راقم الحروف:- #محمداختررضاامجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو
میری کہانی میں وہ روانی و دوانی اور جذبات کی ایسی لاابالی و چنچلتا ہے "کہتے ہی کہتے ناگاہ اسلم رُک گیا”۔ محسوس یوں ہوا کہ کوئی اس کے راستے کی رکاوٹ بن کر شدت سے انتظار کر رہا اور اسکی گویا زبان کی لگام کس اپنا اسیر و قیدی کرنے کی بے لاگ کوششیں کرنے میں محو و مستغرق ہو۔ باوجود اس کے اسلم لاچارہ، بے یار ومدد گار تنِ تنہا اس کی دامِ تزویر و فریب کاری کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں بروئے کار۔ اتنے میں اس کے مخاطب و مقابل اور اسکی معیت میں بیٹھے عمر نے نرمی و شائستگی کے ساتھ اس سے مخاطب ہو کر سوالیہ انداز میں اس سے سوال پہ سوال کرنا شروع کردیا۔
رُک کیوں گئے اسلم؟
بات تو پوری کرلیتے؟
کیا کوئی دقت و دشواری ہے؟
اگر کچھ ہے تو خبردار ضرور کرنا
ممکن ہے کہ میں ہی کچھ تمہاری مدد کر دوں !!!
اسلم چھوٹے سے وقفے کے بعد عمر کی بات کو کاٹتے اور اپنی مہرِ سکوت کو توڑتے ہوئے گویا ہوا۔ اور اپنے دوست ("دراصل وہ شخص جو اسلم کے بالمقابل بیٹھا پوری توجہ کے ساتھ اسکی سرگزشت اپنے گوشگزار کررہا تھا۔ وہ اس کے قریب ترین دوستوں میں سے ایک دوست اور اکلوتا ہم راز تھا۔ جس نے اسکے اب تک کے سارے راز اپنے سینے کے کسی نہاں خانے میں یوں دفن کر رکھا تھا جیسے موت کے بعد مردے کو دفن کردیا جاتا ہے۔ اور اسکے لاشے سے کسی کو بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ بس یہی خاصیت اسکو اپنے ماعدا سے ممتاز بھی کرتی تھی، اور شاید یہی اسلم اور عمر کے ہم راز ہونے کا ایک سببِ عظیم بھی تھا”) کو وہیں سے اپنی داستان دوبارہ اسکی سماعتوں کے حوالے کرنا شروع کردیا جہاں پہنچ کر اچانک وہ ٹہر گیا تھا۔
اور کہنے لگا۔
ساتھ ہی جذبات کے ٹھپیڑوں کا اٹھتا ایک لہرِ بے کراں جس کی طغیانی کسی بھی نحوِ وجود میری وجود کو اپنی وجود سے ملاصق و مماس کر غرق آب کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ گویا میری حالت اب کچھ یوں ہے کہ میں ایسی کشتی کا سوار ہوں جس کو سمندر کی لہروں اور ٹھپیڑوں نے ہر چہار جانب سے اپنی انحطاط میں لے لیا، اور کشتی سمندر کے موجوں کی طغیانی و تلاطم سے ہچکولے کھا رہی ہو۔
ایک مرتبہ پھر عمر، اسلم کی بات کاٹتے ہوئے ناطق ہوا کیا بات ہے؟
تم آج بڑے پریشان سے معلوم ہوتے ہو۔ یوں لگتا ہے کہ تم کسی کی زلفِ پریشاں کو سنوارنے میں شبینہ سے ہی خود کو ہلکان کئے جارہے ہو۔ آخر معاملہ کیا ہے؟ عقدہ تو واشگاف کرو، پرتوں پر پرت یکے بعد دیگرے چڑھتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
اسلم کی اضطرابی دم بدم بڑھتی جارہی تھی بولا اے
میرے عزیز سنو پھر !!!
جن کیفیات سے میں دوچار ہو رہا ہوں جو سابق میں مذکور ہیں۔ وہ میری زیست کے فقط ایک پہلو کا پیش خیمہ ہیں۔ تقریبا چند برس قبل کی بات ہے کہ جہاں سے میری اسیری کا سلسلہ بامِ عروج و ارتقاء کو جا پہنچا۔ میری تباہی اور پسپائی کی وہ پہلی رین تھی جب میں نے اس شگفتہ تبسم، سحر آفریں حسن، ناز و انداز بے تمثال، حسن و جمال کی دوشیزگی نکھار، نہایت ہی شائستہ، مہذب و متمدن شخصیت کی ملکہ، چال میں فتنۂ حشر کی سرگرمیاں، ناز برداروں کی نازنین، محبین کے قلوب کی راحت و تسکین، قہر برپا اور قاتل ادا، کلام کی سحر طرازیوں سے آشنا، گاہ گاہ نیازمندوں اور وفاشناسوں کو خلعتِ کریمانہ سے شاد کام کرنے کا ہنر، ملاحتِ حسن دیکھ انگشت بدنداں لوگوں کا سیلاب، گنجینئہ جمال و زیبائی کا چشمِ ظاہر بین سے مشاہدہ کیا تو یک لخت ہی میں اس پر فریفتہ ہوگیا۔ بس کیا تھا کہ یہیں سے میری شکشتہ حالی اور کبیدہ خاطری کا تسلسل شروع ہوا۔ اور پتہ نہیں کیا کیا ہوا حقیقت و افسانہ کی تمیز تک دشوار سے دشوار تر ہوتی گئی گویا اب حال کچھ یوں ہے۔
اک شخص بن گیا __قوت حیات کیوں
اس میں دکھائی دیتی ہے یہ کائنات کیوں
اسلم، عمر سے کہہ رہا تھا میرے دوست لگتا ہے مجھے فارینہ سے محبت ہوگئی ہے۔ ارے ہاں فارینہ اسی مہ جبین کا نام ہے جس کے متعلق اسلم اتنی شدت سے تشنہ لب وا کئے اس کی محبت کی جام کا منتظر اپنے رفیق کو اپنی سرگزشت سنا رہا تھا۔ کہ اتنے میں عمر نے پھر ایک مرتبہ اسلم سے سوال کیا اچھا یہ بتاؤ محبت ہے کس بلا کا نام ؟؟؟
کہ محبت کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا کیا حقیقت ہے پردہ ہٹاؤ کچھ تو بتاؤ محبت کی بابت۔
آخر یہ چیز کیا ہوتی ہے ؟؟؟
اسلم عمر کے قائم کردہ سوالات کے جواب میں کچھ یوں بڑبڑاتے ہوئے بولنا شروع کیا محبت۔۔۔!!!
محبت کیا ہوتی ہے سرد موسم میں جیسے کڑاکے کی دھوپ، گرما میں بادِ نسیمِ سرد کی تمثال، برسات میں مانندِ بوچھار، اور ربیع میں یوں کہ بادِ صبا نے عالم میں بکھیر دیا ہو بہار ہی بہار۔ محبت جیسے شبنم کی نمی، دل کے نہاں خانے کی کمی، پھولوں کی مہک، بلبل کی چہک، غنچوں کی چٹخ، خوشبو کی بو، معشوق کی خو، سورج کی روشنی، چاند کی چاندنی، تاروں کی جھلملاہٹ، چڑیوں کی چہچہاہٹ، راتوں کا گھپ اندھیرا، اک رونما سویرا، ہے اک طرف مصیبت دیگر جہت بشاشت، شعلوں کی اشتعالی جذبوں کی لاابالی۔
آخر محبت ہے کیا؟؟؟
ہونٹوں کی سسکیاں، آنکھوں کا خمار، کاکل کا حصار، زلفوں کا بکھرنا، عارض پہ انکا چڑھنا، ماتھے پہ بل کا پڑنا، عہد وفا پہ لڑنا، ابرو کی وہ سیاہی، لگے عمر کی کمائی، آنکھوں کی وہ نزاکت جس میں بڑی ہلاکت، اک ایک عضو میں ہے اتنی حسین روانی الغرض روئے گلگوں ہے میری شادمانی۔
آخر محبت ہے کیا؟؟؟
بس اتنا کہہ کر اسلم نے چپی سادھ لی اور خاموشی کا مجسمہ بن بیٹھا۔ جیسے اسے خود نہیں معلوم وہ کہہ کیا رہا ہے۔ اس کو بھی تو کبھی محبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا۔ لیکن اس کمبخت کا کیا بھروسہ کہ کب آ دھمکے۔ اسی یکطرفی اور ناگہانی محبت کے تیر اور برچھیوں کا شکار اسلم بھی ہوا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا حواس باختہ ہو کر کہا اسے ہی پتہ نہیں کیا کہے جارہا تھا، کہ اچانک اس کو ہوش آیا۔ اور سوچنے لگا کہ کیا اول، فول بکے جارہا تھا۔ فورا سے اس نے خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھا۔
عمر نے کہا اسلم ایک بات یاد رکھنا محبت میں عاشق اور محبوب کی مثال شمع اور پروانے کی سی ہوجاتی ہے۔ کہ پروانہ شمع سے دور یہ جانتے ہوئے بھی نہیں رہ پاتا کہ اگر شمع کی قرب و جوار اختیار کری اس نے تو ضرور موت اسے اچک لے گی۔ پھر بھی پروانہ بخوشی اپنی جان قربان کر جاتا ہے شمع کی چاہ میں۔ مجھے لگتا ہے تم بھی اسی کشتی کے شہسوار ہو اب تو ذرا سنبھل کر یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے اسلم یاد رہے۔
پھر کہتا ہے شاید محبت کی مثال ریگستان میں بھٹکے ہوئے مسافر کو دکھنے والے ریگزار میں چمکتے ریتے کی سی ہے۔ یعنی اس سراب کی طرح جو دکھتا تو ہے کہ پانی کا وجود ہوگا اور دور سے اس کا احساس بھی ہوتا ہے۔ مگر قریب جاکر پتہ چلتا ہے کہ اسکی حقیقت فقط فریب ہے۔ تم بھی ایسی ہی لاحاصل شئی کے حصول میں لگے ہوئے ہو جو ممکن تو نہیں دکھ رہی ہے، مگر فی نفسہ تو ممکن ہے خیر۔ اتنا ضرور سمجھ لو کچھ بھی ہو چانسز بہت کم ہوتے ہیں ایسے معاملات میں۔
عمر کی چپی سادھنے کے بعد اسلم نے پھر ایک مرتبہ لبِ خموشاں کو جنبش دیا اور قوت گویائی کو زور بخشی اور کہنے لگا یہ ایک داستان حسرت ہے۔ یک طرفی محبت ہے اس طرح کی محبت میں وصال گر چہ ممکن نہیں، اگر چہ داستان ادھوری رہے اور محبت حسرت ہی رہے پھر بھی کوئی بات نہیں اب تو محبت ہوگئی بس اتنا کافی ہے۔
کیفاتِ بالی کچھ یوں ہے کہ دل سوزندہ ہے فراق یار میں۔ اور شائقِ لقاء گر ہو ممکن وگرنہ دید پر قانع، گر مردمکِ چشم نہ سہی، تو خواب ہی پر مکتفی، یوں نہ ہو تو تصور ہی سہی، مگر یاں بھی معطل عاطل۔ اب قلبِ مضمحل رقصِ بسمل میں سرگرداں، عشق و عرفان میں مسمریز، بہر گام گرفتارِ وارفتگئ جاناں، طالبِ خمارِ مئے عشقِ حبیب، کیفیت و اضطرابئ قلب "قضا نے لاکے قفس میں شکستہ بال کیا” کا مصداق، درآں کے میکشوں اور زندبازوں سے قطرہ دو قطرہ ہی سہی جام برائے نام کا ہی متمنی و مقتضی۔ آبگینۂ احساس چشمۂ عشق و عرفاں میں گوندھے خمیر کی مصنوعی ساخت کا شاہکار۔ سوزِ دل یہ کہ دیدِ روئے گلگوں کا شائق، مگر یاں نہیں جنبشِ لب و بیکراں احساس سے بنتا کوئی کام، شادکامئ مرادآوری بھی محض خواب و منام و خیال۔
نہ گھر کا رکھا نہ اس دَر کا ہائے ناکامی
ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
انہیں وجوہات کو بیان کر اسلم نے اپنے کلام کو ختام بخشا اور داستان حسرت کو انجام تک پہنچا دیا۔ بولا صاحبا !!!
یہی وجوہات تھیں اضطرابی کی اور یہی قلق دل میں بھی باقی تھا کہ داستانِ محبت ادھوری اور حسرت ہی رہ گئی۔ یہی ایک پہلو تھا جس کی بابت سابق میں، میں نے آگہی کرائی اور جملہ کیفیات کو بیان کیا۔ الحاصل داستان حسرت ہی رہی۔ یہی وجہ ہے اس کا نام داستانِ حسرت رکھنے کی بھی۔ اتنا کہہ کر دونوں متفرق ہوئے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے قصہ تمام ہوا۔۔۔۔ !!!
نوٹ:- یہ تحریر ادبی دنیا سے متعلق ہے اس میں فقط نگارش و ادب سے واسطہ ہے، قطعِ نظر واقعہ کے اور سارے کیریکٹرز مفروضی ہیں۔