تحقیق و ترجمہ تنقید و تبصرہ حدیث پاک

لطائفِ اشرفی میں درج ایک حدیث کا علمی جائزہ

تحریر : طفیل احمد مصباحی

وہاں ( دمشق ) کے تمام اکابر صوفیا ، فضلا اور فقرا اس ارشاد کے مطابق : من صلی خلف امام تقى فكانما صلى خلف امام النبی . جس نے متقی امام کے پیچھے نماز ادا کی ٬ گویا اس نے کسی نبی کی امامت میں نماز ادا کی ۔ حضرت قدوه الكبریٰ ( سرکار سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ) کی اقتدا میں نمازِ تراویح ادا کرتے تھے ۔

( لطائفِ اشرفی ٬ حصہ اول ٬ ص : 107 ٬ لطیفہ سوم ٬ مطبوعہ : پاکستان )

توضیح و تشریح :

لطائفِ اشرفی کی اس حدیث ( من صلیٰ خلف امام تقی فكأنما صلى خلف امام النبی ) سے فقہ و شریعت کا ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ متقی اور پرہیزگار شخص امامت کا زیادہ مستحق ہے ۔ فقہ اور حدیث دونوں سے اس کی تائید ہوتی ہے ٬ لیکن علامہ عینی اور علامہ شامی کی صراحت کے مطابق یہ حدیث ” غریب ” ہے اور حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ تفصیل نیچے آ رہی ہے ۔ نیز علامہ عینی و شامی نے قدرے فرق کے ساتھ اس حدیث کو ” من صلیٰ خلف امام تقی ” کے بجائے ” من صلیٰ خلف عالم تقی ” کے الفاظ سے بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ روایت کتبِ حدیث میں موجود نہیں ٬ لیکن معنوی طور پر دوسری روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔

امامت کے مستحق افراد :

اگر کسی محلے یا علاقے کی مسجد کا امام پہلے سے مقرر و متعین ہو ٬ جیسا کہ آج کل بالعموم ہر جگہ مسجد کا امام متعین ہوتا ہے تو امامت کا سب سے زیادہ حق دار وہی متعین امام ہے اور اگر ایسی جگہ جماعت کی نماز ادا کی جا رہی ہو ٬ جہاں کوئی امام مقرر نہ ہو تو موجود افراد میں سب سے زیادہ امامت کا حق دار وہ شخص ہے جو نماز کے مسائل کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو اور اُسے اتنا قرآنِ پاک یاد ہو کہ نماز میں قرأت کی مقدار تجوید کے مطابق تلاوت کر سکے ، بشرطیکہ کھلے عام کبیرہ گناہوں کا مرتکب ( فاسقِ معلن ) نہ ہو ۔ اگر علم میں سب برابر ہوں تو اچھی تلاوت کرنے والا امامت کا زیادہ مستحق ہے اور اگر تلاوت میں بھی سب یکساں ہوں تو ان میں جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہو ٬ وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے ۔ پھر زیادہ عمر والا ٬ پھر سب سے عمدہ اخلاق والا ٬ پھر زیادہ تہجد پڑھنے والا ٬ پھر حسین چہرے والا ٬ پھر نسبی شرافت رکھنے والا ٬ پھر سب سے اچھی بیوی رکھنے والا ٬ پھر زیادہ مال و منصب رکھنے والا ٬ پھر پاکیزہ لباس پہننے والا ٬ پھر مقیم ٬ پھر مسافر وغیرہ ۔ جیسا کہ درِّ مختار شرحِ تنویر الأبصار کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے :

( و الأحق بالإمامة ) تقديماً بل نصباً مجمع الأنهر ( الأعلم بأحكام الصلاة ) فقط صحة و فساداً بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة و حفظه قدر فرض ، و قيل واجب و قيل سنة ( ثم الأحسن تلاوة ) و تجويداً ( للقراءة ثم الأورع ) أی الأكثر اتقاء للشبهات . و التقوى : اتقاء المحرمات ( ثم الأسن ) أی الأقدام إسلاماً ، فيقدم شاب على شيخ أسلم و قالوا : يقدم الأقدم ورعاً ، و فی النهر عن الزاد : و عليه يقاس سائر الخصال ، فيقال يقدم أقدمهم علماً و نحوه و حينئذ فقلما يحتاج للقرعة ثم الأحسن خلقاً ) بالضم ألفة بالناس ( ثم الأحسن وجهاً ) أی أكثرهم تهجداً ٬ زاد فی ” الزاد ” : ثم أصبحهم أی أسمحهم وجها ، ثم أكثرهم حسباً ( ثم الأشرف نسباً ) ٬ زاد فی ” البرهان ” : ثم الأحسن صوتاً ، و فی ” الأشباه ” : قبيل ثمن المثل ، ثم الأحسن زوجة ، ثم الأكثر مالاً ، ثم الأكثر جاهاً ، ثم الأنظف ثوباً ، ثم الأكبر رأساً و الأصغر عضواً ، ثم المقيم على المسافر ، ثم الحر الأصلی على العتيق ، ثم المتيمم عن حدث على المتيمم عن جنابة .

( الدرّ المختار شرح تنویر الأبصار ٬ کتاب الصلوٰۃ ٬ ص : 76 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )

مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ امامت کا حق دار وہ ہے جو نماز کے احکام اور دیگر ضروری مسائلِ دینیہ کا عالم ہو اور قرآن شریف تجوید کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہو ۔ اس کے بعد متقی و پرہیزگار شخص امامت کا زیادہ مستحق ہے ۔ اس لیے حديث میں فرمایا گیا : فليؤمكم خياركم . ( تم میں سب سے بہتر شخص تمہیں نماز پڑھائے ) اور بہتر وہی ہے جو دینی علم ٬ تجوید و قرأت اور زہد و تقویٰ میں بہتر ہو ۔ حدیث میں ” أقدمھم فی الھجرۃ و أعلمھم بالسنۃ ” فرمایا گیا یعنی جو شخص قرآن اور حدیث و سنت کا زیادہ علم رکھے اور جو ہجرت کرنے میں مقدّم ہو ٬ وہ امامت کا فریضہ انجام دے ۔ جیسا کہ سنن نسائی کی مندرجہ ذیل حدیث سے اس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :

عن ابی مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا فی القراءة سواء فأقدمهم فی الهجرة فإن كانوا فی الهجرة سواء فأعلمهم بالسنة فإن كانوا فی السنة سواء فأقدمهم سِنّا و لا تؤم الرجل فی سلطانه و لا تقعد على تكرمته إلا ان ياذن لك .

ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب ( قرآن مجید ) سب سے زیادہ قاری ( عالم ) ہو اور اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سب پہلے ہجرت کی ہے ٬ وہ امامت کرے اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو ٬ وہ امامت کرے اور اگر سنت ( کے جاننے ) میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو ٬ وہ امامت کرے اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھو مگر یہ کہ وہ تمہیں اجازت دے دے ۔

( سنن النسائی ٬ کتاب الامامۃ ٬ ص : 113 ٬ حدیث نمبر : 780 ٬ مطبوعہ : دار طویق للنشر و التوزیع ٬ الریاض )

یہ حدیث پاک مشکوٰۃ شریف میں بھی ہے ۔ حضرت ملا علی قاری حنفی ” فإن كانوا فی القراءة سواء فأقدمهم فی الهجرة ” کی شرح میں فرماتے ہیں : اب چوں کہ ظاہری ہجرت متروک ہو چکی ہے ٬ اس لیے امامت میں اب معنوی ہجرت ( ترکِ معصیت ) کا اعتبار ہوگا اور جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہوگا ٬ وہ امامت کا زیادہ حق دار ہوگا ۔ قال ابن الملك : و المعتبر اليوم الهجرة المعنوية و هی الهجرة من المعاصی فيكون الأورع أولىٰ .

( مرقاۃ المفاتيح شرح مشکوٰۃ المصابیح ٬ 3 / 174 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )

صاحبِ تنویر الأبصار فرماتے ہیں : و الاحق بالامامۃ الأعلم باحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراءۃ ثم الأورع . اس کے تحت صاحبِ درِّ مختار فرماتے ہیں : أی الأكثر اتقاء للشبهات . یعنی جس چیز کا حلال یا حرام ہونا مشتبہ ہو ٬ اس سے جو شخص زیادہ بچے ٬ وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے ۔ اس کے تحت علامہ شامی ” رد المحتار / فتاویٰ شامی ” میں فرماتے ہیں : و ليس فی السنة ذكر الورع ، بل الهجرة عن الوطن . فلما نسخت أريد بها هجرة المعاصی بالورع . حدیث میں ورع یعنی صاحبِ تقویٰ کے استحقاقِ امامت کا ذکر نہیں ٬ بلکہ صاحبِ ہجرت کا ذکر ہے ( جیسا کہ سننِ نسائی کی حدیث سے ظاہر ہے ) ۔ جب ہجرت کا حکم منسوخ ہو چکا تو اب ہجرت سے ہجرتِ معصیت یعنی ترکِ معصیت مراد لیا جائے گا ( اور جو شخص زیادہ گناہوں سے بچے گا اور صاحبِ زہد و تقویٰ ہوگا ٬ وہ امامت کا زیادہ مستحق ہوگا )

( ردّ المحتار علیٰ الدر المختار ٬ کتاب الصلوٰۃ ٬ جلد دوم ٬ ص : 294 ٬ مطبوعہ : دار عالم الکتب ٬ الریاض )

حدیث ” من صلیٰ خلف عالم تقی فكأنما صلى خلف نبی ” کا حکم :

شیخ الاسلام علامہ محمود بن احمد عینی حنفی فرماتے ہیں :

( لقوله صَلَّى اللَہُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : من صلى خلف عالم تقی فكأنما صلى خلف نبی ) هذا الحديث غريب ليس فی كتب الحديث ، لكن روى الطبرانی ما فی معناه من حديث یزید بن زید الغنوی قال : قال رسول الله صَلَّى اللَُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إن سركم أن تقبل صلاتكم فليؤمكم علماؤكم فإنهم وفدكم فيما بينكم و بين ربكم . و رواه الحاكم فی مستدركه فی فضائل الأعمال عن يحيى بن يعلى به سندا و متنا إلا أنه قال : فليؤمكم خياركم و سكت عنه . و روى الدار قطنی ثم البيهقی فی ” سننهما ” عن ابن عمر رَضِی اللہُ عَنْهُمَا قال : قال رسول الله صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : اجعلوا أئمتكم خياركم فإنهم وفدكم فيما بينكم و بين الله تعالى ، قال البيهقی : إسناده ضعيف ، و قال ابن القطان : فيه الحسين بن نصر لا يعرف .

ترجمہ : ” من صلی خلف عالم تقی فكأنما صلى خلف نبی ” یہ حدیث غریب ہے اور کتبِ حدیث میں موجود نہیں ۔ لیکن اسی معنی و مفہوم کی حدیث امام طبرانی نے یزید بن زید الغنوی سے روایت کی ہے اور وہ یہ کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں اس بات سے خوشی ہو کہ تمہاری نماز قبول کی جائے تو تمہیں تمہارے علما ( متقی علما ) نماز پڑھائیں ٬ کیوں کہ وہ ( عالم متقی امام ) تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان وفد اور نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک فضائل اعمال کے باب میں یحییٰ بن بن یعلیٰ سے روایت کیا ہے ٬ لیکن اس میں ” فليؤمكم علماؤكم ” کی جگہ ” فليؤمكم خياركم ” کے الفاظ آئے ہیں ۔ نیز امام دار قطنی و امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اجعلوا أئمتكم خياركم فإنهم وفدكم فيما بينكم و بين ربكم . ان لوگوں کو اپنا امام بناؤ جو ( علم و تقویٰ ) میں سب سے بہتر ہوں ۔ کیوں کہ وہ تمہارے اور رب کے درمیان نمائندہ ہیں ۔ امام بیہقی نے فرمایا کہ اس کی روایت ضعيف ہے ۔ ابن قطان نے فرمایا کہ اس روایت میں حسین بن نصر غیر معروف اور مجہول راوی ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :

( صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة ) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد ، لكن لا ينال كما ينال خلف تقی ورع لحديث : مَنْ صَلَّىٰ خَلْفَ عَالِم تَقِی فَكَأَنمَا صَلَّىٰ خَلْفَ نَبِیٍّ . قال فی الحلية : و لم يجده المخرجون : نعم أخرج الحاكم فی مستدركه مرفوعاً : إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم ، فإنهم وفدكم فيما بينكم و بين ربكم .

یعنی اگر کوئی شخص ( بوجہِ مجبوری ) فاسق یا بدعتی کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کی نماز ہو جائے گی اور وہ جماعت کا ثواب پا لے گا ۔ ( ماتن کے اس قول سے ) یہ افادہ ہوتا ہے کہ فاسق اور بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے ٬ لیکن متقی اور پرہیزگار امام کے پیچھے نماز پڑھنے جیسا ثواب نہیں ملے گا کہ حدیث میں ہے : من صلیٰ خلف عالم تقی فكأنما صلى خلف نبی . یعنی جس نے کسی متقی عالم کے پیچھے نماز پڑھی ٬ گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی ۔ لیکن اس حدیث کے متعلق ” حلیہ ” میں کہا گیا کہ حدیث کی تخریج کرنے والوں کو یہ حدیث نہیں ملی ۔ ہاں ! امام حاکم نے اپنی ” مستدرک ” میں مرفوعا یہ روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم ، فإنهم وفدكم فيما بينكم و بين ربكم . اگر تم اس بات کے خواہش مند ہو کہ اللہ رب العزت تمہاری نماز قبول کرے تو جو تم میں سب سے بہتر ( متقی و پرہیزگار ) ہو ٬ وہ تمہارے نماز پڑھائے ۔ کیوں کہ وہ ( اخیار و اتقیا ) تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان نمائندہ اور ترجمان ہیں ۔

( ردّ المحتار علیٰ الدرّ المختار ٬ جلد دوم ٬ ص : 301 ٬ مطبوعہ : دار عالم الکتب ٬ الریاض )

حدیثِ غریب کی لفظی و اصطلاحی تعریف :

غریب بر وزنِ فعیل صفتِ مشبہ کا صیغہ ہے ۔ غریب کا ایک معنی ہے : فقیر و مفلس ٬ مسکین ٬ حاجت مند اور کبھی غریب اجنبی ٬ غیر معروف اور اپنے گھر بار سے دور رہنے والے کو بھی کہتے ہیں ۔ حدیث پاک : کن فی الدنیا کانک غریب . اسی دوسرے معنیٰ میں مستعمل ہے ۔ حدیثِ غریب میں بھی غریب کا یہی معنی مقصود ہے ۔ صاحبِ مقدمۂ مشکوٰۃ شاہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : الحديث الصحيح ان کان راویہ واحدا یسمیٰ غریبا . صحیح حدیث جس کا راوی ایک ہو تو وہ حدیث غریب ہے ۔ حافظ ابن الصلاح ” حدیثِ غریب ” کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : الحديث الذی يتفرد بعض الرواة يوصف الغريب . وہ حدیث جس میں بعض راوی منفرد اور تنہا ہوں تو اسے غریب سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نزھۃ النظر میں لکھتے ہیں : غریب اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں کسی جگہ بھی راوی منفرد ہو ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

لطائفِ اشرفی میں درج ایک حدیث کا علمی جائزہ” پر ایک تبصرہ

  1. فیضان سرور مصباحی (دارالقضاء ادارۂ شرعیہ اورنگ آباد ـ بہار ) نے کہا:

    مولانا طفیل مصباحی صاحب کا مضمون پڑھ کر اچھا لگا ۔ اخیر میں کچھ تشنگی رہ گئی ۔ پوری تحریر کا خلاصہ آخری دو تین سطروں میں بیان کردینا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے