تحریر: پٹیل عبدالرحمٰن مصباحی، گجرات
امام شاہ احمد نورانی فرماتے ہیں:
"قوم اپنا محاسبہ نہیں کرتی،بس قائدین پر الزامات کی بوچھار کر دیتی ہے.”
قوم کی ناسپاسی اور بے وفائی کا یہ سلوک چار نسلوں سے اپنے قائدین کے ساتھ جاری ہے. کبھی امام احمد رضا کو خلافت کا دشمن، کبھی علامہ سلیمان اشرف بہاری کو سیاست سے ناآشنا، کبھی مولانا حامد رضا کو لیگ کا غلام، کبھی علامہ ارشد کو مداہنت پسند، کبھی امام شاہ احمد نورانی کو عورت کی حکومت کا دلدادہ اور کبھی خادم حسین رضوی کو جدید انداز گفتگو سے ناآشنا قرار دینا قوم کی اسی جہالت پسندی اور فکری مغلوبیت کا نتیجہ ہے. ایک صدی سے ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ عمل کرتے وقت سر سید، مسٹر آزاد، حسین احمد ٹانڈوی اور کانگریس و جمیعت کا منشور اپنایا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں جب ناکامیاں ہاتھ آتی ہیں تو منہ چڑھا کر گالیاں دینی علوم کے ماہر علما کو دی جاتی ہیں. پھر اس دو رخی سفاہت کو آزادی اظہار کا نام دے کر اپنے سیکولر ہونے پر فخر بھی کیا جاتا ہے. عقل حیران است کہ ایں چہ بو العجبی است۔