ازقلم: جمال احمد صدیقی اشرفی القادری
بانی دارالعلوم مخدوم سمنانی شل پھاٹا ممبرا
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
سلسلۂ اشرفیہ کے بےباک خادم اور علمبردار ۔ معمار قوم وملت قائد ملت خلیفہ حضورفقیہ ملت و خلیفۂ حضور اجمل العلماء حضرت علامہ الحاج حفیظ اللّٰہ قادری اشرفی نوراللہ مرقدہ ۔ بانی ومہتمم دارالعلوم غریب نواز بیدولہ چوراہا ڈومریاگنج سلسلہ اشرفیہ کے بےلوث سپاہی تھے ۔ انھوں نے کمال وفاداری سے دین اسلام مذہب اہلسنت و جماعت مسلک اعلی حضرت اور سلسلہ اشرفیہ کے فروغ واستحکام کےلیے اپنا مثالی کردار ادا کیا ۔ پوری زندگی اشرفی لاحقہ کسی ہیرے کی طرح اپنے نام کے ساتھ لگا کر محفوظ رکھا ۔ اس لئے پس ازمرگ ان کے نام کےساتھ اشرفی کا لاحقہ برقرار رکھنا ان کے روح کی سیرابی کا ذریعہ اور اصل خراجِ عقیدت ہے ۔
علامہ اشرفی علیہ الرحمہ کا خانوادہ پچھلے پچاس سالوں سے شہزادہ فاتحِ امرڈوبھا ۔ اجمل العلماء حضرت علامہ پیر سید شاہ اجمل حسین اشرفی الجیلانی کچھوچھوی اطال اللّٰہ عمرہ وظلہ کی خدمت کو اپنے لیے سرمایہ افتخار سمجھا ۔ علامہ حفیظ اللّٰہ صاحب اشرفی علیہ الرحمہ کے قسمت میں چارچاند اس وقت لگی جب پیرومرشد نے ان کے آخری سفر جنازہ امامت فرماکر ان کے درجات کی بلندی کی سند عطا فرما دی ۔
علامہ اشرفی ایسے اشرفی کمانڈر تھے جنھوں نے اپنے پیرومرشد کی تین نسلوں کی خدمت کی ۔ ان کے رگ وریشے میں اشرفیت خون بن کر دوڑتی تھی۔
اسی کے ساتھ ساتھ علامہ مرحوم نے مشربی تعصبات کو کبھی فروغِ علم وحکمت کے درمیان آڑے نہ آنے دیا ۔ مستانہ وار اپنی پوری متاعِ حیات دارالعلوم غریب نواز کی تعمیر وترقی میں لگا دیا ۔ اس ادارے کو علامہ مرحوم نے اپنے خون جگر سے سیراب کیا ۔ جس کا مشاہدہ اہلِ بصیرت واہل علم کررہے ہیں ۔ اور کرتے رہیں گے ۔ اہلِ عقیدت ومحبت کی نگاہ جب جب دارالعلوم غریب نواز کی فلک بوس عمارتوں پر پڑے گی علامہ مرحوم کو ضرور یاد کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرے گی ۔
آج دارالعلوم غریب نواز اطراف واکناف میں علامہ موصوف کے نام سے جانا جاتا ہے یہ منظر اکثر اداروں میں نظر آتا ہے کہ بانیان ادارہ کا مقبرہ یا آخری آرامگاہ ادارہ سے منسلک یا ادارہ کے احاطہ میں موجود ہوتا ہے جس سے متعلمیں اور حاضرین و آنے والے ادارہ ہمدردوں کو درس دینا ہوتا ہے کہ یہی وہ ذات ہے جس نے اس قلعہ کو تعمیر کیا ہےاور خون جگر پلا کر سینچا ہے
مگر افسوس بالائے افسوس یہ رہی کہ یہ شرف دارالعلوم غریب نواز بیدولہ کے حصہ میں کچھ کی وجہ سے نہ آیا جس گلستاں و باغیچے کو علامہ نے اپنا قیمتی وقت و خون جگر دے کر سینچا پروان چڑھایا آج اسی مالی کو اس گلستاں میں جگہ نہ ملی ۔ جب کی ہونا یہ چاہیے کہ اس انجمن کے میر کا مقبرہ وہیں ہو جس انجمن کی تعمیر وترقی پر تاحیات نازاں رہے ۔ اور جس کے عروج کے لئے اپنی دمِ آخر تک کوشاں رہے ۔ جس کو اپنی آن بان شان سمجھتے رہے ۔ اپنی یادگار مانتے رہے ۔
آج اسی شخصیت کو دفن کےلئے دوگز زمین تنگ کردی گئی ۔
علامہ مرحوم کی روح آواز دے رہی ہے کہ
غیروں سے گلہ نہیں ۔ اپنوں سے کچھ ملا نہیں
میں دکھوں کی وہ کتاب ہوں ۔ جسے کسی نے پڑھا نہیں