از قلم: شیبا کوثر، (برہ بترہ آ رہ ،بہار )انڈیا
اردو ادب کی دنیا میں ڈاکٹر بشیر بدر کی شخصیت کسی تعا ر ف کی محتاج نہیں ہے ۔غزلوں کو نیا خون عطا کرنے میں وہ اپنے دور کے تمام شعراء کے پیشِ زد ہیں ۔اور یہی وہ صنفِ سخن ہے جس میں ان کی انفرادیت کی شان نمایاں طور پر نظر آتی ہے ساتھ ہی ساتھ بشیر بدر اپنے رنگ کے منفرد نقاد بھی ہیں اس طرح انکی شخصیت بڑی تہ دار ہے ۔سید محمّد بشیر ،بشیر بد ر کے نام سے مشہور ہیں ۔انکی پیدائش 15 فروری1935ء میں ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں ہوئی ۔ان کی آعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسّلم یونیورسٹی میں ہوئی ۔انکی شریک حیات راحت بدر ہیں ۔ان کے دو فرزند ،نصرت بدر اور معصوم بدر اور اور ایک دختر ہیں ۔اپنی تعلیم اور ملازمت کے دوران میں علی گڑھ مسّلم یونیورسٹی میں مقیم رہے بعد میں میرٹھ میں مقیم رہے پھر دہلی ۔دہلی میں گھر آگ حادثہ کا شکار ہو جانے کی وجہ سے شہر بھو پال منتقل ہو گئے ۔فی الحال بھوپال میں ہی مقیم ہوں ۔
برسوں پہلے ڈاکٹر بشیر بدر نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
بس یہ شعر بشیر بدر کی شناخت بن گیا،بلکہ بعض نقادوں کے خیال میں یہ شعر اپنے شاعر کے مقابلوں میں دوچار گز آگے دکھائی دے گا۔
لیکن بشیر بدر کی تعارف کے لئے فقط ایک شعر کافی نہیں ہے بلکہ انہوں نے "اکائی "اور "امیج” تک طو یل تخلیقی سفر طے کیا ہے ،چاہے وہ مشاعرے کا اسٹیج ہو یا رسالے کے صفحات ہر جگہ انہوں نے سا معنی اور قارئین حضرات پر اپنے فنی شعور کی چھا پ بیٹھائی ہے ۔بھلے سے بشیر بدر کی نگاہ میں "پانی کی قبر یں "ہیں جہاں ایک مخلوق مشا عرے میں پیدا ہوتی ہے اور مشاعرے میں مر جاتی ہے لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ مشاعرے اور رسالے ہزارہا زندہ دل مخلوق ان کے اشعار پر سر دھنونتی نظر آتی ہے ۔بقول مخمور سعیدی کے
"بشیر بدر کی غزلیں ذہنی آسو دگی اور تہذیبی فضا کی جیتی جاگتی روح کی تصویر پیش کرتی ہیں،ایسے ہلکے پھلکے لفظوں میں جو شکوہ سے دور لیکن سادگی کے حسن سے بہرہ ور ہیں ۔یہ غزلیں تازہ ہوا کے نرم جھونکے کی طرح ذہن کو چھوتی ہوئی دل میں اتر جاتی ہیں "۔
بشیر بدر کی مقبو لیت کی وجہ ان کی انفرادیت ہے ۔کلام میں سادگی اور شوخی ہے جو ذہن و دل کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔وہ معمولی سے الفاظ کو خوبصورت شعری پیکر میں ڈھال دیتے ہیں ۔
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
محبّت ،عداوت،وفا بے رخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈھا کریں
وہ بھی آخر مل گیا اب کیا کریں
دل ،محبّت ،دین دنیا ،شاعری
ہر دریچے سے تجھے دیکھا کریں
کانچ کے موتیوں کے،آنسو کے
سب کھلوںنے غزل میں ڈھلتے ہیں
شام کے بعد بچوں سے میں کیسے ملوں
اب میرے پاس کوئی کہانی نہیں
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
جی چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں ۔حوصلہ نہیں ہوتا
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدّتوں سامنا نہیں ہوتا
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے نئے گلاب ہیں
یہ محبّتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
کبھی پا کے تجھ کو کھونا کبھی کھو کے تجھ کو پانا
یہ جنم جنم کا رشتہ تیرے میرے درمیاں ہے
اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں
یہ موتیوں کی طرح سیپوں میں پلتے ہیں
میرے سینے پر پھر خوشبو نے سر رکھ دیا
میری بانہوں میں پھولوں کی ڈالی رہی
ڈاکٹر بشیر بدر کا پہلا شعری مجمو عہ” اکا ئی "(1949) میں طبع ہوا۔ اور اسی وقت سے بشیر بدر کی انفرادیت کا احساس بھی پختہ ہوا ۔
بقول عزیز اندور ی ____”انہوں نے بھر پور فکری انداز کو اپنا تے ہوئے لہجے کی بے تکلفی کے ساتھ ہی جدید علامت وں اور نئے نئے الفاظ کے استعمال سے نئی شعر ی معنو یت کو ابھا را ہے۔ان غزلوں کے بیشتر اشعار فکر و فن کے حسن سے مز ئین ہیں ۔”
ان کے دوسرے غزلوں کا مجموعہ "ایمج "(1973 ) میں منظر عام پر آیا ۔جس کے بارے میں پروفیسر آل احمد سرو ر رقم طراز ہیں ____”امیج” میں نیا احساس نئی تشبیہوں نئے استعارو ں ،نئی تصویروں اور نئے پیکر وں سے کھیل رہا ہے اور یہ کھیل بھی معنی خیز ہے ۔یہاں جسم کی آنچ اور روح کی پیاس بھی ہے اور بدلتی ہوئی زندگی کے جذبات اور احساسات کے نئےمظا ہرے بھی "امیج” ان کے کلام کی بنیادی خصوصیات کی بڑی اچّھی نمائندگی کرتا ہے۔
حقیقت سرخ مچھلی جانتی ہے
سمندر کتنا بوڑھا دیوتا ہے
آنسوں کبھی پلکوں پر تا دیر نہیں رکھتے
اڑ جاتے ہیں یہ پنچھی جب شاخ لچکتی ہے
شہرت کی بلندی بھی دو پل کا تماشہ ہے
جس شاخ پر بیٹھے ہوں ٹوٹ بھی سکتی ہے
بشیر بدر کے دونوں شعر ی مجموعہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ بشیر بدر ناصر کاظمی کے بعد سب سے معتبر جدید غزلوں کے غزل گو شاعر ہیں ۔اسی لئے بیشتر جدید شعراء انکی شعری کی تقلید کر رہے ہیں ۔چنا نچہ شہر یار کا خیال ہےکہ نئی غزل پر کسی عنوان سے گفتگو کی جائے ،بشیر بدر کا فکر ضرور آئے گا ۔ ان کا "اکا ئی "اور "امیج ” سے بالکل الگ لب و لہجہ مشاعرو ں میں نظر آتا ہے ۔جہاں وہ اپنے مخصوص ترنم اور انداز و بیاں سے سامیعن کا دل موہ لیتے ہیں۔
اتنی ملتی ہے میری غزلوں سے صورت تیری
لوگ تجھ کو میرا محبوب سمجھتے ہوں گے
ابھی اسطرح نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
میرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئینہ میں اتار لو
وہ فراق ہو کہ وصال ہو تیری یاد مہکے گی ایکدن
وہ گلاب بن کر کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ہو
کبھی یوں بھی آ میری آنکھ میں کہ میری نظر کو خبر نہ ہو
مجھےایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
میری داستان کا عروج تھا تیری نر م پلکوں کی چھاؤں
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تیری آنکھ کیسے جھپک گئی
تجھے بھول جانے کی کوشیش کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تیری یاد شاخ گلاب ہے جو ہوا چلی تو لچک گئی
الغرض بشیر بدر کی حیثیت مشاعرے سے لیکر رسالے تک مسلم ہے۔ وہ مشاعرں اور رسالوں میں یکساں مقبول نظر آتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تقریباً ہر شعر میں نئے انداز سے کچھ بات کہنے کی کوشش کی ہے ،چاہے اس کا تعلق جدید یت سے ہو چاہے انسان کے لافانی جذبات سے ۔جدید غزل میں ان کی حیثیت سنگ میل کی سی ہے ۔
لہذا عادل منصوری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جدید غزلوں کا سب سے پیارا نام بشیر بد ر ہے ۔!!