سیاست و حالات حاضرہ

جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ : حقیقت کی گمشدگی اور معاشرتی امن پر حملہ

اس دور جدید میں معلومات کی آسانی سے فراہمی نے خبروں کے ارسال کو مزید وسعت بخشی ہے، مگر اس سے چندنفرت پسندوں نے کھلواڑ کیا اور ایک سنگین مسئلہ بھی پیدا کیا ہے: "جعلی خبروں کا عروج” انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پلک جھپکتے ہی خبریں دنیا کے ایک کونے سے دوسری اور تک پہنچتی ہیں، لیکن اس عمل میں کذب پر مبنی یا مبالغہ آرائی کی حامل معلومات کو پھیلانا بھی اتنا ہی آسان ہو گیا ہے۔ ایسی جھوٹی خبریں معاشرتی تانے بانے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ اکثر عوام کو جذباتی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی غرض سے بنائی اور پھیلائی جاتی ہیں۔اور بظاہر ملک ہند میں ایسے کئی منافقتی پیکر اپنے سر اٹھا رہے ہیں، تاکہ ملک کا مرتب شدہ نظام درھم برھم ہو جائے ۔ اس کا بنیادی قصد مسلمانوں کو دوشی ٹھہرا کے نیچا دکھانا ہے اور یہ ایک طرح کی خفیہ سازش ہے۔
ہندوستان میں مختلف گروہوں کے درمیان نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے کے لیے جعلی خبروں کا استعمال کئی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ سال قبل ایک مخصوص مذہبی گروہ پر حملے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہوئے ایسی خبریں پھیلائی گئیں کہ وہ دوسرے فرقوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ یہ لفاظی نتیجتا مختلف علاقوں میں فساد ات کا باعث بنی اور کثیر تعداد میں جانیں گئیں ساتھ ہی ساتھ خونا خونی کا ماحول بپا رہا۔ بعد میں تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایسی خبریں جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کے لیے جاری کی گئی تھیں، جس کا مقصد لوگوں میں نفرت اور غصہ پیدا کرنا تھا۔ایسی دروغ خبریں نفسیاتی طبیعت کو بھا جاتی ہیں اور پھولے نہ سماتے یہ باتیں زود اثر بھی ہوتی ہیں۔اسی طرح انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر جعلی خبروں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ مثالا، ایک فرضی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ کسی علاقے میں مسلم کمیونٹی کے چند افراد نے مل کر ایک ہندو پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ ایسی فرضی پوسٹس میں اکثر جذباتی مواد اور چمکدار سرخیاں ہوتی ہیں، جو بغیر تصدیق کے برق رفتاری سے وائرل ہو جاتی ہیں۔ ان کا مقصد عوام کے جذبات کو بھڑکانا اور سماجی ہم آہنگینظام کو درھم برہم کرنا ہے۔ جعلی خبروں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تنقیدی سوچ اور تصدیق ضروری ہے۔
سماجی سطح پر جعلی خبروں کے پھیلاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل میں ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ عوام جب بارہاں جھوٹی خبروں کا سامنا کرتے ہیں تو ان میں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی صلاحیت مدھم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، لوگ اکثر سچائی پر بھی شک کرنے لگتے ہیں، جس سے ایک قسم کی بے یقینی کی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے اعتمادی نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ صفت اعتمادی گویا مر چکی ہے۔
بھروسے کا بھرم ٹوٹا ہے راہی
رفاقت ختم ہونا چاہتی ہے
اس مسئلے کی سنگینی اس وقت اور عروج پاتی ہے جب جعلی خبریں اہم اقدامات جیسے صحت، تعلیم، اور معیشت کے حوالے سے عام کی جاتی ہیں۔ کووڈ-19 کی وبا کے دوران کئی جھوٹی خبریں وائرل ہوئیں جنہوں نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا اور لا تعداد لوگ ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہو کر اس کے استعمال سے انکار کرنے لگے۔ایسی خبریں عوام کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے اقدامات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
جعلی خبروں کے اس رجحان کی دفاع کے لیے لوگوں میں معلومات کی تصدیق اور سچائی تک پہنچنے کا شعور بیدار ی درکار ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے نہ صرف حکومت اور میڈیا اداروں بلکہ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ جب بھی کسی خبر کو فاروڈ کیا جائے تو، ضروری ہے کہ اس کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق کی جائے تاکہ جھوٹ پر مبنی معلومات کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔
آج کے دور میں جعلی خبروں کا پھیلاؤ ایک ایسا چیلنج بن چکا ہے جس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ سچائی کی تلاش اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی کوششیں اگر عوامی سطح پر مضبوط ہوں تو یقیناً یہ مسئلہ قابو میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں متعارف کرائیں جو جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کو روکے اور صارفین کو مستند معلومات تک رسائی فراہم کرے۔
مصنوعی ذہانت اور جعلی خبریں: معلوماتی دور کا نیا فتنہ
مصنوعی ذہانت، آج کے اس دور میں ترقی کا سر چشمہ ہے جو انسان کی زندگانی میں انقلابی برپا کرہا ہے۔لیکن، اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کا منفی استعمال بھی سامنے آیا ہے۔ ان میں سب سے سنگین پہلو جعلی خبروں کو ہوا دینے کا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی جیسے مشین لرننگ Machine Learningاور ڈیپ لرننگDeep Learning، ڈیٹا کو تجزیہ کرنے، پیغامات کو تیار کرنے، اور ان کو مجذوبیت سے پھیلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی جعلی خبروں کو ایسے انداز میں تیار کرتی ہے کہ وہ دیکھنے اور سننے میں رتی برابر بھی جعلی نہ لگے۔ مثلاً، "ڈیپ فیک” Deepfakeویڈیوز، جن میں کسی شخص کی صورت اور آواز کو اس باریکی سے نقل کیا جاتا ہے کہ حقیقت اور جعل سازی میں تفریق کرنا عام انسان کے لیے محال ہو جاتا ہے۔ یہ ویڈیوز اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، جن کا مقصد عوام کے جذبات کو آتش کدہ کرنا اور افواہوں کو تقویت دینا ہوتا ہے۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے نہ صرف جعل سازی کی جاتا ہے بلکہ انہیں وائرل کرنے میں بھی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ بوٹ اکاؤنٹسbot accounts، جو AI کے زیر نگرانی چلتے ہیں، بڑی تعداد میں جعلی خبریں شیئر کرتے ہیں اور ان پر commentsکرتے ہیں، جس سے یہ خبریں مزیدحقیقی اورمنظور معلوم ہوتی ہیں۔ اس عمل سے نہ صرف غلط معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے بلکہ یہ عوامی رائے پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔لہذا ایسی فرضی خبروں سے ساودھان رہے !

ازقلم: محمد فیضان فیضی
جامعہ دارالہدی کیرلا
7385873566

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے