انسان حیوان ناطق سے مرکب ہے اس لئے اس میں جہاں حواس خمسہ اور تحرک بالارادہ کی طاقت و قوت پائی جاتی ہے وہیں معاً اس میں تفکر و تدبر کا ملکہ بھی موجود ہے، جس کے ذریعہ وہ تخیلات و تصورات اور افکار و نظریات کی وادی میں صحرا پیمائی کرتا ہی رہتا ہے،
انسان کو چاہیے بھی کہ وہ اپنی خانگی، معاشرتی، معاشی، ثقافی اور دیگر اُمور زندگی کو سعید و نجیب بنانے کے لئے تفکر و تدبر کی راہ اپنائے اور ہر معاملے میں غوروفکر کرکے اپنے فوائد و نقصانات کو اجاگر کرے کیونکہ کوئی انسان اس دنیا میں بے فکر ہوکر خوشگوار زندگی گزارنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے کہ یہ دنیا جہاں اچھائیوں کا سرچشمہ و منبع ہے وہیں برائیوں اور خرابیوں کا بھی مخزن ہے اس دنیا میں کانٹوں کے باوجود پھولوں تک اپنا ہاتھ پہونچانا ہوتا ہے یہاں بیماریوں کے بے شمار جراثیم کے باوجود اپنے آپ کو صحت مند بنانا پڑتا ہے، اسی طرح اس دنیا میں آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ناموافق حالات کو دیکھ کر مایوس نہ ہو اور نہ شکایت و احتجاج میں اپنا وقت ضائع کرے وہ ان حقائق کی موافقت کرکے جئے جن کو وہ بدل نہیں سکتا، وہ راستہ کے ان پتھروں سے کترا کر نکل جائے جو اس کے سفر میں حائل ہورہے ہوں، لوگوں کی مخالفانہ و مفروضہ باتوں پر مشتعل ہونے کے بجائے وہ تدبیر و حکمت کے ذریعہ ان سے نپٹنے کی کوشش کرے،
کیونکہ انسانی سماج مختلف المزاج انسانوں کی بستی ہے، ان کے مفادات ایک دوسرے ٹکراتے ہیں، مختلف اسباب وعوامل سے ایک دوسرے کی پیج ناگواریاں پیدا ہوتی ہیں، یہ اونچ نیچ اور بھید بھاؤ سماجی زندگی میں ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا اسے ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں،
البتہ! کوئی انسان جب کسی معاملے میں غوروفکر کرکے اس کے مفید و مجرب نتائج تک رسائی حاصل کرنا چاہے تو اسے یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ انسان کے حالات بظاہر کتنے غیر موافق ہوں ان کے اندر موافق پہلو بھی رہتا ہے ایک شخص جو عقابی نگاہ رکھتا ہو وہ زیادہ دور اور گہرائی تک مشاہدہ کرے گا اور ناموافق حالات میں بھی موافق پہلو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا برخلاف اس کے جو صرف ظاہری حالات دیکھنے کے قابل ہو وہ سطحی چیزوں کو دیکھے گا اور اصل حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے گا پھر یہ ناکام شخص خیالات ناقصہ کا شکار ہوکر ظن و گمان کے مہلک صحرا میں بھٹکتا رہے گا،
جس سے قرآن حکیم سختی کے ساتھ روکتا ہے،
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
ترجمہ:
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے
وَ مَا یَتَّبِـعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّاؕ-اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالایمان
اور ان میں اکثر تو نہیں چلتے مگر گمان پر بےشک گمان حق کا کچھ کام نہیں دیتا بےشک اللہ ان کے کاموں کو جانتا ہے
اسلام کا نظریہ تو یہ ہے کہ جب تک تم کو تحقیق و تدقیق اور وثوق و یقیں کے ساتھ کسی کے متعلق کسی بات کا علم نہ ہو اس وقت تک بہتر ہی گمان رکھو چنانچہ فرمان نبوی ﷺ ہے، ظنوا المومنین خیرا، کیونکہ کسی کے متعلق بدگمانی ہوجانے کے بعد اس کی جائز و مستحسن سرگرمی بھی مشکوک نظر آنے لگتی ہے،
اس متعلق کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے،
تفاوت است میان شنیدن من و تو!-
تو غلق باب ومنم فتح باب شنوم!
یعنی میرے اور تمہارے درمیان صرف سماعت کا فرق ہے ایک آواز آتی ہے تم اس کو دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں سمجھتاہوں کہ دروازہ کھلنے کی آواز ہے مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں کیچڑ بھی ہے اور پھول بھی ہیں یہ بصارت والوں کی بات ہے کہ کون کس چیز کو دیکھتا ہے ایک ہی آواز ہے مگر نادان سوئے ظن میں مبتلا ہوجاتا ہے اور دانا حسن ظن میں،
تمام مسائل ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور ذہن کے اندر ہی ان ختم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ آدمی کے اندر عقل سلیم اور فہم صالح ہو حقیقت یہ کہ یہ دنیا عقل و شعور کا امتحان گاہ ہے جو عقل استعمال کرے گا وہ اپنے لئے راستہ پا لے گا جو عقل کو استعمال نہیں کرے اس کے لئے بربادی کے سوا کوئی انجام مقدر نہیں
کہنے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ حقیقت کی تحقیق و تفتیش کے بغیر کسی کی سرگرمیوں اور پیشقدمیوں سے از خود منفی نتائج برآمد کر لینا یہ نہ صرف شرمناک و خطرناک حرکت ہے بلکہ عند اللّٰہ اور عند الناس قابلِ مواخذہ فعل ہے، چونکہ کسی بے گناہ کو برسر عام ذلیل ورسوا کرنے کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی انسانی سماج،
از قلم: ایوب مظہر نظامی
خادم تحریک پاسبانِ ملت سیمانچل
بتاریخ ٢٧ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ