تنقید و تبصرہ فقہ و فتاویٰ

” ملفوظ الصفر ” کے فقہی مباحث

سلطان المحققين ٬ مخدومِ جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ ( متوفیٰ : ۷۸۲ ھ ) کے مقامِ علم و روحانیت کا کیا پوچھنا ! آپ کی ولایت و روحانیت اور علمی جلالت پر اہلِ علم کا اتفاق ہے ۔ آپ کی ذاتِ گرامی علوم و فنون کا کوہِ ہمالہ اور طریقت و معرفت کا ایک معتبر حوالہ ہے ۔ اکابر علما و مشائخ نے آپ کے مکتوبات و ملفوظات اور کتب و رسائل کو اعتماد کی نظروں سے دیکھا ہے اور ان کو حرزِ جاں بنایا ہے ۔ آپ جامع العلوم ٬ منبع الکمالات اور جامع الحیثیات تھے ۔ آپ کی کتابوں کے مطالعے سے آپ کی علمی جلالت اور سلوک و تصوف میں آپ کی عبقریت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ آپ جہاں اپنے وقت کے ممتاز صوفی اور یگانۂ روزگار شیخ و مرشد تھے ٬ وہیں اپنے زمانے کے مسلم الثبوت عالمِ دین ٬ صاحبِ فکر و بصیرت ٬ متکلم و فلسفی ٬ فقید المثال محدث ٬ سلطان المحققين اور فقہ و شریعت پر گہری نظر رکھنے والے فقیہ و مفتی تھی ۔ آپ کے محدثانہ مقام ٬ متکلمانہ حیثیت اور فقہی بصیرت پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ حضرت سید جلال الدین بخاری قدس سرہ ( مخدوم جہانیاں جہاں گشت ) سے لوگوں نے پوچھا کہ اس آخری عمر میں آپ کی مشغولیت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے ” مکتوبات ” کے مطالعہ میں مشغول ہوں ۔ پھر لوگوں نے پوچھا : شیخ شرف شرف الدین کے مکتوبات کیسے ہیں ؟ فرمایا کہ بعض مقامات ابھی بھی سمجھ میں نہیں آئے ہیں ۔

( مناقب الاصفیاء ، ص : ۲۸۰ ، مطبوعہ : مطبوعہ : مکتبۂ شرف بیت الشرف ، خانقاہ معظم ، بہار شریف )

دعوت و تبلیغ ٬ رشد و ہدایت اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت کے ساتھ آپ نے فارسی زبان و ادب کے فروغ و استحکام میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ حضرت شیخ سعدی شیرازی کے بعد فارسی نثر نگاری میں اگر ہند و ایران میں کسی بزرگ کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ حضرت مخدومِ جہاں کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ وہ فضیلت و خصوصیت ہے جو آپ کو معاصرین اور متاخرین صوفیا سے منفرد و ممتاز کرتی ہے ۔ پروفیسر واصف احمد ( ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ عربی و فارسی وشو بھارتی یونیورسٹی ٬ شانتی نکیتن ٬ مغربی بنگال ) مولانا مناظر احسن گیلانی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

دینی و علمی برتریاں جو حضرت مخدوم جہاں ( شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ ) کو بارگاہِ ربانی سے ارزانی فرمائی گئی ہیں ، ان سے تو دنیا واقف ہے ۔ لیکن کم از کم میرا خیال تو یہی ہے کہ نثر نگاری میں سعدی شیرازی کے بعد کسی کا نام ہند ہی میں نہیں بلکہ ایران میں بھی اگر لیا جا سکتا ہے تو شاید وہ بہار کے مخدوم الملک ہی ہو سکتے ہیں ۔ مکتوبات کی شکل میں آپ نے جو ارقام فرمایا ہے ٬ فارسی زبان میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔

( ماہنامہ فکر و نظر ٬ علی گڑھ ٬ فارسی ادب نمبر ٬ جولائی 2011 ء ٬ ص : 315 )

آپ کے انہیں فضائل و کمالات کے پیشِ نظر عربی ٬ فارسی اور اردو کی تقریباً دو سو کتابوں میں آپ کے تذکرے اجمال و تفصیل کے ساتھ پائے جاتے ہیں ٬ جنہیں یکجا کرنے کی ضرورت ہے ٬ تاکہ ان بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پِرو کو سیرت و سوانح کا ایک قیمتی ہار تیار کیا جا سکے ۔ بطورِ نمونہ یہاں تین بزرگ مصنفین کے مختصر اقتباس پیش کیے جاتے ہیں ۔ صاحبِ مرأۃ الاسرار حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی فرماتے ہیں :

” آں جائے نشین انبیاء با استحقاق ٬ آں غریقِ بحرِ مشاہدہ باتفاق ٬ آں خو گرفتہ بکمال برد باری ٬ قطب مشائخ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری قدس سرہ کاملانِ وقت میں سے تھے ۔ آپ شانِ بزرگ ، احوالِ مستور اور بلند ہمت کے مالک تھے ۔ ابتدائے حال سے لے کر انتہائے سلوک تک آپ پیکرِ سنتِ نبوی رہے ۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ انبیا علیہم السلام معصوم اور اولیا محفوظ ہیں ، آپ اس کے صحیح نمونہ تھے ۔ آدابِ مذہبِ صوفیہ جس قدر آپ کی تصانیف میں پائے جاتے ہیں اور کہیں نہیں ملتے ” ۔

اخبار الاصفیاء میں آپ کو ” مطلعِ اسرارِ الہٰی ” ٬ ” مشرق انوارِ نا متناہی ” ٬ ” یکے از مشاہیرِ مشائخِ ہند ” اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ کا فیض یافتہ بتایا گیا ہے ۔ عبارت یہ ہے : شیخ شرف الدین بن شیخ یحیی بن شیخ اسرائیل منیری برد الله مضجعهم مطلعِ اسرارِ الہٰی و مشرقِ انوارِ نا متناہی بود ٬ از مشاہیرِ مشایخ ہندوستان است ٬ اگر چہ مرید شیخ نجیب الدین فردوسی است لیکن فیض از شیخ فرید الدین گنج شکر نیز بر گرفتہ . ( اخبار الاصفیاء ٬ ص : 145 )

شاہ عبد الحق محدث دہلوی ” اخبار الاخیار ” میں لکھتے ہیں کہ شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کا شمار ہندوستان کے مشہور مشائخ میں ہوتا ہے ۔ آپ کے فضائل و مناقب محتاجِ بیان نہیں ۔ آپ کی تصنیفات بھی کثرت سے ہیں ٬ جن میں ” مکتوبات ” زیادہ مشہور ہیں ۔ یہ اس لحاظ سے بھی بے نظیر اور بہترین کتاب ہے کہ اس میں آدابِ طریقت اور رموزِ حقیقت درج کیے گئے ہیں ٬ اگر چہ آپ کے ملفوظات بھی ایک مرید نے جمع کئے ہیں ٬ لیکن مکتوبات میں لطافت و شیرینی کا پہلو زیادہ نمایاں ہے ۔ ( اخبار الاخیار ٬ ص : 255 ٬ لاہور )

مندرجہ بالا اقتباسات سے جہاں حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی بلند قامت شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے ٬ وہیں آپ کے ملفوظات و مکتوبات کی افادیت و معنویت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ صوفیائے کرام اور مشائخِ امت کے ملفوظات و مکتوبات میں حضرت مخدوم جہاں کے مکتوبات و ملفوظات کو مختلف جہتوں سے تفرد و امتیاز حاصل ہے ۔ آپ کے کتب و رسائل اور مکاتیب و ملافیظ کی نمایاں ترین خصوصیات میں دلائل و شواہد کی فراوانی ٬ محققانہ قوتِ استدلال ٬ عالمانہ طمطراق ٬ لطفِ زبان ٬ بیان کا حسن ٬ ادب خی چاشنی ٬ ندرتِ اسلوب ٬ شگفتہ اندازِ تحریر ٬ کثرت سے احادیث کا استعمال ٬ حقائق و معارف سے لبریز مواد اور مختلف علوم و فنون کی شمولیت و آمیزش ہے ۔ ” مکتوباتِ صدی ” / ” مکتوباتِ دو صدی ” / ” معدن المعانی ” / ” شرحِ آداب المریدین ” / ” گنجِ لا یفنیٰ ” وغیرہ کا مطالعہ کرنے والا ہمارے دعوے کی ضرور تصدیق کرے گا ۔ سچ پوچھیے تو آپ کے مکتوبات و ملفوظات نے علم و حکمت ٬ فکر و دانش ٬ ادب اور تصوف و روحانیت کی دنیا میں انقلابِ عظیم برپا کیا ہے ۔ چودھری اقبال سلیم کے اس حقیقت آمیز قول کی تائید ہر انصاف پسند قاری کرے گا کہ :

” حضرت مخدوم شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری فردوسی کے ملفوظات معدن المعانی ، خوانِ پُر نعمت ، راحت القلوب ، مخ المعانی ، مونس المریدین ، گنجِ لا یفنیٰ ، فوائدِ غیبی ، مغز المعانی اور تحفۂ غیبی نے بر صغیر کے مسلمانوں میں اسلامی روح پھونک دی ہے ” ۔

( ابتدائیہ جوامع الكلم ، ص : 21 ، مطبوعہ : نفیس اکیڈمی ، لاہور )

حضرت مخدوم جہاں کے گراں قدر ملفوظات میں ایک اہم ملفوظ ” ملفوظ الصفر ” بھی ہے ٬ جو ضخامت کے لحاظ سے کہتر لیکن قدر و قیمت کے اعتبار سے بہتر و برتر ہے ۔ دیگر ملفوظات کی طرح اس گراں قدر مجموعۂ ملفوظات کے جامع و مرتب بھی حضرت مخدوم جہاں کے نامور مرید و خادمِ خاص حضرت زین بدر عربی علیہ الرحمہ ہی ہیں ۔ یہ ملفوظات حضرت مخدوم جہاں کے وصال سے تقریباً بیس سال قبل 23 / صفر المظفر 762 ھ سے 15 / جمادی الآخرہ 762 ھ کے درمیان جمع کیے گئے ہیں ۔ یہ ملفوظات کُل 29 / مجالس پر مشتمل ہیں ۔دیگر ملفوظات کی طرح ” ملفوظ الصفر ” بھی حضرت مخدوم جہاں کی بیش قیمت تعلیمات اور گراں قدر اقوال و ملفوظات کا مجموعہ ہے ۔ راقم الحروف کی محدود نظر جہاں تک پہنچ سکی ٬ اس میں صاحبِ ملفوظ نے کثرت سے شریعت و طریقت کے حقائق و معارف بیان کیے ہیں اور اپنے موقف کی تائید میں جا بجا احادیث سے استدلال کیا ہے ۔ علاوہ ازیں فقہ و شریعت کے بہت سارے مسائل بھی آپ نے بیان کیے ہیں ۔ فقہی مباحث کا اچھا خاصا ذخیرہ اس میں موجود ہے ۔ زیرِ نظر مضمون میں ” ملفوظ الصفر ” میں درج چند فقہی مباحث کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر محمد علی ارشد شرفی دام ظلہ ( مترجم کتاب ہٰذا ) اس کے مشمولات و مندرجات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

ملفوظ الصفر کی یہ چونتیس ( ۳۴ ) مجالس ایسی پاکیزہ اور پُر تقدس ہیں ٬ جن میں علومِ شرعی کی بھر پور وضاحت بھی ملتی ہے اور طریقت کے روامز ( رموز و اسرار ) کی عقدہ کشائی بھی ۔ ان کے علاوہ حقیقت و معرفت کے انوار و تجلیات سے کوئی صفحہ خالی نہیں ۔ اگر اس کتاب میں فقہی مسائل کے تحت جو امور آئے ہیں ٬ ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرض اور سنتِ مؤکدہ کے درمیان تاخیر نہ کی جائے ، سنت مؤکدہ پڑھنے کے بعد آیت الکرسی پڑھی جائے ، جانوروں کا گوشت حلال ہے کہ حرام ، ان شاء اللہ کہنے کی تاکید ، بلی کا جوٹھا پاک ہے یا نا پاک ، تعزیت کا طریقہ ، قرآن کی تعلیم ، امامت اور اذان پر اجرت ، قضا و قدر ، جبر و اختیار، یزید پر لعنت ، شافعی مذہب لڑکی سے شادی ٬ تعمیرِ جدید کے لیے پہلی مسجد کی شہادت ، کافروں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جانے کی ممانعت ٬ تلقینِ موتیٰ ، اہل سنت و جماعت کی تعریف اور حضرت امام شافعی کی عظمت جیسے نکات پر تشفی بخش گفتگوملتی ہے تو طریقت و حقیقت کے زیرِ عنوان …….. اہم ترین موضوعات کی صراحت بھی موجود ہے ۔ اس کتاب میں شریعت و طریقت اور معرفت و حقیقت کا امنڈتا ہوا بحرِ بیکراں تو ہے ہی ٬ ساتھ ہی یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارے مخدوم نہ صرف اس بحرِ بیکراں کے شناور ہیں ٬ بلکہ ملکی ٬ سیاسی ، سماجی و معاشرتی حالات کے نباض بھی ہی اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبودی کے لیے فکر مند بھی ۔

( پیش لفظ ملفوظ الصفر ٬ ص : 3 ٬ 4 )

حضرت مخدوم جہاں نے زیرِ نظر تصنیف ” ملفوظ الصفر ” میں جن فقہی مباحث پر روشنی ڈالی ہے اور اپنی فقہی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے جو شرعی احکام و مسائل بیان کیے ہیں ٬ ان میں سے چند یہاں بیان کیے جاتے ہیں اور فقہائے کرام کے اقوال و ارشادت سے ان کی تائید و توثیق پیش کی جاتی ہے ۔

( 1 ) فرض اور سنت کے درمیان فصل اور تاخیر کا حکم :

حدیث شریف میں فرض نمازوں کے بعد مختلف ادعیہ ( دعائیں ) اور اَذکار پڑھنے کا حکم ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد سنت سے پہلے یہ ادعیہ اور اذکار پڑھے جائیں یا سنت کے بعد ۔ اس سلسلے میں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ، اُن میں طویل وظائف اور دعاؤں کا وقفہ ( فصل و تاخیر ) نہ کرنا افضل ہے ، اِس لیے اَفضل یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد مختصر دعا و تسبیح کر کے سنتیں ادا کی جائیں اور بقیہ اَذکار و وظائف سنتوں کے بعد پڑھے جائیں ۔ چنانچہ در المختار میں ہے کہ ” فرض نماز کے بعد سنت میں تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ ہاں ! اللھم انت و منک السلام ….. کی مقدار میں تاخیر جائز ہے ” ۔ اس کے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں :

( قوله: إلا بقدر اللهم إلخ ) لما رواه مسلم و الترمذي عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يقعد إلا بمقدار ما يقول : اللهم أنت السلام و منك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام و أما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة ، بل يحمل على الإتيان بها بعدها ٬ لأن السنة من لواحق الفريضة و توابعها و مكملاتها فلم تكن أجنبية عنها .

یعنی امام مسلم و ترمذی نے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ فرض نماز کے بعد : اللھم انت السلام و منک السلام ……. کی مقدار میں بیٹھتے تھے ( اور اس کے بعد سنت کی ادئیگی میں مشغول ہو جاتے تھے اور طویل ذکر و ورد نہیں کرتے تھے ) اور جن احادیث میں نماز کے بعد اوارد و وظائف پڑھنے کا ذکر ہے ٬ وہ سنت سے پہلے نہیں بلکہ سنت کے بعد پڑھنے پر محمول ہیں ۔ چوں کہ سنت ٬ فرض کے لواحق و توابع میں سے ہے ٬ اس لیے ( طویل اوراد و وظائف کے سبب ) یہ اجنبی نہیں ہو سکتی ۔

( فتاویٰ شامی ٬ کتاب الصلوٰۃ ٬ جلد دوم ٬ ص : 246 ٬ مطبوعہ : دار عالم الکتب ٬ الریاض )

حضرت صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ” بہار شریعت ” میں لکھتے ہیں :

نماز کے بعد جو اذکارِ طویلہ احادیث میں وارد ہیں ، وہ ظہر و مغرب و عشا میں سنتوں کے بعد پڑھے جائیں ٬ قبلِ سنت مختصر دُعا پر قناعت چاہیے ، ورنہ سنتوں کا ثواب کم ہو جائے گا ۔

( بہارِ شریعت ٬ جلد اول ٬ حصہ سوم ٬ ص : 549 ٬ ناشر : مجلس المدینۃ العلمیۃ ٬ کراچی )

مخدومِ جہاں حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری قدس سرہ فقہ کے اسی مسئلے کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :

بعض فرض نمازیں وہ ہیں جن کے بعد سنت بھی پڑھنی ہیں اور بعض وہ ہیں جن کے بعد سنت نہیں ہیں ۔ وہ فرض نمازیں جن کے بعد سنت بھی ہیں ٬ اس فرض اور سنت کے درمیان کسی چیز کی وجہ سے فصل یعنی تاخیر نہیں کی جائے ، بلکہ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اٹھ جائیں اور سنت کی ادئیگی کریں ۔ اس کے بعد آیۃ الکرسی یا اور چیزیں جو فرض کے بعد پڑھنے کی ہیں ٬ ان کو پڑھیں ۔ ہاں ! وہ گنتی کے چند کلمے ( تسبیح ) جو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں اور جن کو رسول اکرم ﷺ فرض نمازوں کے بعد پڑھا کرتے تھے ٬ ان کو پڑھیں ۔ قیاس تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب فرض اور سنت کے درمیان فصل یعنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے تو پھر اتنی مقدار میں بھی فصل ( تاخیر ) نہیں ہو اور وہ چند کلمات پڑھنے سے تاخیر لازم آتی ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب نقل ( حدیث ) سے یہ بات ثابت ہے تو صرف اتنی ہی مقدار میں تاخیر کی جائے ٬ اس سے زیادہ کی نہیں ۔

( ملفوظ الصفر ٬ ص : 32 ٬ ناشر : شرف الاشاعت ٬ بہار شریف ٬ نالندہ )

( 2 ) نماز میں قرأتِ قرآن فرض ہے :

نماز میں قرآن کی قرأت فرض ہے اور حدیث میں فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ اگر کوئی شخص فرض نماز میں یا فرض نماز کے بعد کی سنت میں آیت الکرسی پڑھ لے تو اس سے اس کو فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے کا ثواب نہیں ملے گا ۔ کیوں کہ اس صورت میں آیت الکرسی کی قرأت ادائیگیِ فرض کے طور پر ہوگی ۔ چنانچہ جب اس سلسلے میں حضرت مخدوم جہاں سے شیخ معز الدین نامی شخص نے سوال کیا کہ فرض کے بعد جو سنتیں ہیں ٬ اگر ان سنت نمازوں میں آیۃ الکرسی پڑھ لی جائے تو اس کا شمار ہوگا کہ نہیں ؟ ( یعنی فرض نماز کے بعد جو آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت ہے ٬ سنت میں اس کی قرأت کے سبب اس کو ثواب ملے گا یا نہیں ) اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا :

اس کا شمار نہیں ہوگا ٬ اس لیے کہ اس کی حیثیت قرأت کی ہوگی ۔ ہر نماز کے لیے قرأت ( فرض ) ہے ۔ سنت میں اگر آیۃ الکرسی پڑھی گئی تو وہ در اصل نماز میں قرأت کی گئی اور قرأت کے ارادے سے پڑھی گئی ٬ نہ کہ اس ارادے سے پڑھی گئی کہ ہم فرض نماز کے بعد جو آیۃ الکرسی پڑھنے کا حکم ہے ٬ وہ پڑھ رہے ہیں ۔

                 ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 33 )

( 3 ) مور ( پرندہ ) کھانا جائز ہے :

” ملفوظ الصفر ” کے جامع شیخ زین بدر عربی نے عرض کیا کہ مور ( پرندہ ) کا کھانا کیسا ہے ؟ اس پر آپ نے جانور کے کھانے کی وجہِ حرمت و حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مور کا کھانا جائز ہے ۔ جواب کے الفاظ یہ ہیں : مور کھانے میں کیا ( حرج ) ہے ۔ نہ وہ پنجہ والا جانور ہے ، نہ درندہ ہے ، نہ خشکی و تری کا کیڑا ہے اور نہ شرع شریف میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے ، پھر اس کو نہیں کھانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ۔

               ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 47 )

مسلم شریف کی حدیث ہے : نهى النبي عليه الصلاة والسلام عن كل ذي ناب من السباع و كل ذي مخلب من الطير . یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے ہر دانت والے درندے اور ہر پنجے ( سے شکار کرنے ) والے پرندے کا ( گوشت ) کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ ( رواه مسلم ٬ رقم الحدیث : 3574 )

اس لیے فقہائے کرام نے پنجے سے شکار کرنے والے اور دوسرے پرندوں پر حملہ آور ہونے والے پرندوں کو حرام قرار دیا ہے جیسے : شیر ٬ چیتا ٬ باز وغیرہ ۔ ان کے علاوہ جو پرندے ہیں مثلاً : مرغی ، فاختہ ، کبوتر وغیرہ بالاتفاق حلال ہیں اور مور بھی انہیں پرندوں میں شامل ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی پنجوں سے شکار نہیں کرتے ، لہٰذا مور کا کھانا بلاشبہ جائز اور حلال ہے ۔

فتاویٰ عالم گیری میں ہے :

ولا بأس بأکل الطاؤس و عن الشعبی یکرہ اشد الکراھة ٬ بالاول یفتیٰ ٬ کذا فی الفتاوی الحمادیة .

یعنی مور کھانے میں کوئی قباحت اور حرج نہیں اور شعبی سے نقل کیا گیا ہے کہ سخت مکروہ ہے ٬ لیکن فتویٰ اس پر ہے کہ مور کا کھانا جائز ہے ۔ جیسا کہ فتاویٰ حمادیہ میں ہے ۔

( الفتاوی الھندیة ٬ الجزء الخامس ٬ ص : 358 ٬ الباب الثانی فی بیان مایؤکل من الحیوان و ما لا یؤکل ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )

( 4 ) بین اور نوحہ کرنا حرام ہے :

جب کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو میت کے عام وارثین پر تین دن اور بیوی پر چار ماہ ٬ دس دن سوگ ہے ٬ اس کے بعد سوگ جائز نہیں ۔ لہٰذا تین دن کے بعد جہاں سوگ منع ہے ٬ وہیں تجدیدِ حزن بھی جائز نہیں ۔ یعنی فوت شدہ یا شہید ہو جانے والے کو اس انداز میں یاد کرنا کہ حزن و غم تازہ ہو یہ جائز نہیں ہے ۔ جس موقع پر سوگ کی اجازت ہے یعنی میت کے انتقال پر عام وارثین کے لیے تین دن اور بیوی کے لیے چار ماہ ٬ دس دن ٬ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ نوحہ اور بین نہ کیا جائے ۔ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرَّحمہ نوحہ سے متعلق فرماتے ہیں :

نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کر کے آواز سے رونا جس کو ” بین ” کہتے ہیں بالاجماع حرام ہے ۔ یوں ہی واویلا یا وا مصیبتا کہہ کر چلانا ( نا جائز و حرام ہے )

( بہار شریعت ، جلد اول ٬ حصہ چہارم ٬ ص : 854 ٬ ناشر : مجلس المدینۃ العلمیۃ ٬ کراچی )

نوحہ اور بین کی حرمت کے متعلق بستانِ ابو اللیث کے حوالے سے حضرت مخدوم جہاں فرماتے ہیں :

النوح حرام و لا بأس بالبکاء و الصبر أفضل . بین ( نوحہ ) کرنا حرام ہے ٬ رونے میں ( جب کہ بلند آواز سے نہ ہو ) حرج نہیں اور صبر سب سے افضل ہے ۔

             ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 36 )

( 5 ) مینڈھا کھانا جائز ہے :

مینڈھا ٬ بھینس کی جنس سے ہے اور اس کا کھانا حلال ہے ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مینڈھے کی قربانی کی ۔ عن أنس بن مالكٍ رضي الله عنه قال : ضَحَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقَرْنَيْنِ ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَ سَمَّى وَ كَبَّرَ وَ وَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا .

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے کی اپنے ہاتھ سے قربانی کی ( ذبح کرتے ہوئے ) آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھی ، تکبیر کہی اور اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا ۔

حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا مینڈھا کھانے کی اجازت ہے ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :

ہاں ! مینڈھا کھانا مباح ( جائز ) ہے ۔ اس کے بارے میں جو عبارت آئی ہے ٬ وہ یہ ہے : لانه نوع من الجاموس ( یعنی مینڈھا ایک قسم کی بھینس ہے ) اس کے بعد شیر ، درندے ٬ خشکی و پانی کے کیڑے وغیرہ کے حرام کیے جانے کی حکمت بتاتے ہوئے فرمایا کہ کھانے کی جتنی چیزیں ہیں ٬ ان کے اندر ایک خاص تاثیر رکھی گئی ہے ۔ آدمی جب ان چیزوں کو کھاتا ہے تو اس چیز کی جو خاصیت و ماہیت ہے ٬ وہ اس آدمی میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا جو چیزیں حرام کی گئی ہیں ٬ ان میں بھی یہی حکمت و مصلحت ہے ۔

            ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 47 )

( 6 ) بلّی کے جھوٹے کا حکم :

بلّی کے جوٹھے کے پاک ہونے سے متعلق مختلف احادیث موجود ہیں ٬ جن سے یہ مسئلہ واضح ہے کہ بلّی کا جھوٹھا پاک ہے ۔ اگر پانی کے برتن میں یا دودھ وغیرہ میں بلّی منہ ڈال دے تو اس سے وہ برتن ٬ پانی یا دودھ ناپاک نہیں ہوگا اور اس پانی سے وضو و غسل کرنا جائز ہوگا ۔ عن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال فی الھرة انھا لیست بنجس انما ھی من الطوافین علیکم . ( سنن أبی داؤد )

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلّی کے متعلق فرمایا کہ یہ ناپاک نہیں ہے ۔ یہ تم پر طواف اور گشت لگانے والوں میں سے ہے ۔ مشکوٰۃ المصابیح کی حدیث ہے : قالت : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یتوضؤ من فضلھا . یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بلّی کے جُوٹھے پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے ۔

علمائے احناف کے نزدیک بلّی کا جھوٹا پاک ہے لیکن کراہت کے ساتھ یعنی بلّی کا جھوٹا مکروہ ہے ۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے : گھر میں رہنے والے جانور جیسے بلّی ، چوہا ، سانپ ، چھپکلی کا جھوٹا مکروہ ہے ۔

( الفتاویٰ الھندیۃ ، کتاب الطہارۃ ، ، جلد اول ٬ ص : 24 ٬ بیروت )

حضرت مخدومِ جہاں قدس سرہ نے احناف میں سے امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے قول کو اختیار کرتے ہوئے بلّی کے جھوٹے کو مطلق پاک و طاہر قرار دیا ہے ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

حضور نبی کریم ﷺ کے پاس بھی بلّی تھی اور آپ کے وضو والے برتن میں پانی پی لیتی تھی ۔ بلی کے جوٹھے سے متعلق ائمہ کا اختلاف ہے ۔ امام ابی یوسف قاضی نے بلّی کے جوٹھے کو پاک کہا ہے اور دلیل میں یہ پیش کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ وضو کرتے ٬ بلّی آجاتی ، پانی پینے کی خواہش کرتی ، آپ وضو کا برتن اس کے سامنے کر دیتے ، وہ اس برتن سے پانی پی لیتی ، اس کے بعد آپ اسی پانی سے وضو کر لیتے ۔ اگر بلّی کا جوٹھا پاک نہیں ہوتا تو اس کے جوٹھے پانی سے وضو کیسے جائز ہوتا ۔

               ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 56 )

( 7 ) اللہ عز و جل کو طبیب کہنے کا حکم :

” طبیب ” جسے عرفِ عام میں مرض اور بیماری کے علاج کرنے والے کو کہتے ہیں ٬ اس کا اطلاق اللہ عز و جل کے حق میں جائز و درست ہے یا نہیں ٬ اس سلسلے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے ۔ حدیثِ پاک کی رو سے اللہ رب العزت کے لیے طبیب بولا جانا ثابت ہے ٬ اس لیے بعض اکابر فقہا نے اس لفظ کے اطلاق کو اللہ رب العالمین کے حق میں کچھ شرط و قید کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ۔ حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ بھی جواز کے قائل ہیں ۔ مسند احمد بن حنبل و سنن أبی داؤد کی حدیث ہے :

عن أبي رَمْثة رضي الله عنه أنَّه قال للنبي صلى الله عليه وسلم : أَرِني هذا الذي بظهرك ، فإنِّي رجلٌ طبيبٌ ، قال : اللهُ الطبيبُ ، بل أنت رجلٌ رَفِيقٌ ، طبيبُها الذي خلقَها .

حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ مجھے اپنی پشت پر جو یہ ( مُہر نبوت ) ہے دکھائیں ٬ کیوں کہ میں طبیب آدمی ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : طبیب صرف اللہ عز و جل ہے اور تم تو بس نرمی و مہربانی کرنے والے شخص ہو ۔ اس کا طبیب تو وہ ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔

( سنن أبی داود ، رقم الحديث : 4207 ٬ بیروت )

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کے سینے پر ہاتھ رکھ ایک دعا پڑھی ، جس میں اللہ تعالیٰ کو طبیب کہا گیا اور آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا :

عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى صَدْرِهِ فَقُلْتُ : أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، أَنْتَ الطَّبِيبُ وَ أَنْتَ الشَّافِي …….

( مسند امام أحمد بن حنبل ، رقم الحديث : 42774 ٬ دار الفکر ٬ بیروت )

علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمہ فیض القدیر میں لکھتے ہیں :

لكن تسمية الله الطبيب إذا ذكره في حالة الاستشفاء نحو أنت المداوي ٬ أنت الطبيب سائغ ، و لا يقال يا طبيب كما يقال يا حكيم ! لأن إطلاقه عليه متوقف على توقيف .

( فیض القدیر ٬ جلد دوم ٬ ص : 124 ٬ ناشر : دار الكتب العلمية ٬ بیروت )

یعنی علاج و معالجہ اور حقیقی شفا دینے کی رو سے اللہ تعالیٰ کو طبیب کہا جا سکتا ہے ۔ مثلاً : أنت المداوی ٬ انت الطبیب ۔ لیکن اللہ عز و جل کے نام کے طور پر دعا وغیرہ کے موقع پر اللہ عز و جل کو ” یا حکیم ” کی طرح ” یا طبیب ” نہیں کہہ سکتے ٬ اس لیے کہ اسمائے باری تعالیٰ توقیفی ہیں ۔

مذکورہ بالا توضیحات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مخدومِ جہاں کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں :

اللہ تعالیٰ کو طبیب کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس پر گفتگو کرنے سے پہلے طبیب کا معنی جاننا ہوگا ۔ ” طبیب ” کا معنی دوا اور مرض کا جاننے والا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو طبیب کہنا جائز ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی معنی میں استعمال کیا ہے ۔ جب وہ بیمار ہوئے اور لوگوں نے عرض کیا : اگر حکم ہو تو طبیب کو حاضر کروں ۔ ( اس پر آپ نے ) فرمایا : الطبيب مرضنی . جس نے مجھ کو بیمار ڈالا ہے ٬ وہی مرض اور دوا کا عالم ہے ، اس لیے طبیب کو بلانے کی کیا ضرورت ۔ اس کے بعد ( حضرت مخدوم جہاں نے ) فرمایا : امام غزالی سے منقول ہے کہ ایسا لفظ جس سے دانشوروں کی نظر میں غلطی اور نقصان کا شائبہ ظاہر نہ ہو اور شرع کی رو سے اس کی ممانعت بھی نہ ہو ٬ ویسا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بولنا جائز ہے اور ایسا لفظ جس میں نقص پایا جائے اور شریعت کی رو سے اجازت بھی نہ ہو ٬ ویسا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ٬ مثلاً : عارف ۔

              ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 59 )

( 8 ) عبادات مثلاً تعلیمِ قرآن و اذان و امامت پر اجرت کا شرعی حکم :

اصل حکم یہ ہے کہ طاعات و عبادات پر اجارہ یعنی اجرت جائز نہیں ٬ لیکن شرعی ضرورت کے تحت اب عبادات پر اجرت جائز ہے اور متاخرین نے اسے جائز قرار دیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

اصل حکم یہ ہے کہ وعظ پر اجرت لینی حرام ہے ۔ درِّ مختار میں اسے یہود و نصاریٰ کی ضلالتوں میں سے گِنا ٬ مگر ” کم من احکام یختلف باختلاف الزّمان کما فی العالم گیریۃ ” ( یعنی بہت سے احکام زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے ) کلیہ غیرِ مخصوصہ کہ طاعات پر اُجرت لینا نا جائز ہے ٬ ائمہ نے حالاتِ زمانہ دیکھ کر اس میں سے چند چیزیں بضرورت مستثنیٰ کیں ۔ مثلاً : امامت ، اذان ، تعلیمِ قرآنِ مجید ، تعلیمِ فقہ کہ اب مسلمانوں میں یہ اعمال بلا نکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں ۔

( فتاویٰ رضویہ ٬ جلد : 19 ٬ ص : 435 )

امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :

بحر الرائق پر خیر الدین رملی کے حاشیہ میں کتاب الوقف کی بحث میں ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا مفتیٰ بہ قول پر جائز ہے الخ ایسی عبارت کثیر کتب میں موجود ہے ۔

             ( فتاویٰ رضویہ ٬ 19 / 421 )

حضرت مخدومِ جہاں قدس سرہ بھی متاخرین احناف کے موقف کی تائید کرتے ہوئے عبادات و طاعات پر اجرت کو جائز قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ :

عبادات پر اجرت لینا درست نہیں ہے ٬ جیسے قرآن مجید کی تعلیم ہو ، امامت ہو یا اذان ہو ۔ لیکن متاخرین نے جب یہ دیکھا کہ لوگوں کی رغبت اس طرف کم ہو رہی ہے اور کوئی بھی اجرت کے بغیر ان کاموں کو کرنا نہیں چاہتا ہے تو ضرورتاً اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا ۔

                ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 56 )

( 9 ) غیر مسلم ( حربی و ذمّی ) کو ہدیہ و تحفہ دینا جائز ہے :

غیر مسلم خواہ وہ حربی ہو یا ذمی یا مستامن ٬ اس کے ساتھ دنیوی معاملات مثلاً : اس کے ساتھ خرید و فروخت کرنا ٬ اس کے یہاں نوکری کرنا یا اس کو اپنے یہاں نوکر رکھنا وغیرہ جائز ہے بشرطیکہ اس عمل سے دین اسلام یا مسلمانوں کو کوئی ضرر اور نقصان نہ پہنچے ۔ اسی طرح شرعی مصلحت کے پیشِ نظر غیر مسلموں کو ہدیہ و تحفہ ( گفٹ ) دینا جائز ہے ٬ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس سے غیر مسلموں کی کسی رسمِ کفر کا اعزاز نہ ہوتا ہو ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں :

دنیوی معاملت میں جس سے دین پر ضرر نہ ہو سوا مرتدین کے کسی سے ممنوع نہیں ، ذمی تو معاملت میں مثل مسلم ہے اور غیر ذمی سے بھی خرید و فروخت ، اجارہ و استجارہ ، ہبہ و استیہاب بشروطہا جائز اور خریدنا مطلقاً ہر مال کا کہ مسلمانوں کے حق میں متقوم ہو اور بیچنا ہر جائز چیز کا جس سے اعانتِ حرب یا اہانتِ اسلام نہ ہو ۔ اسے نوکر رکھنا جس میں کوئی کام خلاف شرع نہ ہو ، اس کی جائز نوکری کرنا جس میں مسلم پر اس کا استعلا نہ ہو ، ایسے ہی امور میں اجرت پر اس سے کام لینا یا اس کا کام کرنا ، بمصلحت شرعی اسے ہدیہ دینا جس میں کسی رسمِ کفر کا اعزاز نہ ہو ، اس کا ہدیہ قبول کرنا جس سے دین پر اعتراض نہ ہو ۔

( فتاویٰ رضویہ ، جلد : 14، ص :421 / 442 ، ناشر : رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

ہاں ! ہندوستان کے غیر مسلم جو کہ حربی ہیں ٬ ان کو نذر ٬ کفارہ ٬ صدقۂ فطر اور قربانی کا گوشت نہیں دے سکتے ۔ البدائع الصنائع میں ہے : لایجوز صرف الکفارۃ و النذر وصدقۃ الفطر و الاضحیۃ الی الحرب . یعنی کفارہ ، نذر ، صدقۂ فطر اور قربانی کا گوشت حربی کافر کو دینا جائز نہیں ہے ۔

( بدائع الصنائع ، جلد : 7 ٬ ص :341 ، مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ فرماتے ہیں :

لا باس للمسلم اذا كانت له قرابة من اهل الذمة ان يهدى اليها . مسلمان اگر اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کو تحفہ اور ہدیہ دیتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ خود نبی کریم ﷺ نے اپنی خالہ کے لیے جو مکہ میں تھیں اور کافرہ تھیں ٬ تحفے میں ایک کنیز کو بھیجا تھا ۔

               ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 63 )

( 10 ) کافر کا جوٹھا پاک ہے :

آدمی چاہے جنب ہو یا حَیض و نفاس والی عورت ٬ اس کا جھوٹا پاک ہے ۔ اسی طرح کافر کا جھوٹا بھی پاک ہے ، مگر اس سے بچنا چاہیے ۔ جیسے تھوک ، رینٹھ ، کھنکار کہ پاک ہیں ٬ مگر ان سے آدمی گِھن کرتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر کافر کے جھوٹے کو سمجھنا چاہیے ۔

( فتاویٰ ہندیہ ٬ کتاب الطہارۃ ، الباب الثالث فی المیاہ ، الفصل الثانی ، جلد اول ٬ ص : 23 ٬ بیروت )

حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ فرماتے ہیں :

جب کافر کا جوٹھا پاک ہے تو مومن کا کیا پوچھنا ٬ وہ تو اس سے کہیں افضل ہے ۔

               ( ملفوظ الصفر ٬ ص : 59 )

مذکورہ بالا فقہی مباحث اور شرعی احکام کے علاوہ بوسیدہ اور پرانی مسجد شہید کر کے نئی مسجد تعمیر کرنے ٬ فجر کی جماعت شروع ہونے کے بعد سنتِ فجر پڑھنے کا جواز ٬ شراب پینے والے مسلم کے ساتھ کھانے پینے کا حکم ٬ شراب کی حرمت و قباحت ٬ خطبہ کی اقلِ مقدار ٬ انا مومن ان شاء اللہ کہنے کا حکم اور تلقینِ موتیٰ وغیرہ کے بارے میں فقہی و شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں ٬ جن کے مطالعے سے حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ کی اجتہادی فکر اور فقہی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ دیگر صوفیا و مشائخ کے مکتوبات و ملفوظات میں اس طرح کے خالص فقہی مسائل و مباحث کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ آپ واقعی ” سلطان المحققين ” ہیں ۔ آپ کے دیگر کتب و رسائل کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ ” ملفوظ الصفر ” کا ایک بار مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔ اللہ رب العزت ہمیں آپ کے علمی و روحانی فیضان سے مالا فرمائے اور آپ کے ارشادات و ملفوظات پر عمل کرنے کی توفیق بخشے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ !

ازقلم: طفیل احمد مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے