امریکہ میں ہوۓ حالیہ صدارتی انتخاب کے نتائج آچکے ہیں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو انتخاب میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے اور اسی کے ساتھ وہ آنے والے 75 دنوں کے اندر ایک بار پھر امریکہ کے صدر بن جایٔیں گے۔
پوری دنیا کو صنفی مساوات اور حقوق نسواں کا لکچر دینے والے امریکہ کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک وہاں کویٔ خاتون صدر نہیں بنی ہے اس بار بھی حسب سابق کملا ہیرس کو امریکیوں نے مسترد کردیا۔
اگر ہم ترمپ کی بات کریں تو ڈونالڈ ٹرمپ ایک نسل پرست جارح مزاج سیاست دان ہیں پیشے سے تاجر ٹرمپ اپنے سخت گیر فیصلوں کے سبب جانے جاتے ہیں ،امریکہ کے بارے میں یہ کہاجاتاہے ہے کہ صدر خواہ کویٔ بھی بنے یا کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل ہو مجموعی طور پر امریکا کی خارجہ پالیسی میں کویٔ خاص تبدیل نہیں ہوتی۔
اگر ہم امریکہ کی جمہوری تاریخ کا سرسری طور پر جائزہ لیں تو یہ بات نکل کر آتی ہے کہ گزشتہ کیٔ دہائیوں سے امریکیوں میں ڈیموکریٹ کے تیٔیں ایک اعتماد بہر حال برقرار تھا اور اسی وجہ سے عام امریکیوں کے بارے میں دنیا کی راۓ یہ تھی وہ جمہوریت پسند ہیں لیکن ٹرمپ کی شاندار ریکارڈ توڑ جیت نے امریکہ کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کردیا ہے۔
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ٹرمپ کو تقریباً ہر طبقے اور کمیونٹی سے زبردست ووٹ ملے ہیں یہاں تک کہ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے 47 فیصد مسلمانوں نے بھی ٹرمپ کو ووٹ کیا ہے !!!
یہودی لابی کی مکمل حمایت اس بار ٹرمپ کے ساتھ تھی اس کی وجہ اسرائیل کے ساتھ ٹرمپ کے ذاتی اور دوستانہ تعلقات ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ آخر مسلمانوں نے ٹرمپ کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کیوں دیا اس کا جواب یہ ہے کہ امریکی مسلمان بایٔڈن اور ان کی حلیف کملا ہیرس سے سے غزہ میں ہو رہی نسل کشی کے سبب سخت ناراض تھے اسلیے وہ بایٔڈن کو جواب دینا چاہتے تھے اور انہوں نے جواب دیا بھی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسلمان ٹرمپ سے خوش تھے بالکل نہیں لیکن ٹرمپ کے علاوہ ان کے پاس کویٔ دوسرا آپشن نہیں تھا۔
اور پھر یہ کہ ٹرمپ نے ایک امریکی ریاست مشی گن میں ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوۓ امریکی مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد غزہ اسرایٔل جنگ کو رکوادیں گے "
ٹرمپ نے کہا تھا ” یہ کمیونٹی جانتی ہے کہ کملا ہیرس اور ان کی جنگ پسند کابینہ مشرق وسطیٰ پر حملہ کر کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دے گی، اس طرح تیسری عالمی جنگ شروع ہو جائے گی مجھے ووٹ دینے سے امن بحال ہوگا”
گوکہ ٹرمپ سے فلسطینیوں کے لیے خیر خواہی کی امید رکھنا ہوا میں محل تعمیر کرنے کے مترادف ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹرمپ تاجر ہونے کی حیثیت سے جنگ کو مزید طول دینے کی اجازت نہیں دیں گے ٹرمپ پہلے بھی مشرق وسطیٰ سے امریکی فوجیوں کے انخلاء اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔”
ٹرمپ کے بارے مبصرین کی ایک راۓ یہ بھی ہے ٹرمپ
"ٹرمپ ثالثی نہیں کرتے بلکہ وہ حل تھوپتے ہیں
جب فریقین میز پر حل کے لیے بیٹھیں گے تو بات تو اسی کی مانی جاۓ جو طاقتور ہوگا ظاہر سی بات ہے طاقت اسرایٔل کے پاس ہے گوکہ فلسطینیوں کا نقصان تو ہوگا لیکن ٹرمپ کے آنے کے بعد مشرق وسطی میں جنگ بندی کی ایک دھندلی امید ضرور دکھ رہی ہے۔
تحریر: معین الدین مصباحی