نقد و تبصرہ: ابو محمد مظہری
ملی ہے دولتِ حسنِ نظر ان کی محبت میں
ملا ہے نعت کہنے کا ہنر ان کی محبت میں
تجلی نعت کی پھوٹے مرے فکر و تخیّل سے
بنے خامہ مرا رشکِ قمر ان کی محبت میں
حدیثِ مصطفیٰ ” حتیٰ أکونَ ” سے ہوا ظاہر
فدا کر دو پدر ٬ مادر ٬ پسر ان کی محبت میں
شہِ کونین کا پائے مقدس پا کے سینے پر
ہوا ہے موم کے جیسا حَجَر ان کی محبت ہے
نکھر جائے ٬ سنور جائے ٬ کھَرا کھوٹے سے ہو جائے
” اگر تحلیل ہو جائے بشر ان کی محبت میں "
نبی کی عزت و ناموس پر ہو جب کبھی حملہ
کٹا دو ہنس کے تم اپنا یہ سر ان کی محبت میں
خدائے قادر و قیوم سے ہے التجا ٬ گذرے
ہماری زندگانی کا سفر ان کی محبت میں
خدایا ! دے مجھے توفیقِ مدحِ سرورِ عالم
لکھوں نعتِ نبی میں عمر بھر ان کی محبت میں
طفیل احمدؔ ملا کرتا ہے عشاقِ پیمبر کو
حیاتِ جاودانی کا گُہر ان کی محبت میں
نقد و تبصرہ:
اب کے گلشن میں جو ساون کی بہار آئی ہے
لب پہ بلبل کے مسرت کے ترانے ہوں گے
ڈاکٹر منصور فریدی دام ظلہ العالی کی کرم گستری کہیے یا مخلصانہ نوازش کہ احقر ایک طویل وقفے کے بعد نقد و نظر کا کانٹوں بھرا تاج اپنے سر پہ سجائے فروغ نعت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہے اور حسن اتفاق کہ جس شخصیت کا کلام برائے نقد پیش نظر ہے ٬ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے بلکہ ان کی دینی ، علمی ، ادبی ، قلمی اور اصلاحی خدمات کا ایک عالَم معترف ہے ۔ پیکرِ علم و ادب ، نازشِ فکر و فن ، سرمایۂ زبان و قلم ، شاعر با کمال حضرت مولانا محترم طفیل احمد مصباحی حفظہ الوالی ( سابق مدیر ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور ) جماعت اہل سنت کے ممتاز و معروف عالم دین ہیں ۔ صوبۂ بہار کے ضلع بانکا سے منسوب ہیں ۔ جامعِ کمالات اور ہر فن مولیٰ شخصیت کے حامل ہیں ۔ درس و تدریس ، ترجمۂ و تحقیق ، مضمون نگاری ، مقالہ نویسی ، انشا پردازی اور شعر گوئی ان کا خاص میدان عمل ہے ۔ تین درجن سے زائد کتب ان کے قلمِ حقیقت رقم سے منصۂ شہود پر آ کر عوام و خواص سے تمغۂ پذیرائی حاصل کر چکی ہیں ۔ ان کے مضامین و مقالات اکثر ملک و بیرون ملک کے جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ان کی نثر جس قدر رواں دواں اور صاف و شفاف ہوا کرتی ہے ٬ نظم میں بھی اسی قدر چاشنی ، ساحری ، دل کشی اور رعنائی پائی جاتی ہے ۔ نعت و منقبت اور غزل پر مشتمل اب تک ان کے تین مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ حرفِ مدحت ( نعت ) حرفِ ثنا ( نعت ) آبشار فکر ( غزل ) ٬ یہ ان کی منظوم کتابوں کے نام ہیں ۔ انہوں نے اپنی عمر کے قلیل عرصے میں لوح و قلم کے باب میں جس قدر زرّیں اور شان دار خدمات انجام دی ہیں ٬ اس حوالے سے ان کی ذات نسلِ نو کے لیے نمونۂ تقلید اور قابلِ صد رشک ہے ۔ اگر یہ ان کے لیے شرف کی بات ہے تو ہم سب کے لیے مقامِ افتخار ہے کہ وہ ادارۂ نعت ” بزم حسان ” سے وابستہ ہیں اور گاہے بہ گاہے نعتِ رسول صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی خوشبو بکھیر کر مشامِ جاں کو معطر کرنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ بہ طورِ نمونہ ان کے چند نمائندہ اشعار پیش خدمت ہیں :
منزلیں خود چل کے اک دن سامنے آ جائیں گی
طائرِ فکر و عمل گر مائلِ پرواز ہو
حسن اخلاق عطا کر مجھے یا رب ایسا
مثلِ خاور مرے کردار کا جوہر چمکے
رب کی عنایتیں ہوئیں پھر ان کے ہم رکاب
جو لوگ راہِ عشقِ محمد پہ چل پڑے
فیضِ رضاؔ سے وادیِ فکر و خیال میں
نعتِ رسولِ پاک کے چشمے اُبل پڑے
ان تمہیدی کلمات کے بعد آئیے ان کے زیرِ نقد کلام کا رخ کرتے ہیں اور اس کی فنی و ادبی چاندنی سے اپنے ذوق کی حویلی نور بار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ماشاء اللہ ! نو اشعار پر مشتمل پورا کلام مرصّع ہے ۔ تمام اشعار ادبی و فنی محاسن سے مزین ہیں ۔ تراکیب سازی ، شوکتِ لفظی ، بلند فکری ، عمیق نظری ، مضمون آفرینی ، اختراعی آہنگ اور اسلوبیاتی پختگی کی جلوہ ریزی دیدۂ و دل کے لیے سرور کی باعث ہے ۔ شاعر موصوف چوں کہ محقق عالم دین ہیں ، قرآن و احادیث پر گہری نظر رکھتے ہیں ٬ سو اس کی جھلک یہاں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ شعر ثانی میں صحیح البخاری کی مشہور حدیث [ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیه من والدہ و ولدہ والناس اجمعین ] کے ایک ٹکرے ” حتی اکون ” کو اخذ کرتے ہوئے مفہوم حدیث کو جس انداز میں منظوم کیا ہے ٬ اس سے شعر میں صنعت اقتباس کا رنگ پیدا ہو گیا ہے ٬ جو ان کی شعری و فنی مہارت کا اعلامیہ ہے اور گہری نظر کا عندیہ بھی ۔ جب کہ شعر ثالث و تضمین اور دیگر تمام اشعار میں جس طور فکر لطیف کی عکاسی اور بھانت بھانت مضامین کی نظم کاری کی گئی ہے ٬ اس سے شاعر کی قادر الکلامی ، پختہ گوئی ، نازک خیالی ، ادیبانہ اسلوب اور عالمانہ بصیرت کا اندازہ لگتا ہے ۔ مولانا طفیل احمد مصباحی اپنے ایک وقیع مضمون میں رقم طراز ہیں :
نعت گوئی شیشہ گری ، ادب آموزی اور عشق آفرینی کا فن ہے ٬ جو محض اوزان و بحور کی پابندی ، الفاظ و معانی کے حسن انتخاب ، ردائف و قوافی کے مناسب و بر محل اور خوب صورت استعمال ، زبان و بیان کے مروجہ اصولوں کی پاس داری کا نام نہیں ۔ نعت گوئی کے لیے ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ضروری ہیں ۔ زبان و بیان کے مروجہ اصول و آداب کی رعایت کے علاوہ الفاظ کے انتخاب اور چناؤ میں شانِ رسالت کا حد درجہ پاس و لحاظ ، معانی میں طہارت و نفاست ، بیان میں صداقت و خلوص ، گہری معنویت ، تہ داری ، ممدوح کائنات صلی الله عليه و سلم کی عظمت و رفعت کا شدید عرفان و احساس ، عشق و عقیدت ، ربودگی و شیفتگی ، فکر کی پاکیزگی ، روانی ، جوش ، ولولہ ، امنگ ، کسک ، سوزِ دروں اور ان تمام عناصر کے مابین ربط و ہم آہنگی بھی ضروری ہے ۔ تب کہیں اعلیٰ درجے کی شاعری وجود میں آتی ہے اور وہ شاعری ادبی تقاضوں کے عین مطابق شمار کی جاتی ہے ۔ اسی لیے بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ ” نعت گوئی چاول پر قل ھو الله لکھنے کا فن ہے” ۔۔
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ محترم موصوف کی شاعری متذکرہ محاسن و محامد اور اجزا و عناصر کا دل کش نمونہ ہے بلکہ ان کے جذبات و احساسات اور افکار و خیالات کی گہرائیوں میں بکھرے ہوے ایسے بیشمار گوہرِ نایاب مل جاتے ہیں ٬ جن کی چمک دمک اور سحر انگیز تابناکی سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔
مولانا طفیل احمد مصباحی ایک منجھے ہوئے ، کہنہ مشق ، صاحبِ طرز اور پختہ اسلوب قلم کار ہیں ٬ اس لیے نثر کی مانند ان کی منظوم نگارشات بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہیں ۔ ان کی رنگا رنگ شاعری نو آموزوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کے دھواں دار قلم نے منثورات کے باب میں جس طرح اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے ٬ شعر و ادب میں ان کی منظومات بھی گراں قدر اضافے کا سبب ہیں ۔ اللہ کرے وہ بساطِ علم و ادب پر یوں ہی چھائے رہیں اور اپنے خامۂ گل بار سے نعت رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش بو لٹاتے رہیں ۔ بزم محبت میں اپنی فکری نگارش کے ساتھ شرکت پر ہم انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ سلسلۂ اخوت و مصاحبت یوں ہی دراز رہے گا ۔
چلتے چلتے معروف ناشرِ نعت محترم صبیح رحمانی کے دو اشعار شاعرِ ” حرف مدحت ” کی نذر کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا اتمام کرتے ہیں :
میری پلکوں پہ چراغوں نے فروزاں ہو کر
اک نئی نعت کے ہونے کی بشارت دی ہے
مجھ سے بے نام و نشاں کو میرے آقا نے صبیحؔ
بخش کے ذوقِ ثنا عزت و شہرت دی ہے