو
تو اُسی شکل کا دوسرا ہو گیا
عکس ذات الہی تھا آئینہ میں
نام اُسی عکس کا مصطفے ہو گیا

مذکورہ رباعی پڑھتے ہوئے ذہن اس بات کی جانب متوجہ ہوتا ہے کہ اللہ و رسول دو علاحدہ ذاتیں نہیں ہیں بل کہ خدا ہی مصطفے ہے اور مصطفے جان رحمت ہی خدا ہیں دنیا میں خدا نے اپنے آپ کو کچھ پردوں میں اتار دیا ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں ایک مقام پر مندرجہ ذیل شعر اس کی تائید کرتا ہوا نظر آرہا ہے –

بشر کی شکل میں آیا تکلف کی ضرورت تھی
احد سے ہوگیا احمد جو باندھا میم کا پٹکا
(میلاد اکبر)

اس شعر میں اہل ہنود کی طرح” اوتار” کا تصور دیا گیا ہے، جو کہ مذہب اسلام کی روح کے خلاف ہے، اس شعر سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا و رسول دونوں ایک ہی ہیں – مسلمانوں کے لئے یہ عقیدہ کسی بھی جہت سے درست نہیں،اگر ایسے اشعار اعتقاد کے ساتھ پڑھے جائیں تو ہمارے ایمان کا طوطا اڑا لے جانے کے لیے کافی ہیں –

واقعہ معراج سے مذکورہ اشعار کی تائید

انھیں اشعار کی تائید کرتی ہوئی واقعہ معراج کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں –
…. ” پھر ارشاد الہی ہوا کہ محبوب آؤ تمہیں اپنی سلطنت کا دُولھا دکھلائیں اور مکان عالی شان دکھایا، شہ نشین پر پردہ پڑا تھا۔ جب حجاب اُٹھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں خود حضور پر نور کی شبیہ جلوہ افروز ہے، سبحان اللہ –

———————— رباعی – – – – – – – – – – –
ہے ایک مکان اور ایک مکیں تو اور نہیں، میں اور نہیں
پھر کیوں نہ ہو دل میں صاف یقیں تو اور نہیں، میں اور نہیں

اب چھپنے سے ہوتا ہے کیا؟ پہچان لیا، پہچان لیا
بس دھوکا نہ دے او پر دہ نشیں، تو اور نہیں، میں اور نہیں۔
(میلاد اکبر صفحہ 75)

مذکورہ بالا اشعار میں اگر تاویلات کی گنجائش تھی بھی تو مجھے لگتا ہے کہ مذکورہ عبارت اور اس رباعی کے بعد تاویلات کی گنجائش نہیں رہ جاتی، یہاں صاف طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہی عرش پر بھی جلوہ افروز ہے اور دنیا میں بھی، یعنی خدا ہی محمد ہے یا محمد عربی ہی خدا ہیں، یہ تصور اہل ہنود کے تصور "اوتار” سے جدا نہیں –
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہاں دھوکے کی نسبت اللہ رب العزت کی جانب کی جارہی ہے، "اب دھوکا نہ دے او پردہ نشیں” سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ ہمیں دھوکا دے رہا ہے ورنہ دونوں ذاتیں ایک ہی ہیں اور یہ صریح کفر ہے –
اسی طرح صفحہ نمبر 51 میں قصیدے کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں

اندھوں کو نظر آئیں پھر احمد کے کل انداز ، کھل جائیں یہ سب راز
دم بھر کے لیے میم کا پردہ جو اٹھا لے، اے گیسوؤں والے
اس شعر سے بھی مذکورہ بالا تصور پیدا ہوتا ہے –

نعلین پہن کر عرش پر جانے والی روایت کا ذکر

لکھتے ہیں "جب حضور عرش کے قریب پہنچے حکم ہوا کہ اے میرے محبوب آگے آؤ۔ اس وقت حضور نے چاہا نعلین پائے مبارک سے اُتاریں ۔ عرش ہلنے لگا۔ حکم ہوا کہ حبیب میرے نعلین نہ اتارو بلکہ پہنے چلے آؤ کہ عرش قرار پکڑے ۔ حضور نے عرض کیا کہ خداوند حضرت موسیٰ کو حکم ہوا تھا کہ پہلے چالیس روزے رکھو اور نعلین اتار کر کوہ طور پر آؤ، پس عرش کوہ طور سے کہیں زیادہ معظم اور پر نور ہے پھر نعلین کیوں نہ اتاروں؟ ۔ خطاب آیا کہ "محبوب میرے موسیٰ کو اس واسطے نعلین اُتارنے کا حکم دیا تھا کہ خاک وادی مقدس کی اس کے پاؤں میں لگے تا کہ اس کو بزرگی حاصل ہو اور تجھ کو اس واسطے نعلین اتارنے کا حکم نہیں ہے کہ تیری نعلین کی خاک سے عرش مجید کو بزرگی حاصل ہو ۔

تو بدیں جمال و خوبی سر طور گر خرامی
ارنی بگوید آن کس که به گفت لن ترانی

دسرے یہ کہ جب میں نے عرش کو بنایا تھا تو اسے قرار نہ تھا۔ اور ہمیشہ جنبش کرتا تھا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ ایک رات ہم اپنے محبوب کو بلائیں گے اور اس کی نعلین کا گوشوارہ تجھ کو عطا فرمائیں گے تب اس کو قرار ہوا۔ اور اسی وقت سے عرش بریں نعلین کا مشتاق ہے "۔(میلاد اکبر صفحہ ٧٥)
یاد رہے کہ یہ روایت موضوع ہے –
سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا سے اس روایت کے متعلق سوال ہوتا ہے کہ "حضور سرور کائنات ﷺ کا شب معراج عرش الہی مع نعلین مبارک جانا صحیح ہے یا نہیں” ؟

مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ روایت محض باطل و موضوع ہے ( الملفوظ حصہ دوم: ص:(٩١/٩٢)
اس تعلق سے دو موضوع روایات کا ذکر ہمارے خطبا بھی کر جاتے ہیں بل کہ کچھ کتابوں میں بھی لکھا ہوا لیکن وہ بھی موضوع یعنی من گھڑت ہیں ملاحظہ فرمائیں –

سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا سے اسی قسم کی روایات کو لے کر سوال ہوا، آپ نے جو حکم فرمایا ہم وہ حکایات اور سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کے جوابات پیش کر رہے ہیں –
روایت:۔ ایک مرتبہ جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ تم وحی کہاں سے اور کس طرح لاتے ہو؟ آپ نے جوابا عرض کیا کہ ایک پردہ سے آواز آتی ہے، آپ نے دریافت فرمایا کہ کبھی تم نے پردہ اٹھا کر دیکھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری یہ مجال نہیں کہ میں پردہ کو اٹھاؤں ! آپ نے فرمایا کہ اب کی مرتبہ پردہ اٹھا کر دیکھنا، حضرت جبرئیل نے ایسا ہی کیا، کیا یکھتے ہیں کہ پردہ کے اندر خود حضور اقدس ﷺ جلوہ افروز ہیں اور عمامہ سر پر باندھے ہیں اور شیشہ سامنے رکھا ہے اور فرمارہے ہیں کہ میرے بندوں کو یہ ہدایت کرنا۔
سوال ہوا کہ یہ روایت کہاں تک صحیح ہے اگر غلط ہے تو اس کا بیان کرنے والا کس حکم کے تحت داخل ہے؟

مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں۔

یہ روایت محض جھوٹ اور کذب وافتراء ہے ، اور اس کا بیان کرنے والا ابلیس کا مسخرہ اور اگر اس کے ظاہر مضمون کا معتقد ہے تو صریح کافر، واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاوی رضویہ : ۴۴/۶) (۳)

ایک اور حکایت
سرکار علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی درمیان حضرت سیدنا جبرئیل علیہ السلام وحی لیکر خدمت رسول کریم علیہ السلام میں حاضر ہوئے سرکار علیہ الصلوۃ والسلام وعظ و نصیحت کی وجہ سے سیدنا جبرئیل علیہ السلام کی طرف متوجہ نہ ہوئے جبرئیل علیہ السلام نے کہا تعجب ہے کہ میں خدا وند قدوس کا کلام لیکر حاضر ہوا ہوں اور آپ کوئی توجہ نہیں فرمارہے ہیں اس وقت حضور اقدس ﷺ کو معلوم ہوا کہ جبرئیل علیہ السلام میری وجہ سے پریشان ہو رہے ہیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا اور پو چھا اخی! وحی تمہارے کان میں کہاں سے پہونچتی ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ عرش پر ایک حجرہ کی مثل نورانی قبہ ہے اس میں ایک سوراخ ہے وہاں سے میرے کان میں یہ آواز آتی ہے تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا آپ واپس اس قبہ کی جانب جلد جاؤ اور وہاں کی خبر مجھ تک جلد پہنچاؤ لیکن قبہ کے اندر نہ جانا، جب جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام حضور اقدس ﷺ کے فرمانے کے مطابق واپس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قبہ کے اندر خود سرکار علیہ السلام جلوہ افروز ہیں اسی وقت حضرت
جبرئیل علیہ السلام بہت جلد سرکار علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ حضور اقدس اسی جگہ اپنے اصحاب کے ساتھ وعظ و نصیحت اور درس حدیث کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں – جبرئیل علیہ السلام اس حالت سے پریشان ہو کر شرمندہ ہوئے اور کہا یا الہی مجھ سے غلطی ہو گئی میری غلطی کو معاف فرما۔

اس حکایت کے متعلق مجد داعظم، اعلی حضرت امام احمد رضا ارضاہ عنا تحریر فرماتے ہیں۔ اسکے ظاہر سے جو عوام جھال کے خیال میں آئے وہ تو صاف صاف حضور اقدس ﷺ کو معاذ اللہ خدا کہنا ہے اس کے کفر صریح ہونے میں کیا شک ہے، حضور اقدس ﷺ نے ہزاروں طرح اس کا(شرک) انسداد فرمایا ہے، مسیح علیہ السلام کی امت ان کے کمالات عالیہ دیکھ کر حد سے گزری اور ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہہ کر کافر ہوئی – ہمارے حضور سید یوم النشور کے کمالات اعلیٰ کے برابر کس کے کمال ہو سکتے ہیں جس کے کمال ہیں سب حضور ہی کے کمال کے پر تو واجلال ہیں ۔ ” من رانی فقد رای الحق” جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا تو ان تجلیوں کے سامنے کون تھا جو ” هذا ربي هذا اكبر ” نه بول اٹھتا، لہذا حضور اقدس ﷺ "بِالْمُؤْمِنِينَ رَوفٌ رَّحِيم ” کی رحمت نے اپنی امت کے حفظ ایمان کے لئے ہر آن ہر ادا سے اپنی عبدیت اور اپنے رب کی الوہیت ظاہر فرمادی ۔ کلمہ شہادت میں رسوله ” سے پہلے عبدہ رکھا کہ اس کے بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں "-

مزید لکھتے ہیں ۔ بالجملہ رسول اللہ ﷺ با اعتبار حقیقت محمد یه علیه افضل الصلاة والتحيه جس طور پر ہم نے تقریر کی اس مرتبہ اور اس سے بدرجہا زائد کے لائق ہیں۔ مگر یہ واقعہ غلط اور باطل ہے بغیر رد کے اس کا بیان حرام ہے۔ (فتاوی افریقہ صفحہ : ۵۷ تا ۶۰ ملخصا )
(بے اصل روایات تحقیقات رضا کی روشنی میں صفحہ 38)

رفض کی بو بھی محسوس کی جا سکتی ہے

یہ تو ذات باری تعالیٰ کا معاملہ تھا اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کچھ مقامات پر رافضیت و تفضیلیت کی بو بھی محسوس ہوتی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہے – حضرت مولی علی رضی اللہ عنہ کی منقبت دیکھیے –

اے بادشاہ لا فتی مولی علی مشکل کشا
ہم رازِ محبوب خدا مولا علی مشکل کشا

تلوار دی اللہ نے، دختر رسول اللہ نے
ٹھہرے” نصیری کے خدا” مولی علی مشکل کشا

فضائل مولی علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں

……کوئی حیدر کرار غیر فرار کے ڈنکے بجاتا ہے۔ کوئی لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار کی عظمت کے علم اُٹھاتا ہے ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی نائب یہی ہیں۔ مولی علی علیہ السلام کی عجیب و غریب شانیں ہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہیں۔ کہیں شیر خدا کہیں حاجت روا، کسی کے مشکل کشا ،کسی کشتی کے ناخدا، کسی "مذہب کے خدا” ہیں ۔

یہاں رباعی کے چوتھے مصرع میں مولی علی رضی اللہ کو فرقہ نصیریہ کا خدا مان کر فضیلت بتائی جارہی ہے، نیز یہ جملہ کہ” رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی نائب یہی ہیں” ۔ یہ بھی عقائد اہل سنت کے خلاف ہے – اس جملے سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ خلفائے ثلاثہ امور خلافت میں حق پر نہ تھے –
صاحب کتاب مولی علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں یہ بھی شمار کراتے ہیں کہ آپ کسی "مذہب کے خدا” ہیں ۔ یہ فضیلت نہیں بل کہ بے جا عقیدت اور عقیدہ اہل سنت سے بغاوت ہے – خدا ہونے کو کیسے فضیلت میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟

حضرت علی کو مولائے کل کہنا.

ایک مقام پر سرکار علیہ السلام کی خصوصیات شمار کراتے ہوے لکھتے ہیں…… "آپ پاک و طاہر تھے۔ بحالت غسل بھی آپ کو اور مولائے کائنات علی علیہ السلام کو مسجد میں بے تکلف آنا جانا جائز تھا۔ وہ خصوصیتیں جو” مولائے کل” علی علیہ السلام کے ساتھ حضور کو ہیں کسی اور کو نصیب نہیں – ( میلاد اکبر صفحہ 62)
اکثر مقام پر مولی علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ” علیہ السلام” کا لاحقہ موجود ہے جو کہ اہل سنت کا طریقہ نہیں، نیز یہ جملہ قابل غور ہے کہ "وہ خصوصیتیں جو” مولائے کُل” علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور کو ہیں کسی اور کو نہیں” – یہاں جملہ بر عکس استعمال کیا ہے، ہونا یہ چاہیے تھا کہ جو خصوصیات مولی علی رضی اللہ عنہ کو سرکار علیہ السلام کے ساتھ ہیں………….. ان میں سے بعض کسی اور کو نہیں، لیکن لکھا بر عکس ہے – (کیوں کہ بعض خصوصیات میں بہت سے صحابہ ایک دوسرے سے ممتاز ہیں)
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو” مولائے کُل "کہا گیا ہے یہ عقیدہ بھی اہل سنت کا نہیں ہے، مولائے کل صرف اور صرف ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں –

مذکورہ بالا سطور سے یہ واضح ہوگیا کہ میلاد اکبر میں بہت سے مقامات احتیاط ہیں لیکن ہماری بہنوں کو یہ معلوم نہیں اس لئے وہ انھیں بلا جھجھک پڑھتی ہیں، ہماری معلمات کو چاہیے کہ وہ اپنی تقاریر، دروس میں میلاد اکبر کے تعلق سے یہ چیزیں کثرت سے بیان کریں تاکہ خواتین عقیدے کی حفاظت ہو سکے –
نوٹ – مضمون میں کی قسم کی شرعی گرفت ہو تو ضرور آگاہ فرمائیں خاص کر شعرا حضرات تاویلات بعیدہ بھی ہو سکتی ہوں تو آگاہ فرمائیں، جزاک اللہ –

4/8/2024
28/1/1446

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے