سورہ بقرہ میں کل آیات 286 ہیں۔ ابن کثیرؒ کے مطابق اس کے کلمات 6221 اور حروف 25500 ہے۔ قرآن حکیم کی یہ سورۃ جو ترتیبی اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے اس کا نام سورہ بقرہ اس لئے ہے کہ اس میں ایک جگہ پر گائے کے ایک واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم کی سورتوں کے ناموں کے سلسلہ میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تبارک تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں قرآن حکیم کی بیشتر سورتوں کے لئے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے۔ جو محض ایک علامت کے طور پر ہے۔ اس سورۃ کو سورہ بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا مرکزی موضوع گائے ہے ، یا پھر گائے کے مسئلہ پر بحث کی گئی ہے۔ قرآن حکیم کی یہ سب سے بڑی سورۃ ہے اور اس سورت کا ایک بہت بڑا حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد نازل ہوا یعنی یہ زمانہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت کے بعد کا ابتدائی دور تھا اور اس سورۃ کا کچھ مختصر حصہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا ، حتیٰ کہ سود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات کریمہ نازل ہوئیں وہ بھی اسی میں شامل ہے حالانکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ کے بالکل آخری زمانہ میں نازل ہوئی تھیں۔ سورۃ کے آخری آیات اور اس کا خاتمہ جس پر ہوا ہے یہ ہجرت سے قبل پہلے ہی نازل ہوچکا تھا لیکن مضمون کی مناسبت سے اسی سورۃ میں شامل کردیا گیا۔ اس سورۃ کے تاریخی پس منظر کی طرف ہماری نگاہ ہونی چاہئے تاکہ ہمیں یہ بات معلوم ہوسکے کہ سورہ بقرہ کا نزول کن حالات میں ہوا۔
چنانچہ، چند مفسرین کرام کے تحریروں کو یہاں پر نقل کیا جاتا ہے۔
’’ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی ، خطاب بیشتر مشرکین عرب سے تھا جن کیلئے اسلام کی آواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی۔ اب ہجرت کے بعد یہودیوں سے سابقہ پڑا۔ جن کی بستیاں مدینہ سے بالکل متصل ہی واقع تھیں۔ یہ لوگ توحید ، رسالت ، وحی ، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے ، اس ضابطہ شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا اور اُصولاً ان کا دین ہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے تھے‘‘۔ (تفہیم القرآن)
ان (یہود) کی عملی زندگی میں بہت زیادہ اور نمایاں طور پر کچھ ایسے طور طریقہ ، رسم و رواج غالب آچکے تھے جس کا اللہ کے نازل کردہ کلام توراۃ میں کوئی ثبوت نہیں تھا اور ان یہود کی سب سے بڑی بے ایمانی یہ تھی کہ اُنھوں نے توراۃ کو انسانی کلام کے اندر خلط ملط کردیا تھا اور اپنی دلی خواہشات کے مطابق ان لوگوں نے اس میں غلط تاویلات کر کرکے اصل کلام الٰہی کو مسخ کر رکھا تھا ، جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو دین پیش فرمایا تھا ، اس کی اصل روح نکل چکی۔ غرض کہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان (یہود) کو اصل دین کی طرف دعوت دیں ، سورۃ بقرہ کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات ہم پر واضح ہوجائے گی کہ اس سورۃ کا ابتدائی ایک تہائی حصہ اسی دعوت کی طرف ہے یعنی یہود کو ان کی تاریخ یاد دلائی گئی اور ان کے اخلاق کی پستی کی طرف متوجہ کیا گیا اور مذہبی معاملات میں کہاں کہاں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اس کی طرف جھنجوڑتے ہوئے اصل دین کو نبی کریم کے ذریعہ واضح کیا گیا اور اسلام کی طرف دعوت دی گئی۔ یہود کی ایک غلط فہمی یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو ، امامت و سیادت کے پیدائشی حقدار سمجھ بیٹھے تھے اور نبی آخری الزماں پر ایمان لانا اپنی انا کا مسئلہ بنا بیٹھے تھے۔ ایسے میں یہود اور ان کے ہاں میں ہاں ملانے والوں پر اصل چیز یہ واضح کردی گئی کہ حضرت آدم ع کی خلافت کے بالمقابل جس طرح کا حسد و کینہ ابلیس ملعون کو تھا اسی طرح کا غم و غصہ ، حسد و کینہ اللہ کے آخری نبی سے تم کو ہے لہٰذا یہود کو انتباہ دیا گیا کہ جس طرح ابلیس ، حضرت آدم ع کی خلافت کے خلاف اللہ کا باغی بنا اور ناکام ہوا ، اگر یہود بھی ، ابلیس کے نقش قدم پر چلتے رہیں، یعنی نبی کریم کی رسالت کا انکار کرتے رہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے منکر بن جائیں اور ایڑی چوٹی کا زور بھی لگالیں تو بھی ، نبی کریم صلی علیہ وسلم کی رسالت قائم ہوکر رہے گی۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہجرت سے قبل صرف اصول دین کی تبلیغ اور دین اسلام قبول کرنے والے سعید لوگوں کی اصلاح و تربیت کا کام ہوا۔ یعنی کفار قریش کی طرف سے جو تکالیف نبی کریم کریم کے دست حق پرست پر ایمان لانے والوں کو دی جارہی تھی ، اس پر صبر اور حکمت کی تعلیم دی جاتی رہی اور جیسے ہی ہجرت کا حکم ہوا ، وہ سارے اہل ایمان جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے ، مدینہ میں جمع ہونے لگ گئے۔ اس طرح مکہ اور اطراف کے ان لوگوں اور مدینہ کے انصار صحابہؓ کی مدد سے مدینہ طیبہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑچکی ؛ ایسے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُصولی طور پر ہدایت دینی شروع کی جو تمدن ، معاشرت ، معیشت ، قانون اور سیاست پر مشتمل ہے۔
ہجرت کے بعد بھی مصائب کا سلسلہ جاری رہا اور ہر طرف سے مسلمانوں کو اور یہ جس دین پر چل رہے ہیں اس کا خاتمہ کرنے کے لئے پورا زور لگایا جاتا رہا۔ ایک طرف چھوٹی سی اسلامی ریاست اور دوسری جانب سارے عرب کے مخالفین، ایسے ماحول میں مٹھی بھراہل ایمان کی صرف کامیابی نہیں بلکہ ان کی بقاء و سلامتی اس بات میں مضمر تھی کہ وہ جس دین حق پر ایمان لائے ہیں پورے حوصلے اور جوش و خروش کے ساتھ اس کی تبلیغ کریں اور زیادہ سے زیادہ دین کی اچھائیاں اور اس دین فطرت کو واضح انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کریں۔ اہل ایمان کو اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ اس حق و باطل کی کشمکش میں ذرہ برابر ہراساں نہ ہوں، صبر و استقامت کے ساتھ حالات حاضرہ کا مقابلہ کرتے رہیں اور اپنے عزم و حوصلہ میں تھوڑی بھی کمی آنے نہ دیں ، پوری دلیری کے ساتھ اس بات کے لئے تیار رہیں کہ دعوت دین کے خلاف جو بھی مسلح مزاحمت ہوگی ، اس کے جواب میں مسلح مقابلہ ہو۔ مکی زندگی میں مشرکین سے سابقہ پھر ہجرت کے بعد دعوت اسلامی کو ہر طرف سے چیالنجس کا سامنا ، یہ تو تھا ہی لیکن ایک اور مرحلہ اللہ کے رسول ا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درپیش تھا وہ تھا منافقت کا آغاز ، اگرچیکہ یہ منافقت بام عروج پر تھی ، اور اس کے آثار کچھ نہ کچھ ظاہر ہونے لگے تھے۔ یہاں پر چار قسم کے منافقین کی طرف صرف اشارے کئے جاتے ہیں۔ منافقین کے کھلے واقعات دیگر سورتوں کے تحت ان شاء اللہ تحریر کئے جائیں گے۔
پہلی قسم کے نفاق کے روگی اس طرح کے تھے کہ وہ محض مسلمانوں کی جماعت میں فتنہ برپا کرنے کے لئے اسلام میں شامل تھے۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی تھی جو اسلامی اقدار میں گھر جانے کی وجہ سے اپنی بقاء مسلمان ہوجانے میں سمجھتے تھے۔ تیسری قسم کا گروہ وہ تھا جو اسلام اور جاہلیت کے درمیان ان کا ذہن صاف نہیں تھا ، محض ان کے رشتہ دار اور برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں اسلام قبول کرچکے تھے اس لئے محض دکھاوے کے لئے یہ بھی اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کرتے تھے۔
چوتھی قسم کے لوگ وہ تھے ، جو بظاہر اسلام کی حقانیت کے قائل تھے ، لیکن سچے مسلمان ہونے کے لئے جو چیز ان کے لئے رکاوٹ بن رہی تھی وہ تھی جاہلیت کے طور طریقے ، اوہام پرستی ، من گھڑت طریقہ زندگی ، اسلامی اخلاق کی پابندیاں ، فرائض کی ادائیگی (ایک بندہ مومن کی حیثیت سے آزمائش پر صبر) وغیرہ وغیرہ ۔
سورۃ کے آخر میں سچے اہل ایمان کا جو طرز عمل اور ان کے زبان سے جو کلمات ادا ہوتے ہیں اُس کا تذکرہ فرمایا گیا کہ
’’اور جو لوگ رسول کو ماننے والے ہیں، اُنھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے ، یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔
(ترجمہ از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
ایک اور معروف مفسر،
حضرت مولانا محمد نعیم الدینؒ صاحب صدرالافاضل مرادآبادی نے یوں تحریر فرمایا کہ
’’زجاج نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں نماز ، زکوٰہ ، روزے ، حج کی فرضیت اور طلاق ایلاء ، حیض ، جہاد کے احکام اور انبیاء کے واقعات بیان فرمائے تو سورت کے آخر میں یہ ذکر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنین نے اس تمام کی تصدیق فرمائی اور قرآن اور اس کے جملہ شرائع و احکام کے منزل من اﷲ ہونے کی تصدیق کی‘‘۔ (کنزالایمان صفحہ ۷۲ حاشیہ ۲۶۰)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ سورۃ البقرۃ کے فضائل میں یوں تحریر فرمایا ہے۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ سورۃ بقرہ کو پڑھا کرو ، کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے‘‘۔
قرطبی نے حضرت معاویہؓ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں، مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا۔ (قرطبی از مسلم بروایت ابو امامہ باہلی) اور آنحضرت صلی اللہ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے ، شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ (ابن کثیر از حاکم) معارف القرآن۔
مولانا افتخار احمد مصباحی استاذ……عربی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اپنی کتاب فضائل قرآن میں سورۃ بقرہ سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنالو جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان بھاگ جاتے ہے۔
(حوالہ مشکوٰۃ ص ۱۸۴ مسلم ص ۲۶۵ باب استجاب النافلۃ فی بلیہ)
ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی، سینئر کالم نگار۔ فون نمبر : 9849099228