نظم

یوم آزادی اور ملک کی موجودہ حالت پر ایک نظم

نتیجۂ فکر: شمیم رضا اویسی امجدی
مدینۃ العلماء گھوسی مئو

پهٹا لباس ہے، زخمی ہے تن بدن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا

یہاں پہ چار سو حیوانیت کا ڈیرا ہے
یہاں تو صرف مظالم کا ہی بسیرا ہے
نہ پہلے جیسا یہاں اب کوئی سویرا ہے
فقط یہاں پہ تو نفرت کا ہی اندهیرا ہے
تها ملک پیار و محبت سے ضوفگن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا

ہر ایک گل ہے پریشاں’ اداس برگ و ثمر
فضائیں آج ہیں مایوس غمزدہ ہیں شجر
رہے نہ پہلے سے نغمے طیور کے لب پر
یہ کس کی لگ گئی گلشن کو ہائے میرے نظر
کہ آج ہو گیا ویران یہ چمن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا

لہو بہا کے جنہوں نے ہمیں دی آزادی
ہمیشہ ان میں تهی قائم فضا محبت کی
پر آج جنگ ہے مذہب کے نام پر جاری
جدهر بهی دیکهیئے بس اس طرف ہے خونریزی
لہو میں ڈوبا ہوا ہے یہ باغ و بن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا

یہاں پہ آج ہر اک دل میں بس عداوت ہے
یہاں پہ برپا اب ہر چار سو قیامت ہے
جدهر بهی دیکهو ادهر ظلم و بربریت ہے
ہے ہر سو رنج و مصیبت ہر اک سو وحشت ہے
یہ ملک پہلے تها الفت کی انجمن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا

بہار گلشن ہندوستاں ہوئی رخصت
کہ ہم سے رونق ارض و سماں ہوئی رخصت
ہر ایک شخص ہے مظلومیت کے چنگل میں
شمیم ہم سے یہاں ہر اماں ہوئی رخصت
اداس آج ہے یہ سوچ کر کے من میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے