ہر آن اک جدید مصیبت کا دور ہے
اکیسویں صدی ہے کہ آفت کا دور ہے
اک عطر بیز جسم کی وصلت سے قرب سے
میرے وجود پر بڑی نکہت کا دور ہے
نفرت کی بھینٹ اس کو چڑھا تا ہے کس لئے
یہ زندگی تو یار محبت کا دور ہے
بہرِ سکوں جہانِ محبت میں آئے تھے
لیکن یہاں تو اور بھی وحشت کا دور ہے
کتنے ہی اہلِ دل کی یہ جانیں ہے لے چکا
تجھ پر شباب ہے یا قیامت کا دور ہے
میری کسی کو کوئی ضرورت نہیں رہی
یہ تو مرے لئے بڑی ذلت کا دور ہے
چاہت کے عہد کو نہ تلاشو ادھر ادھر
یہ اپنی دوستی ہی تو الفت کا دور ہے
اک بے پناہ حسن کی قربت کا ہے کمال
جملوں پہ میرے یہ جو فصاحت کا دور ہے
اس میں ہی شیطاں بنتا ہے انسان دوستو
عہدِ جوانی ہی یہ عبادت کا دور ہے
یہ جس کو وصلِ یار کا موسم ہیں کہتے سب
یہ بے پناہ لطف کا لذت کا دور ہے
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی، یوپی، انڈیا