مذہبی مضامین

قربانی ہدیۂ تشکر اور گُناہوں کی بخشش کا ذریعہ!

ازقلم۔ محمد عسجد رضا مصباحی

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ تاریخ انسانی کا ایسا بے مثال اور شاندار باب ہے جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ہمارے لئے قربان کردیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا”اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔ سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘(الصافات، 37: 102) اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو فیضانِ نبوت کے طفیل فہم و شعور کی بلند سطح عطا کر رکھی تھی۔ آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے ذبح نہ کریں بلکہ آپ علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ بھی پیغمبرانہ بصیرت کا حامل تھا۔ قرآن حکیم نے آپ علیہ السلام کے اس جواب کو بھی ابدی شان عطا فرماتے ہوئے اپنے دامن میں جگہ دی۔ عرض کرنے لگے”ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ (الصافات، 37: 102)آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابا جان! آپ نے تو خواب دیکھا ہے، خواب کی تعبیر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ آپ اگرچہ بچے تھے لیکن اتنا جانتے تھے کہ نبی کا خواب عام خواب نہیں ہوتا بلکہ وحی ہوتی ہے۔ ثانیًا یہ جواب اس خیال سے بھی دیا کہ ایسا نہ ہو کہ انسانی اور بشری تقاضوں کی بناء پر شفقتِ پدری غالب آئے اور بیٹے کی گردن پر چھری چلتے چلتے ہاتھ لرز جائیں، اس لئے بحیثیت بیٹا عرض کیا "اگر ﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
(الصافات، 37: 102)حضرت اسماعیل علیہ السلام نے صبر کے عمل کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ اسے اﷲ تعالیٰ کی توفیق قرار دیا۔یہی وہ آدابِ گفتگو تھے جن کا تصور بھی عام انسان سے نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا؀

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

جب ذبح ہونے والا صبر کا مظاہرہ کر رہا ہو تو لامحالہ ذبح کرنے والے کا صبر بھی دیدنی ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نیت سے منیٰ کی طرف لے کر چل پڑے۔ راستے میں شیطان نے بارہا ورغلانے کے جتن کیے لیکن آپ علیہ السلام کے پائے استقلال میں فرق نہ آیا ۔ باپ نے ﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بیٹے کی گردن پر چھری رکھی۔ یہی وہ تاریخی لمحہ تھا جس کو ﷲ رب العزت کی ذات اور قدسیانِ فلک دیکھ رہے تھے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور باپ بیٹا دونوں محبت الٰہی کے اس بہت بڑے امتحان میں عشاقانِ جہاں کی نمائندگی کرتے ہوئے شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو مینڈھے کی قربانی سے بدل دیا۔ جنت سے ایک مینڈھا لایا گیا جسے راهِ خدا میں قربان کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا۔‘‘(الصافات، 37: 107-108)اللہ تعالیٰ نے اس ذبحِ عظیم کے فدیے کے طور پر دی گئی مینڈھے کی قربانی کو قبولیت کا وہ درجہ عطا کیا کہ اس مثال کو آئندہ آنے والی ملتِ اسلامیہ کے اندر ایک عظیم اسلامی شعار کے طور پر قائم رکھا۔ قربانی کی رسم کو دین کا اہم رکن بنانے کے لئے ایسے نبی اور ایسی امت کو منتخب فرمایا جو ہر نبی اور ہر امت سے عظیم اور قیامت تک قائم رہنے والی تھی تاکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس عظیم یادگار کو قیامت تک ہر سال دس ذو الحج کو تازہ کرتے رہیں۔

اِحیاءِ سنَّتِ اِبۡراہیۡم عَلَیہ السَّلامۡ:
قربانی کا عمل وہ سنتِ ابراہیمی علیہ السلام ہے جسے امتِ محمدیہ ﷺ میں یادگار کی صورت میں قیامت تک کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے اور امتِ مسلمہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے عملی صورت میں اس کا مظاہرہ کرتی رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے‘‘(الحج، 22: 34)
اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فعل اس قدر پسند آیا کہ امت مسلمہ کے لیے اس کی تقلید کو عبادت قرار دے دیا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا "یا رسول اللہ ! یہ قربانی کیا شے ہے؟ تو آقا ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آقا ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر مینڈھا ہو تو بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تب بھی اس کی اون کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔‘‘(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، رقم: 3127)

حُضُورِ اکرم ﷺ کی قُربانی کا جَانور:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ س مروی ہے : کہ ’’حضور نبی اکرم ﷺ جب قربانی کاارادہ کرتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے، سینگوں والے، کالے اور سیاہ دھاری دار ہوتے۔ ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح کرتے جو بھی اللہ کو ایک مانتا ہو اور رسول ﷺ کی رسالت کا قائل ہو اور دوسرا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آلِ محمد ﷺکی جانب سے ذبح فرماتے۔‘‘
(ابن ماجه، کتاب الأضاحی، رقم: 3122)
پس حضور نبی اکرمﷺ نے خود اپنی، اپنے اہل بیت اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی کی۔ یہ عمل آپ ﷺ کو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے احیاء اور یاد گار کے طور پر اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا تھا، اس لیے آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد اپنی اور میری طرف سے قربانی کرناجس پر امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تادمِ وصال عمل کیا۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب الاضحیة عن المیت، 3: 4، رقم: 2790)
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے افعال کی تقلید کرنے سے نہ صرف اُن کے اعمال کی یاد زندہ رہتی ہے بلکہ نیک عمل کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ سنتِ ابراہیمی علیہ السلام پر کاربند رہنے کا عمل امتِ مسلمہ کو یہ یاد کراتا ہے کہ جس طرح امت آج اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے عمل کو زندہ رکھنے کے لیے جانور قربان کرتی ہے اسی طرح اس خون کو گواہ بنا کریہ وعدہ کرے کہ دین کی سربلندی کے لیے جان کی قربانی کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو بھی دریغ نہیں کرے گی۔ یہ ذہن نشین رہے کہ اگر قربانی کے اندر یہ روح کار فرما نہ ہو تو قربانی اپنے تقاضوں اور مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتی۔

رضائے الٰہی کا حُصُولۡ:
ہر عمل انسانی شخصیت، نفس اور قلب و باطن پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے لیکن کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے خاص اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ قربانی بھی انہی اعمال میں سے ہے۔ وہی قربانی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصود و مدعا بھی یہی تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ہرگز نہ (تو) ﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘(الحج، 22: 37)یہی وجہ ہے کہ رضائے الٰہی کے لیے دی جانے والی قربانی کے خون کا قطرہ ابھی زمین پر نہیں گرتا کہ اللہ کی بارگاہ سے شرف قبولیت کا پروانہ جاری ہو جاتا ہے اوربندے کو بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی وہ شان عطا ہوتی ہے جس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن اللہ کو خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ (اور قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے تو تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے۔‘‘(ترمذی شریف)

اِیثَار و قُربانی کا جَذبہ:
ایثار کا معنی ہے کہ انسان کو کسی چیز کی حاجت اور ضرورت ہو لیکن اس کے باوجود کسی دوسرے ضرورت مند انسان کو وہ چیز دے۔ تاریخِ اسلام ایثار و قربانی کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مومن کی ان ہی صفات کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:”اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔‘‘(الحشر، 59: 9)ہماری عبادات بھی ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتی ہیں۔ نماز خواہشِ نفس کی قربانی، زکوٰۃ مالی ایثار، جہاد جانی قربانی اور حج و عمرہ ہمیں مالی و جانی ہر دو طرح کے ایثار کا درس دیتے ہیں لیکن محبت کی اصطلاح میں ان سب عبادات کا مقصود اپنی محبوب ترین چیز کو اپنی محبوب ترین ذات کے طلب کرنے پر اس کے سپرد کر دینا ہے۔مشیتِ ایزدی اور رضائے الٰہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے فوراً تیار ہو گئے۔ اپنی محبوب ترین چیز دوسرے کو دینے کا جذبہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک اس سے بے پناہ محبت نہ ہو جس کے سپرد چیز کی جا رہی ہے ۔ قربانی کا یہ جذبہ خود سپردگی اور تسلیم و رضا سے پیدا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے عشق تھا اس لئے مشکل امتحان سے آسانی سے گزر گئے۔
عید کے دن مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی میں جانور قربان کر کے وہ جذبہ ایمانی اپنے دلوں میں تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر اللہ کی رضا کے لئے ہمیں جانور تو کیا جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔گویا قربانی کا اصل مدعا مسلمان کے اندر جذبۂ ایثار اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر شے قربان کرنے کے لیے مستعد ہو جائیں اور بڑی سے بڑی قربانی دینے میں تساہل اور تردّد نہ کریں۔ عید الاضحی کے دن اس خیال کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جذبہ قربانی کسی صورت ماند نہ پڑے اور ہم میں اتنی جرات و ہمت ہونی چاہیے کہ اگر دین، قوم، ملک اورمعاشرہ بھی ہم سے قربانی مانگے تو ہم پیچھے نہ ہٹیں اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کریں۔

قُربانی بھی ہدیۂ تشکر کے لئے ایک بڑا ذریعہ:
عید الاضحی کے روز قربانی کا ایک بڑا مقصد بارگاہِ رب العزت میں ہدیہ تشکر پیش کرنا بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کی قربانی قبول فرما کر انسانیت کو زندگی کی عظیم نعمت سے نوازا۔ یوں قربانی کے لیے انسانوں کی بجائے جانوروں کی قربانی کو قیامت تک کے لیے ملتِ ابراہیمی کے لیے لازم قرار دے کر بنی نوعِ انسانی پر بے پایاں احسان فرمایا۔ دستورِ زمانہ ہے کہ کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو محسن کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جس سے محسن خوش ہوکر مزید نوازتا ہے۔ اظہارِ شکر مزید انعام و اکرام کا ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں انسان کی اپنی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے عبارت ہے۔ لا تعداد نعمتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ محسنِ حقیقی کا اس طرح سے شکر ادا کیا جائے کہ زندگی مکمل طور پر سراپا تشکر بن جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
(البقرة، 2: 152)زندگی جیسی عظیم نعمت کا شکر اسی صورت میں کما حقہ ادا ہو سکتا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو اسے رضائے الٰہی کے لیے قربان کر دیا جائے۔؀

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے