وہ جاتے ہوئے آسرا دے گيا
ملیں گے کبھی پھر دعا دے گيا
وہ پل بھر کا مہمان اور عمر بھر
مجھے جاگنے کی سزا دے گیا
رُلایا مجھے ایک عرصے تلک
وہ ملنے کا مجھ کو پتا دے گیا
وہ ماضی کے لمحوں پر چھڑکا نمک
مجھے درد دل کی دوا دے گیا
وہ جس کو محبت سے دیکھا کِیے
یہ مرزا کو جی بھر دغا دے گیا
از قلم :مرزا بشارت کریم