مشیت الہی سے جن حضرات نے ندائے خلیل پر لبیک کہا وہ ہی خوش نصیب
دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں سوئے حرمین شریفین رواں
دواں ہیں، زندگی بھر جس کعبہ کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کرتے رہے اب
وہ خود اپنی آنکھوں سے کعبۃ اللہ شریف کا دیدار کریں گے، جس نبی کریم
رؤف و رحیم ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں اب ان کی بارگاہ عالی جاہ میں حاضر
ہونے کا شرف پائیں گے۔ گویا یہ حضرات کوئ عام نہیں بلکہ خاص الخاص
افراد ہیں۔ یوں تو حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے اور رب ذو الجلال نے اپنے مقدس کلام میں متعدد مقام پر حج کے متعلق حکم فرمایا ہے مزید یہ کہ احادیث طیبہ میں بھی ادائیگئ حج کے کئی سارے فضائل وارد ہوئے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے حج کے اس عظیم فریضہ کے متعلق خصوصی فضائل، برکات و منافع بیان فرمائے ہیں، بعض افراد حج فرض ہونے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ حج پر زیادہ مصارف آتے ہیں، مال کثیر خرچ کریں تو شاید ہم فقر وفاقہ سے دوچار ہو جائیں گے، ایسے افراد کو بھی حج کی ترغیب دلاتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی حج کی برکت سے فقر و تنگدستی کو دور فرما دیتا ہے اور گناہوں کو بھی معاف فرمادیتا ہے، فقر و تنگدستی کا دفع ہونا ظاہری فائدہ ہے اور گناہوں کا معاف کیا جانا باطنی فائدہ ہے، اس طرح حج ظاہری و باطنی ہر دو فوائد کا جامع ہے۔
جیسا کہ جامع ترمذی میں حدیث شریف ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ.
ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم بے درپے حج و عمرہ کیا کرو کیونکہ حج و عمرہ فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دفع کرتے ہیں جیسے بھی لوہا اور سونا چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔ اور مقبول حج کا ثواب تو جنت ہی ہے۔
(جامع الترمذي، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرة، حدیث نمبر: 815)
انبیاء علیہم السّلام کے ذاتی اور وقتی کام جو کسی بھی حالت میں ان نفوس قدسیہ سے صادر ہوئے وہ امت کے لیے قانون شریعت کی حیثیت میں ہوگئے ان اعمال کی نقل ہی عبادت و ریاضت ہے۔ انہی کو فرض واجب کا درجہ دیا گیا ان اعمال و اقوال کی نقل کرنے کو ہی نماز روزہ حج و عمرے سے موسوم کیا گیا ۔ ان اعمال صالحہ سے ہی جسم وجان کی قوت اور ازلی ابدی شان وبقا ہے۔ یہ نقش قدم ہی بندے کی روحانی طاقت کو اتنا عظیم کردیتا ہے کہ ولی ابدال ، اوتاد غوث و قطب بن جاتا ہے ۔ اسلام کی بہت سی عبادات ہیں نماز ، روزہ ، خیرات ، صدقات ، قربانی وغیرہ۔ ان تمام سے ہی بندہ کو روحانی قوتیں حاصل ہوتی ہیں مگر حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے کہ اس عبادت مقبول سے اتنی شان والی روحانی قوت حاصل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت سے حاصل نہیں۔
یہ عبادت جسم کے تمام آلائشوں اور روح کی تمام کثافتوں اور اعضاء و جوارح کے گناہوں، لغزشوں، خطاؤں اور نجاستوں کو اس طرح مٹا دیتی ہے۔
چنانچہ مسلم وابن خزیمہ وغیرہما عمرو بن عاص رضى الله عنہ سے مروى ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہے: حج ان گناہوں کو دفع کر دیتا ہے جو پیشتر ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب كون الاسلام يهدم ما قبله. إلخ الحديث: ١٢١، ص ٧٤)
یہ ہی وہ جسمانی تزکیہ اور روحانی قوت ہے جو حج کر نے سے حاصل ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حج اور دیگر عبادات میں چند طرح کے افراق ہیں۔
اول (١) یہ کہ حج وہ عبادت ہے جو انبیاء کرام اور رب تعالی کے محبوب بندوں نے اپنی ذاتی ضرورت کے تحت وقتی طور پر ادا فرمائی، مثلاً احرام اُس لباس کی یادگار ہے جو آدم علیہ السلام جنت سے پہن کر زمین پر آئے اور سفید رنگ آقاء کائنات ﷺ کی پسندیدگی کی یادگار ہے۔ قربانی ابراہیم کے تشکر اور اسمعیل عَلَیہما اسلام کے فدیے کی یادگار ہے۔ اسی طرح عرفات مزدلفہ منی کا قیام ان ہی انبیاء عليهم السلام کی یادگاریں ہیں جن کو روحانیات کی تمام طاقتیں خود رب تعالی نے اس انداز سے بخشیں کہ ان کی ہر عادت و عبادت کی نقل و اتباع ہی مومن کے لیے روحانی قوت کا درس عظیم اور حصول و دستیابی کا مرکز اتم ہے۔
ثانی (٢) یہ ہے کہ ہر عبادت یا تو صرف بدنی ہے یا مالی یا لسانی مگر حج تمام بدنی مالی لسانی عبادات کا مجموعہ ہے۔
ثالث (٣) حج مساوات اسلامی کا اعلی نمونہ ہے یہاں پہنچ کر محمود و ایاز غلام و آقا کی یکجائی کا پتہ لگتا ہے۔ جب لاکھوں مسلمان اکہٹہ جمع ہوتے ہیں تو کوئی چاہکر بھی امیر وغریب آقا ومولی زمہ دار و ماتحت کے مابین امتیاز نہیں کرسکتا۔
رابع (٤) فرق یہ کہ دیگر عبادات اول سے آخر تک محض عبادت ہی ہیں۔
مگر حج وہ عبادت ہے جو اپنے ابتدائی ادوار میں عبادت نہ تھی
بلکہ بہت زمانہ بعد مومن کو قوت روحانی بخشنے کے لیے یہ نقل بزرگاں عبادت الہیہ بنا دی گئیں ۔ وہ اس لیے کہ اللہ عزوجل کو اپنے محبوبوں کی ادائیں ایسی پسند آئ کہ رب نے چاہا کہ آنی والی نسلیں تا قیامت ان کی اتبع کر کر حصول قوت روحانی کے حق دار بنیں۔
خامس (٥) یہ سفرِ حچ کی وضع بالکل سفرِ آخرت کی سی ہے اور مقصود یہ ہے کہ حجاج کو اعمال حج ادا کرنے سے مرنے کا وقت اور مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات یاد آئیں۔ مثلاً
●️ شروع سفر میں بال بچوں اہل و عیال سے رخصت ہوتے وقت سکرات موت کے کو یاد کرو۔
●️ وطن سے باہر نکلتے وقت دنیا سے جدا ہونے کو اور سواری کے جانوروں پر سوار ہوتے وقت جنازہ کی چار پائی پر سوار ہونے کو یاد کرو۔
●️ احرام کا سفید کپڑا پہنتے وقت کفن میں لیٹنے کو یاد کرو اور پھر میقات حج تک پہنچنے میں جنگل و بیابان قطع کرتے وقت اس دشوار گزار گھاٹی کے قطع کرنے کو یاد کروجو دنیا سے باہر نکل کر میقات تک عالم برزخ یعنی قبر میں تمہیں کاٹنی ہے راستہ میں راہزنوں کے ہول وحراس کے وقت منکر نکیر کے سوالات اور اس بیکسی میں ہول و ہراس کا خیال کرو۔
●️ جنگلی درندوں سے قبر کے سانپ بچھو کیڑوں مکوڑوں کو یاد کرو اور میدان میں رشتہ داروں اور عزیز واقارب سے علیحدہ تن تنہا رہ جانے کے وقت قبر کی تنہائی اور وحشت کو یاد کرو۔
●️ جس وقت چیخ چیخ کر لبیک اللھم لبیک پڑھو تو زندہ ہونے اور قبروں سے اٹھنے کے وقت کے اس جواب کو یاد کرو جو اللہ تعالیٰ کی ندا کے وقت میدان حشر میں حاضری کے لیے تم عرض کرو گے۔
الغرض حج میں ایک عبرت اور معاملہ آخرت کی یاد دہانی ہے جس سے ہر شخص جس قدر بھی اس میں قلب کی صفائی اور دین کی ضروریات کے خیال رکھنے کی وجہ سے استعداد ہوگی آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔
اس قانون الیہ سے دو باتیں ثابت ہوئیں پہلا یہ کہ روحانی غذائیں اور قوت روحانی صرف عبادت الیہ سے حاصل ہوتی ہیں کہ یہ کہ عبادت الہیہ صرف نقل بزرگاں اور اتباع انبیاء علیہم السّلام کا نام ہے۔
الحاصل یہ کہ جب بندہ حج عمرہ، ریاضت ، تقوى کی طہارت ، روزہ ، نماز، زکوة اور حقوق العباد وحقوق اللہ کى پوری ادائیگی کر کے تزکیہ نفس و اجسام اور قوت روحانی اکمل حاصل کر لیتا ہے تو پھر نتیجہ عالم ناسوت میں روح کی ہی شہنشاہی حکمرانی ہوتی ہے اور جسم انسانی لاغر سوار کی طرح ہوتا ہے ، پھر بندہ زمین پر ہوتا ہے ، مگر نگاہیں عرش تک پہنچتی ہیں۔ رفتار بندے کی ہوتی ہے اور تخت بلقیس اٹھا چلا آتا ہے۔ حکم نامہ خلیفة المسلمین کا ہوتا ہے اور دریا نیل قیامت تک کے لیے جاری ہو جاتا ہے. کرامت عبد القادر غوث اعظم کی ہوتی ہے اور پرانے مردے زندہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تمام جیزیں قوتِ بدنِ انسانی نہیں بلکہ روحانی قوتوں کا کمال ہے۔
وَاللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ عزوجل وﷺ-
بڑا حج پر آنے کو جی چاہتا ہے، بلاوا اب آئیگا کب یا الہی
میں مکے میں آؤں مدینے میں آؤں، بنا کوئی ایسا سبب یا الہی
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ،
إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ
✍️ از: محمد سمير خان عطارى إبن محسن خان
متلم: درجہ خامسہ جامعة المدینه (فيضان امام احمد رضا خان عليه الرحمه) حیدرآباد
دنیوی شعبہ : Maulana Azad National Urdu University
واٹس ایپ نمبر : 9381883576
جیمیل: Sameerkhanattari12@gmial.com
مستقل شہر اور علاقے کا نام : باركس، صلاله، حیدرآباد