ازقلم : کامران غنی صبا
کیا آپ نے غور کیا ہے کہ جو لوگ خوش مزاج ہوتے ہیں وہ ہنسنے مسکرانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور تلاش لیتے ہیں۔ جن کے مزاج میں مزاح کا عنصر ہوتا ہے وہ انتہائی معمولی باتوں سے بھی مزاح کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں اس کے برخلاف ترش مزاج لوگ ہنسی مذاق کی باتوں میں بھی غیر ضروری سنجیدہ ہو کر اکثر اوقات اچھے خاصے تعلقات تک بگاڑ لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہر بات میں تنقید اورتنقیص کا پہلو ڈھونڈنے میں ماہر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی ان سے ہمدردی سے پیش آتا ہے تو وہ اسے بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ آخر اِس ’’نگاہِ التفات‘‘ کی وجہ کیا ہے ؎
مجھ کو کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
کچھ لوگ گلہ شکوہ کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ’’زمانہ بہت خراب ہے، چھوٹے بڑوں کا ادب نہیں کرتے، پڑھ لکھ کر بھی ملازمت نہیں ملتی، علم کی قدر نہیں ہے، تعلیم کا معیار گر گیا ہے، مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، بھلائی کا زمانہ نہیں رہا ، قوم تعلیمی اعتبار سے بالکل پسماندہ ہو چکی ہے۔۔۔۔۔‘‘ غرض ایسے لوگوں کے پاس گلے شکووں کی ایک ایسی بیاض موجود ہوتی ہے جس میں بھول سے بھی امید، حوصلہ افزائی، محبت اوراعتماد کے الفاظ نہیں نکلتے۔ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزار کر طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ انسان مایوسی اور ناامیدی کے حصار میں چلا جاتا ہے، اس طرح کے ہم خیال لوگ جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو گھنٹوں اپنا وقت گلے شکوے کی نذر کر دیتے ہیں۔ کبھی ان سے پوچھ کر دیکھیے کہ آپ نے ان حالات کو تبدیل کرنے کے لیے کون سا کردار ادا کیا؟ تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ملے گا یا زیادہ سے زیادہ جواب یہی ہوگا کہ ’’کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم نے کوشش کر کے دیکھ لی قوم سدھرنے والی نہیں ہے، حالات نہیں بدل سکتے وغیرہ۔
کبھی آپ نے سوچا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان جس مزاج کا ہوتا ہے اسے ماحول بھی اس کے مزاج کے مطابق ہی ملتا ہے؟ جن لوگوں کا ذہن سیاسی ہوتا ہے وہ ہر چیز کو سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھنے لگ جاتے ہیں، داؤ پیچ کا کھیل کھیلنا ان کی سرشت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جو لوگ ایماندار اور سچے ہوتے ہیں ان کے عزیز و اقربا بھی عام طور سے اسی مزاج کے ہوتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں بہت سارے لوگ رشوت دے کر کام کروانے میں ماہر ہوتے ہیں، انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کون سا کام کس کلرک سے ہونے والا ہے اور کون سی فائل کس طرح آگے بڑھوائی جا سکتی ہے۔ اس مزاج کے لوگ معمولی سے معمولی کام کے لیے بھی رشوت دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ رشوت دے کر کوئی بھی کام آسانی سے کروایا جا سکتا ہے جبکہ کچھ لوگ بڑے سے بڑا نقصان سہنا گوارا کر لیتے ہیں لیکن ناجائز طریقہ اختیار کرنا انہیں کسی قیمت پر منظور نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ بھی اپنی ’’خودی‘‘ کے نشے میں سرشار رہتے ہیں اگر ان کا کوئی نقصان ہو بھی جائے تو انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔
تمام باتوں کا لب لباب صرف اتنا ہے کہ قدرت ہمیں ہماری فکر کے مطابق ماحول فراہم کرتی ہے۔یعنی خوش مزاج لوگوں کو خوش مزاجی کا ماحول، بدمزاج لوگوں کو بدمزاجی کا ماحول، تنقیص و تبصرہ سے دلچسپی رکھنے والوں کو ان کی پسند کا ماحول قدرت By Default عطا کر دیتی ہے۔اس بات کی وضاحت اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔(بخاری و مسلم)
اس حدیث قدسی کی روشنی میں غور کیجیے کہ جو لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے، انہیں ہر طرف خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی برائیوں پر نظر رکھنے کی بجائے دوسروں کی کمیوں کو اجاگر کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ بہت سارے نوجوان ملازمت نہیں ملنے کی شکایت کرتے ہیں، ایسے نوجوانوں کی اکثریت جتنا اپنی ملازمت نہیں ہونے سے پریشان نہیں ہوتی اس سے زیادہ اسے اس بات کی فکر ہلاک کرتی رہتی ہے کہ ’’نااہلوں‘‘ کو ملازمت مل گئی اور میں بیٹھا رہ گیا۔ حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اہل انسان کبھی ناکارہ نہیں بیٹھا رہ سکتا۔
ایک نوجوان اکثر بیمار پڑ جایا کرتا تھا۔ ایک بار اس کے استاد اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے، انہوں نے شاگرد سے خیریت پوچھی تو شاگرد نے انتہائی شکوہ بھرے انداز میں جواب دیا کہ کیا بتاؤں سر، اللہ تعالیٰ کو میں ہی ملا ہوں بیمار ڈالنے کے لیے، جب دیکھیے بیمار پڑا رہتا ہوں۔ استاد نے شاگرد کو سمجھایا کہ تمہاری بیماری کا راز یہی ہے کہ تم نے اللہ سے یہ گمان بنایا ہوا ہے کہ وہ تمہیں بیمار ڈالتا رہتا ہے۔ تمہارے گمان کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔
انسان جب اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہے تو اُس کا سر ہمہ وقت جذبہ شُکر سے جھکا رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں گلہ و شکوہ نہیں کرتا۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، اپنے سے کمزور لوگوں کو دیکھ کر خود کو تسلی دیتا ہے کہ ’’دیکھو اسی دنیا میں کیسے کیسے لوگ کس کس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں، تمہاری حالت تو پھر بھی بہت بہتر ہے۔‘‘ اس شکرگزاری کے نتیجے میں اللہ اپنے وعدے کے مطابق بندے کو نوازتا ہے: ’’اور شکر گزار بنو گے تو میں تم کو زیادہ نواز دوں گااور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘(سورہ ابراھیم)
جس شخص کا ایمان اللہ کی ذات پر جتنا کامل اور پختہ ہوگا اُس کا گمان بھی اُسی قدر پختہ تر ہوگا اور یہی گمان اُس کی زندگی کو ایک نصب العین اور سمت عطا کرے گا۔وہ کبھی حالات سے گھبرائے گا نہیں۔ کبھی کسی سے شکوہ نہیں کرے گا۔ اس کے لب پر کبھی حالات کا نوحہ نہیں ہوگا۔جہد مسلسل اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہوگا
اور اس جہد
مسلسل کے نتیجے میں اگر وہ کبھی ناکام بھی ہوگا تو مایوس نہیں ہوگا بلکہ اس کی ہر ناکامی اسے ایک نیا حوصلہ دے گی۔ گمان اور یقین کامیابی کی شرطِ اولیں ہے۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر نامن کہتے ہیں:
’’جب آپ کسی کام کو کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو حقیقت میں یہ خیال آپ کے دماغ میں پہلے سے موجود ہوتا ہے کہ آپ یہ کام نہیں کر پائیں گے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے ذہن میں ناکامی کے جو خیالات ہیں وہ آپ کی شخصیت میں ایسی منفی قوتیں پیدا کرتے ہیں جو آپ کو کامیاب نہیں ہونے دیتیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر یقین کی قوت پیدا کریں اور غیر یقینی کو اپنے دماغ سے نکال دیں۔‘‘
گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ اگر آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، پرسکون اور خوش رہنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہن سے تمام منفی خیالات، تمام گلے شکووں کو نکال باہر کیجیے۔ اللہ سے اچھا گمان رکھیے۔ یقیناً اللہ اپنے وعدے سے انحراف نہیں کر سکتا ۔وہ ہم سے ہمارے گمان کے مطابق ضرور پیش آئے گا۔