نتیجۂ فکر: شمیم رضا اویسی امجدی
مدینۃ العلماء گھوسی مئو
پهٹا لباس ہے، زخمی ہے تن بدن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا
یہاں پہ چار سو حیوانیت کا ڈیرا ہے
یہاں تو صرف مظالم کا ہی بسیرا ہے
نہ پہلے جیسا یہاں اب کوئی سویرا ہے
فقط یہاں پہ تو نفرت کا ہی اندهیرا ہے
تها ملک پیار و محبت سے ضوفگن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا
ہر ایک گل ہے پریشاں’ اداس برگ و ثمر
فضائیں آج ہیں مایوس غمزدہ ہیں شجر
رہے نہ پہلے سے نغمے طیور کے لب پر
یہ کس کی لگ گئی گلشن کو ہائے میرے نظر
کہ آج ہو گیا ویران یہ چمن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا
لہو بہا کے جنہوں نے ہمیں دی آزادی
ہمیشہ ان میں تهی قائم فضا محبت کی
پر آج جنگ ہے مذہب کے نام پر جاری
جدهر بهی دیکهیئے بس اس طرف ہے خونریزی
لہو میں ڈوبا ہوا ہے یہ باغ و بن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا
یہاں پہ آج ہر اک دل میں بس عداوت ہے
یہاں پہ برپا اب ہر چار سو قیامت ہے
جدهر بهی دیکهو ادهر ظلم و بربریت ہے
ہے ہر سو رنج و مصیبت ہر اک سو وحشت ہے
یہ ملک پہلے تها الفت کی انجمن میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا
بہار گلشن ہندوستاں ہوئی رخصت
کہ ہم سے رونق ارض و سماں ہوئی رخصت
ہر ایک شخص ہے مظلومیت کے چنگل میں
شمیم ہم سے یہاں ہر اماں ہوئی رخصت
اداس آج ہے یہ سوچ کر کے من میرا
میں کیسے کہ دوں کہ آزاد ہے وطن میرا